مسولینی کی جو قبر بولتی ہے تو ہٹلر کی روح جھومتی ہے

Yasser Chttha

مسولینی کی جو قبر بولتی ہے تو ہٹلر کی روح جھومتی ہے

از، یاسر چٹھہ

میڈلین البرائٹ Madeleine Albright اس قوم کی پہلی خاتون وزیر خارجہ  secretary of state تھیں، جس قوم کو ابھی تک خاتون سربراہِ مملکت منتخب کرنے کی ہمت و توفیق نہیں ہو پائی۔ آپ 1997 سے 2001 کے بیچ اپنے اس منصب پر فائز رہیں۔ آپ کی پیدائش چیکو سلواکیہ کے شہر پراگ میں ہوئی، نام میری ہانا Marie Jana تھا۔ نازیوں سے بچنے کے چکر میں جنگِ عظیم دویم کے دوران برطانیہ پہنچیں۔ جنگ ختم ہوئی، یہ اپنے خاندان سمیت وطن واپس پہنچیں تو کمیونسٹ آگے نئے حالات تیار کیے کھڑے تھے۔ نتیجتاً اب امریکہ جانے پر مجبور ہو گئیں۔

میڈلین البرائٹ کی بچپن میں تربیت و پرورش تو کیتھولک طور اطوار کی پر ہوئی۔ پر بعد ازاں جب آپ اپنی زندگی کے 59 ویں برس میں تھیں تو کافی تحقیق و جستجو کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہ در اصل یہودی النسل تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے اعِزاء و اقرباء کی ایک بڑی تعداد نازیوں Nazis کے قایم کردہ عقوبت خانوں concentration camps میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

میڈلین البرائٹ کا ذاتی تجربہ اور ان کی زندگی کی کہانی انہیں بیسویں صدی کی تاریک طاقتوں کی سیاستوں کے مقابل و متوازی لا کھڑا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ذات و حیات سے وابستہ یہ چیزیں انہیں ایسی حیثیت و مرتبہ بھی عطا کرتے ہیں کہ وہ موجودہ وقتوں میں تنگ نظری اور آزادیوں کے لیے سُکڑتی سیاسی فضا میں آتے بدلاؤ بھانپ سکیں اور اس بدلاؤ کو سامنے لانے کا کام بھی کریں۔ معروف برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے میڈلین البرائٹ کی اِسی برس یعنی 2018 میں شایع ہونے والی کتاب Fascism: A Warning کے تناظر میں پانچ سوالات پر مبنی انٹرویو کیا۔ میڈلین البرائٹ نے ان پانچ سوالات کے کیا جوابات دیے؛ ساتھ ہی ان کی کتاب سے کچھ حصوں کے اقتباسات و تلخیص شدہ ٹکڑے پیش کیے گئے۔ یہ تحریر ان خیالات اور جوابات کے اساسی نِکات کو ایک طرح سے مربوط کر کے پیش کرنے کی ایک کاوش ہے۔


متعلقہ تحریریں:  جمہوریت محض تصنع تو نہیں  از، نصیر احمد

ریاست اور پوسٹ ماڈرن دنیا  از، جاوید قاضی

ایک کشمیری کا تصورِ ہندوستان یقیناً آپ سے مختلف ہے  از، پروفیسر منوج کمار جھا


اگر چِہ اس وقت کسی بھی حکومت کو، ما سوائے شمالی کوریا، بیسویں صدی کی اس اصطلاح کی ذیل میں فسطائی نہیں کہا جا سکتا، لیکن میڈلین البرائٹ کہتی ہیں کہ کچھ ایسی پریشان کن نشانیاں، علامات اور رجحانات ضرور موجود ہیں جن کی نظیریں مسولینی اور ہٹلر کی افزائش و ترویج میں پیش آمدہ وقتوں کے مِثل و متوازی دکھائی دیتی ہیں۔

ان نشانیوں اور علامتوں میں معاشی تفریق و تفاوت، مرکزی دھارے اور سوچ کی حامل سیاسی جماعتوں پر بڑھتا عوامی عدمِ اعتماد، عوامی مباحث و گفتگوؤں کی زنگ آلودگی و بنجر پن، اقلیتی گروہوں اور طبقات کی اُتھل پُتھل  اور بے توقیری، جبر پسند حکم رانوں کی جانب سے آزادئِ اظہار پر بے جا پابندیاں، منطق و عقل اور سچ کا حُلیہ بگاڑ کر رکھ دینے کے رویے وغیرہ۔

پھر کیا شہری مجہول ہو کر ان علامات اور نشانیوں کو آگے سے آگے قدم بڑھاتے دیکھتے رہیں… نہیں، جھوٹ کے آگے چُنیدہ اور خوب ترین ردِ عَمل سچ کا اظہار ہے؛ اور نفرت کے سامنے زیادہ سے زیادہ محبت و جَودَت سے پیش آنا ہے۔ آج اگر ہمارا جمہوری اداروں اور روایات سے اعتماد مُتزلزل ہوتا ہے تو ہم اس جد و جہد میں شاید شکست کھا جائیں گے۔

ان جمہوری ادارے میں بھلے جتنے بھی سقم ہوں، ظلم و جبر اور مطلق العنانیے پر مبنی کسی بھی نظام سے بہ درج ہا بہتر ہیں۔ تاریخ کے اوراق ایسے کئی افراد سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے بہت زور آوری کر لی تھی، پر انسانوں کی خاموش جد و جہد کے آگے ٹوٹ کر گر پڑے، منہدم ہو گئے۔ اس وقت حالات پریشان کُن ضرور ہیں، پر مایوس کُن ہر گز نہیں۔

فسطائیت معاشرتی پناہ گاہوں social anchors کی عدم دست یابی کی صورت میں ترویج پاتی ہے۔ جب یہ اعتقاد بڑھتا جائے کہ ذرائع ابلاغ ہر وقت جھوٹ ہی بولتے ہیں، عدالتیں محض بد عُنوان ہی ہیں، جمہوریت صرف ڈھکوسلا ہے، اور یہ کہ کسی بھی عہد کے مسائل کا واحد حل ایک سخت گیر حُکم راں ہے۔

فسطائیت یا فاشزم  Fascism کی کوئی متفق علیہ قسم کی تعریف موجود نہیں۔ اس لیے یہ اصطلاح بے دریغ استعمال ہوتی ہے۔ میڈلین البرائٹ کے دی اکانومسٹ جریدہ کو اپنی کتاب کے سیاق و سباق میں دیے گئے انٹرویو کی رُو سے، فسطائیت کوئی لیفٹ، رائٹ یا سنٹر کا نظریہ نہیں، بل کہ یہ تو طاقت کے حصول، طاقت کے چھیننے اور طاقت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے کچھ ایسے حِیلوں اور بہانوں کا نام ہے جن کو کوئی بھی فرد، ادارہ یا جماعت اختیار کر سکتی ہے جو ایسا سب کچھ اپنی قوم، گروہ یا جتھے کا راگ الاپتے کر سکتی ہے۔ کوئی بھی فسطائی گروہ یا حکومت، تشدد یا کوئی بھی دیگر حربہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بہ رُوئے کار لا سکتی ہے۔ فسطائیت اپنی گہری پَرتوں سے جمہوریت دشمن ہوتی ہے، بے شک کوئی فسطائی حکومت جمہوری طریقے سے ہی عنانِ حکومت سنبھالنے میں کامیاب ہوئی ہو۔

مسولینی نے کہا تھا کہ طاقت کے حصول و ارتکاز کے دوران اس مقصد کو کسی پرندے کے ایک ایک کر کے پَر نوچنے جیسے عمل کی طرح کرنا زیادہ سود مند رہتا ہے۔ مسولینی تو مَنوں مَٹی تَلے دفن ہو چکے، لیکن ان کے حربے اور طور طریقے آج بھی زندہ اور رُو بہ عمل ہیں۔ ہر نئی صُبح جب ہم ایک نئے سورج کی کرنیں دیکھنے کے لیے بیدار ہوتے ہیں، تو ہمیں دنیا کے کسی نا کسی گوشے سے فسطائیت کی ایک نا ایک نئی سیاہ کرن، یا کسی نُچتے ہوئے پَر کی پھڑپھڑاہٹ بھی ساتھ ہی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔

یہ پھڑپھڑاہٹ کبھی تو کسی مرکزی دھارے کے سیاست دان کی پگڑی اچھالنے کی صورت ظاہر ہوتی ہے؛ یہ پھڑپھڑاہٹ کبھی کسی ایسے سیاست دان کے منظر عام پر دندناتے ہوئے اور للکارتے ہوئے آنے کی صورت میں سننے دیکھنے کو ملتی ہے، جس کا مَطمَحِ نظَر لوگوں کو جوڑنا نہیں ہوتا، بَل کہ لوگوں کو آپسی تقسیموں اور انتشاروں کی کھائیوں میں پھینکنا ہوتا ہے۔

ان پھڑپھڑاہٹوں میں نَمُو دار ہونے والے میدانِ سیاست کے نئے شہ سوارؤں کی نظر ہَمہ دَم کسی نا کسی طور پر اپنی فتح پر ہوتی ہے؛ بھلے یہ فتح کسی بھی قیمت پر اور کتنے ہی گئے گزرے طریقوں کے شانوں پر سوار ہو کر ملے۔ ان سیاست دانوں کے پاس کسی عظمتِ رفتہ اور کسی موہوم سنہری عہد کے خواب ہوتے ہیں، جو وہ دھڑا دھڑ بیچتے ہیں۔ پہلے طلب پیدا کرتے ہیں، پھر گاہک ملتے جاتے ہیں۔

اکثر اوقات جن نشانات سے، جن پِچھل پیروں کی آہٹ سے ہم نے دندناتی ہوئی فسطائیت کے پاؤں کی چاپ سننا ہوتی ہے وہ مدہم ہوتے ہیں۔ ہمیں انہیں پہچاننے میں تھوڑی مشکل ہو رہی ہوتی ہے: کچھ حربے تو آئین و دستور کی اصلاح کے خوش نُما تصورات کے نام پر انسانی آزادیوں، زور زَبر دستیوں کے خلاف ڈھال کے طور پر موجود ضوابط اور شخصی وقار کی ضمانتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہیں، ذرایع ابلاغ کی آزادی، دفاع و سلامتی کی قربان گاہ پر بَلّی چڑھائی جاتی ہے؛ وہ جو غیر، دوسرے others اور بیگانے قرار دے دیے جائیں ان کے مُنھ پر کالک ملی جاتی ہے، ان کی شناخت ان کا چہرہ مُہرہ نہیں بَل کہ ان کی دُم قرار دی جاتی ہے؛ انہیں انسانوں کی صف سے ہی خارج قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے اوپر سادے، ضرب المثلی نوع کے چھوٹے چھوٹے جملے نعرے بنا کر، ان کے کپڑوں میں چوہوں کی جگہ چھوڑے جاتے ہیں؛ اور ان نعروں کو عین حق و آفاقی سچ اور کارِ ثواب بنا دیا جاتا ہے۔ نعروں کے صارفین کے نعرے جتنے بلند آہنگ ہوتے ہیں، اتنی ہی ان کی اپنی خود احتسابی کی چتاؤنیاں اور ضمیر کی کسی آواز کی چیخ مدہم ہوتی جاتی ہیں۔

جمہوریت و سیاست کے اندر سے سَت اور روح نچوڑ کر انہیں محض ایک خالی، نمائشی و آرائشی ڈھکوسلا بنا دیا جاتا ہے۔ لیکن ڈھنڈورا کسی طور پر بھی اور کسی لمحے بھی ہلکے سُروں پر نہیں پِیٹا جاتا۔

تجربہ اگر گواہی دے تو یہ یہی باور کراتا ہے کہ فسطائیت، اور وہ رجحانات جو اس کی طرف جاتے ہوئے رَستے کھولتے ہیں، اپنی فطرت میں ہوا کی لہروں پر سوار ہو کر طالبوں اور خواہش مندوں کے نقل کرنے واسطے پہنچ جاتے ہیں۔ نفرت اور تقسیم کے پروردہ گروہ، جَتھے، طبقے اور جماعتیں اپنیے زہریلے اور انتشاری پروپیگینڈے سے پارلیمانوں اور ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے جاتے ہیں۔

یہ اپنے شور شرابے سے سماجی و عوامی بحث مباحثوں کو اغواء hijack کر لیتے ہیں؛ ان کے طفیل عمومی و عوامی بحث مباحثوں اور مکالموں public discourses میں غداری، نفرت، تہمت، تحقیریات و تکفیریات داخل ہو آتی ہیں۔

فسطائیت کی اس اصطلاح کا جس قدر چلن ہوتا ہے، جتنی زیادہ بار یہ برتی جاتی ہے، اس کی رُو سے شاید ہی دنیا کے کسی گوشے کا کوئی حکم راں ہو گا جو اس کی سب نشانیوں کا، اس کی اصل اور خالص روح کا جامع ہو…؟

مسولینی آج اپنی قبر میں پڑے ہیں، اور ہٹلر کی تو شاید قبر تھی ہی نہیں، لیکن یہ خبر و اطلاع کسی طرح بھی ہمیں زمانے کی دوڑ میں سست ہو کر سو جانے کا پیغام نہیں دیتی۔ فسطائیت کی جانب بڑھتا ایک قدم، مسولینی کی تمثیل میں پرندے کا نُچتا ایک اور پَر، افراد اور معاشروں کا بہت نقصان کرتا ہے؛ ایک اُٹھا قدم دوسرے قدم کا رستہ آسان اور ہموار کرتا ہے۔ ہمیں رستہ گُم نہیں ہونے دینا۔ ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ جابر اپنے ارادے کم ہی آشکار کرتے ہیں؛ پہل پہل خوش نما باتیں ہی پیش کی جاتی ہیں، لیکن اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جتنا وقت زیادہ گزرتا جاتا ہے، اور ان کی طاقت کے سنگھاسن پر گرفت مضبوط ہوتی جاتی ہے، یہ اور سے اور بھیانک ہوتے جاتے ہیں۔ ہمیں کسی لمحے میں بھی نہیں بھولنا کہ جمہور دشمن اقدامات جن چند لوگوں کے مفاد میں ہوتے ہیں ان چھوٹے جتھوں، گروہوں، cliques، مفاداتی انجمنوں، مافیاؤں، مقدس لبادوں میں ملفوف تنظیموں اور اداروں کو ایسے اقدامات بہت بھاتے ہیں۔

پرائمو لیوائی Primo Levi مرگِ انبوہ یعنی ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے اطالوی ادیب ہیں۔ آپ ان دلائل کے دوران کہ ہر عہد کی اپنے طور اطور اور رنگ ڈھنگ کی فسطائیت ہوتی ہے، مزید کہا ہے کہ آخری اور اہم ترین وقت critical time اس سَمے آن پہنچتا ہے:

(جب) ما ورائے قانون (ایجنسیوں، اداروں)، پولیس راج کے تحت خوف و ہراس پھیلانے سے بھی آگے بڑھتے (بڑھتے) بات اطلاعات و خبر رسانی کے ذرایع کی اغواء کاری hijacking، (ان پر قبضہ،) اور اطلاعات و خبروں کی صرف (اور صرف) توڑ موڑ کر ہی پہنچنے دینے کی اجازت، نظامِ عدل و انصاف پسِ پُشت ڈال دینے (یا اسے اپنی خواہشات کی موم کی گُڑیا بنا دینے کی حد تک کر دینے)، نظامِ تعلیم کو مفلوج کر دینے (اسے سوال افروز نہین بَل کہ جوابات حاملہ بنا دینے)، اور کئی ایک لطیف و (غیر مَرئی) طریقوں سے کسی ایسے خوابوں کے جزیروں کی جانب ناسٹیلجیائی nostalgic ماحول کی چِلمنیں اُٹھائی جاتی ہیں کہ جس سمے سارے ااور چاندنی تھی۔

اگر پرائمو لیوائی دُرُست کہتے ہیں، (شک تو نہیں ہوتا کہ درست نا کہہ رہے ہوں،) تو  آج ہم اسی طرح کے دور میں آن پہنچے ہیں۔


Excerpted from “Fascism: A Warning”. Copyright © 2018 by Madeleine Albright. HarperCollins, New York. All rights reserved for The Economist.

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔