سنہری زمانوں کے سراب

سنہری زمانوں کے سراب

سنہری زمانوں کے سراب

از، یاسر چٹھہ

سنہری زمانوں کی تاثیر بہت حد تک نشہ آور مشروب ایسی ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ نشہ آور مشروب کی آس میں دنیا گَنوائے بیٹھے ہیں۔ کچھ اس سے وابستہ وعید کو وقتی مان کر یہیں نوشِ جان کر کے نشیلے ڈکار مارتے جاتے ہیں۔

سنہری زمانوں کی نشہ آور مشروبات کی طرح شدید چاہت و طلب ہوتی ہے۔ بھلے یہ سنہری زمانے خلافت کی تحریکوں کے خوابوں میں برآمد ہوں، یا داعش و طالبان کو کُمک دینے میں معاون ہوں۔ لیکن یہ سنہری زمانے سب کے من بھاوت ہیں۔ سنہری زمانوں کی تعمیر و تشکیل کیسے ہوتی ہے، اس کی ایک مثال کے پیچھے راقم نے کچھ جِہد کی۔ حیرانی اب کچھ برسوں سے کم کم ہوتی ہے۔ لیکن Johanna Hanink کا Even the ancient Greeks thought their best days were history مضمون پڑھا تو ہلکی سی حیرانی نے انگڑائی لی۔

سنہری زمانوں کی کچھ مثبت جِہتیں بھی ہوتی ہیں کہ یہ پروپیگنڈا کے اوزاروں کی شکل میں بہترین کام کرتے ہیں۔ یہ سوئے ہُووں کو جگانے کے لیے نئے سٹیرائیڈز کی خوراک کا کام کرتے ہیں۔ لیکن ان سے وابستہ سب سے بڑی دُشواری یہ ہوتی ہے کہ یہ مصنوعی ہوتے ہیں۔ ان کی تاریخ میں حقیقی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہ ایک صنعت شدہ دوا ہوتی ہے۔ جھوٹ، ملاوٹ اور وقت (صدیوں کی بنیادی اکائیوں میں) اس کی اختراع کی پُشت پر ہونا ضروری امر ہوتا ہے۔

سنہری زمانے تاریخ اور وقت کی نا تو دائروی اور نا ہی خطی حرکت پر یقین کی پیداوار ہوتے ہیں، اور نا ہی یہ کسی حقیقی مثبت انداز میں اپنے لمحۂِ موجود (دھائیوں اور حالیہ صدیوں کی اکائیوں میں) کا ادراک و تجزیہ کرنے دیتے ہیں۔

تاریخ کا منفی تصور اور سنہری زمانوں کی تعمیر و تشکیل کی پشت پر جھوٹ اور کِذب حال کے تجزیے میں بننے والی رکاوٹ کے طور پر مستقبل کی تیاری کے آگے بھی سدِ راہ بنے رہتے ہیں۔ سنہری زمانے دوسرے درجے کی مایوسی کو جنم دیتے ہیں (پہلے درجہ پہ یہ کہ خواب آلود لوگوں کو پہلے کے موہومہ سنہری زمانے کو اپنے جنم میں تاریخ کے دائرے میں واپس لے آنے میں جو فرَسٹریشن ہوتی ہے)۔ یہ خود کشیوں اور دہشت کاریوں کے مختصرالمدتی حل پیش کر کے انسانی تہذیبی ترقی اور کسی حد تک حاصل شدہ  شہری و انسانی آزادیوں کو بھی معکوس سمت میں لے جاتے ہیں۔

یونان جہاں کے علوم و فکریات کا حوالہ دیے بغیر ہمارے موجودہ عہد میں بھی اچھے خاصے عالم و حکیم اور دنش ور کئی گُنا مزید معتبر بن جاتے ہیں، وہ پچھلی کچھ صدیوں سے چلتے چلتے موجودہ حالت میں دانش و علم کے مراکز میں سے نہیں رہا۔ وہ یونان جہاں ہمارے وطن کے مزدوری پیشہ لوگ پچھلی کچھ دھائیوں کے دوران اپنی جان پر کھیل کر اور کچھ اپنے جسم کے گوشت کو سرحد پر آوارہ جانوروں کی خوراک بنانے کا خطرہ مول لے کر بھی کنٹینروں اور کشتیوں کے ذریعے قصدِ معاشی سے ہجرت کرتے رہے ہیں، اب بہت خراب معاشی صورت حال کا شکار ہے۔

یورپ کے ارد گرد کے نسبتاً خوش حال رشتے دار ممالک__ جو اس یونان کے قرض خواہ ہیں__ وہاں کے اخبارات اور میگزین اسے اس کی آج کل کی معاشی دگرگونی پر مطعون کرتے ہیں۔ وہ یونان کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ کہاں سے ثریا نے اسے یورپ میں اب کی حالت میں دے مارا۔ مطلب یہ کہ نہ صرف فرض کیا جاتا ہے بل کہ بار ہا باور بھی کرایا جاتا ہے کہ  پہلے کوئی مقامِ ثریا یا سنہری زمانہ تھا، جہاں سے یونان پٹخا گیا۔

ہمارے یہاں کے Don Quixotes بھی امہ کے متعلق اسی طرح کے خواب دن چڑھے دیکھتے رہتے ہیں اور اپنے کسی سنہری دور کے ماتم و مرثیہ میں جُتے رہتے ہیں۔ اپنے حال کا ادراک کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ مستقبل کی بھی کوئی واضح بنیاد نہیں رکھ پاتے۔

اس کے آس پاس کے یورپی ممالک کے علاوہ خود یونان کا اپنا میڈیا بھی اسی مقدس پامال جملے کے ڈھول گلے میں ڈالے رکھتا ہے کہ یونانی کبھی عظیم تھے، لیکن آج انھوں نے اسلاف کی عظمت کھو دی۔ اپنے اسلاف کے آج وہ پا سَنگ بھی نہیں رہے۔

مغربی یورپ میں سقراط، سوفیکلیز، اور تھیوسیڈائیڈیز کے وقتوں کا اجلا نکھرا چمکتا تصور ایک ناستلجیا کی صورت میں یونانیوں کی رگوں میں کڑوی کسیلی حسرت بن کے دوڑتا ہے۔ یہ حسرت جو کبھی طعنہ بنتی ہے، تو کبھی الزام کی شکل میں ڈھلتی  ہے۔

اس صورت احوال میں سوال مُنھ چِڑاتا ہے کہ کیا یہ وُہی یونانی ہیں جن کے ہاں سقراط آئے، افلاطون رہے، مائرن، فیڈیاز، پنڈار نے جوت جگائے، سوفیکلیز نے المیے لکھیے، فیثا غورث اور تھیوسیڈائیڈز جیسے قد آور انسان  رہے وہاں آج اس قدر قحط الرجال ہے کہ کوئی قابل ذکر شاعر نہیں، کوئی موسیقار نہیں، کوئی فلسفی نہیں، کوئی فنکار نہیں۔

لیکن یہ دکھ اور یہ کرب کہ یونان جس کا پدر سلطان تھا، آج کیوں مفلوک الحال ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا واقعتا کوئی خاص الخاص یونانی سنہری عہد تھا کہ جو آج کا اور پچھلی کچھ دھائیوں اور صدیوں کا نوحہ اور حسرت کی سِسکی بنا ہوا ہے؟

جوہانا ہینک جو کہ براؤن یونی ورسٹی روڈ آئی لینڈ میں کلاسیکی عُلوم کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور ان کی 2017 میں ایک کتاب بَہ عنوان The Classical Debt: Greek Antiquity in an Era of Austerity آئی ہے، کہتی ہیں یہ حسرت اور ہتھیلیوں میں آنکھیں لیے سسکی کوئی آج کی بات نہیں۔ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اتنی ہی پرانی جتنا کسی بھی  قسم کے خوابوں کا سہارا سنہری زمانہ ہو سکتا ہے۔

یہ درد پانچویں صدی قبل مسیح میں بھی آنسووں کی جھڑی کا باعث تھا۔ اس وقت بھی ایتھینز والے ماضی کی سورجوں کے غروب ہوجانے کو روتے تھے۔ گئے دنوں کی اسیری میں تھے۔ اس کرب و الم کی اسیری سے چند دھائیاں پہلے ہی ایتھینز کے شہری جنگجووں citizen soldiers  نے اپنے دشمن ایرانیوں کو زبردست شکست دی تھی۔ پرانے عہد میں اس جنگ کے سپاہیوں کو عظیم ترین پِیڑھی اور نسل کے طور دیکھا جاتا رہا۔ یہ میراتھن کے مقام پر 490 قبل مسیح میں لڑی گئی جنگ تھی کہ جو تاریخی تفاخر اور سُنہری زمانے کا ایک سنگِ میل جانی جاتی رہی۔ اسکائیلس، جو کہ ایک معتبر المیہ نگار ہیں، وہ بھی اس جنگ میں شریک ہوئے۔

اس جنگ کے جیتنے کے کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد یونانیوں کو اس فکر نے گھیر لیا اور وہ اس ناستلجیا کے ہاتھوں وقت کے پانی کے دھارے کے نیچے دھری نمک کی ڈَلی بن گئے کہ اب انھیں ماضی کی عظمت کو چُھونے کا کوئی وسیلہ نہیں دست یاب ہو گا۔

میراتھن کی جنگ کی تاریخی فتح سے عین چھیاسٹھ  (66) برس بعد ارسٹوفینیز نے ایک طربیہ بعنوان The Knights  لکھا۔ اس طربیہ میں وہ اپنے سنہری زمانے کی آس میں رنگا ناستلجیائی مزاح پیش کرتے ہیں۔ اس ڈرامے کے دس برس بعد ایک اور ڈرامہ نگار یوپلیس (Euplis)  The Demes لکھا۔ نے ارسٹوفینیز کی تکنیک میں ناستلجیائی طربیہ لکھا۔

یہ دنوں The Knights اور The Demes پیلوپونیزیئن جنگ Peloponnesian War ناستلجیائی طربیے کے ختم ہونے سے پہلے کے زمانے کے ہیں۔ یہ مذکورہ جنگ ابھی ختم نہیں ہو پائی تھی ارسٹوفینیز نے مذکورہ بالا اپنے طربیہ کی رو میں پی ایک اور طربیہ بَہ عنوان The Frogs لکھا۔ اس وقت میں جب کہ ابھی سقراط اور سوفیکلیز حیات تھے، یونانی اپنے ملک کو ایک بار پھر سے عظیم بنانے کی فکر میں گُھلے جا رہے تھے۔

ناستلجیائی شواہد و شہادتیں اور آثار چوتھی صدی قبلِ مسیح میں شدید تر ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ایتھینز سیاسی حوالوں سے انتہائی پستی میں چلا گیا تھا۔ اس وقت کے سیاست دانوں اور عوامی مجمع باز یونان کو پھر سے عظیم  بنانے کی ضرورت پر بہت زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو کہتے رہے کہ پھر سے اپنی بحری طاقت کو تعمیر کیجیے، پھر سے اپنی سلطنت کی بنیادیں رکھیے۔
ان روہانسی آوازوں کی ناکامی کو کچھ زیادہ وقت نا لگا کہ بحیرۂِ روم میں ایک نئی سلطنت نے اپنی بنیادیں جمانا شروع کر دیں۔ مقدونیہ کی نئی سلطنت کے ڈول ڈلے تو ایتھنز والوں نے بھی اپنے گلوں سے زیادہ بلند اور پُر سوز آہنگ کی آوازیں نکالنا شروع کر دیں کہ اب تو ایتھینز کے اقتدارِ اعلیٰ کی کچھ سُوجھن ہو جائے۔ ماضی کے سنہری پن کو پھر سے واپس لانے پر بہت زور دیا گیا۔

جوہانا ہینک کہتی ہیں کہ ماضی کی عظمتیں اس وقت کی شہری زندگی کے کندھوں پر کسی طور پر بھی ہلکا بوجھ نہیں تھا۔ اس وقت کے ایک المیہ نگار استامیداس  Astydamas شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ وہ اثر و نفوذ میں بھلا کیوں کر ماضی کے المیہ نگاروں سے مسابقت و مقابلہ اور ہم سَری کر سکتے ہیں۔ یہی بات اس وقت کے عوامی جب ڈیماستھینیز  Demosthenes کے لبوں سے برآمد ہوتی ہے کہ مجھ  سے اسلاف کی سی عظمت کے تقاضے نہیں نبھائے جاتے۔ الٹا آپ دل جلاتے ہیں کہ ان کے ہم شہر ایتھینز والے اپنا جنازہ  آپ اٹھائے ہوئے جاتے ہیں۔ اپنی قبر خود کھود رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ہم وطن اب عسکریت پراس قدر پیسہ خرچ نہیں کرتے، بل کہ وہ میلوں ٹھیلوں اور طاؤس  و رباب کو اول جان کر ان پر زیادہ خرچ و صرف کرتے ہیں۔ آپ بہت پر زور انداز میں اپنے ہم عصروں کو بد عنوان، سست، مالی طور پر بے پروا قرار دیتے اور کہتے کہ ان کے ہم عصر و ہم وطن تو اپنے اسلاف کے قدموں کی خاک کو بھی نہیں چھوتے۔ یہ مت بھولیے جو اسلاف کے درجے پر فائز  کروائے گئے اُنہیں ابھی دنیا سے پردہ کیے  زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔

کسی قدر حیرانی کا باعث اور لطف کی بات یہ ہے، جوہانا ہینک کہتی ہیں، کہ یہ خیال کہ یونان کبھی عظیم تھا، اور وہ عظمت آج نہیں رہی، اپنی اصل میں کلاسیکی یونانی عہد کا ہی پروردہ تھا۔ دوسرے کلاسیکی یونانی خیالات کی طرح اس خیال کی بھی حیات بہت طویل ثابت ہوئی ہے۔ آج یہ خیال جس شکل میں موجود ہے اس میں عہدِ عظمت کی نسل اور ِپیڑھی صرف میراتھن کے میدان میں ایرانیوں کو تہہِ تیغ کرنے والوں کی نہیں، بل کہ سارے قدیم یونانی اس عہد عظمت میں شمار کیے جاتے ہیں۔

اس میں ان بے چارے سقراط اور سوفیکلیز جیسوں کو بھی، جنہیں اپنے وقت میں کسی اور زیادہ سنہری زمانوں کے کھو جانے کی باتیں سننا پڑیں، اب شامل ہو چکے ہیں۔ ان کی روحیں، اگر آپ روحوں کی مستقل زندگی پر یقین رکھتے ہیں، تو کس قدر طمانیت میں ہوں گی کہ مر کے تو چین پا لیا آخر۔

جوہانا ہینک کی نظر میں کلاسیکی یونان سے حاصل شدہ دیگر اسباق میں سے یہ سبق گو کہ بہت ہی اہم ہے، مگر یہ نظر انداز ہوتا آ رہا ہے۔ سبق یہ ہے جب کسی معاشرے اور قوم نے اپنے آپ کو ایک بار زوال آمدہ اور زوال زدہ قرار دے لیا تو اس کی عظمت کے نئے سنگِ میل تعمیر و اجاگر  کرنا نا ممکنات میں شامل ہو جاتا ہے، ناممکن نہین تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔

یونانی تو آج بھی کسی سرِکتے وقت کی عظمتِ رفتہ کی اسیری میں ہیں۔ ہماری اپنی قوم اور “برادر ممالک” بھی انہیں کی سنت میں خوابوں میں اپنے شب و روز گنوائے جاتے ہیں۔ لیکن معروف سائنسی عالم آئن سٹائن نظریۂِ اضافت میں باور کرتے ہیں کہ ماضی، حال اور مستقبل کے بیچ تفاوت و فرق محض ایک سراب ہے۔ وقت کی یہ سب معروف و نفسیاتی اکائیاں ہمہ دم موجود ہیں۔ اگر سپیس موجود ہے تو وقت بھی موجود ہے۔ وقت مختلف شاہدوں کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ آپ سست ہو جائیں تو آپ کے لیے وقت کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ آپ تیز ہو جائیں تو وقت کی مثال ایسے ہے کہ جیسے وہ آپ کا انتظار کرتا ہے اور سست ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو وقت کو ہی پیچھے گھمانے کی فکر میں ہوں، وقت ان کے ساتھ کیا کرے گا؟ سوال زیادہ مشکل تو نہیں۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.