یہ راستہ کوئی اور ہے : اقبال حسن خان کے ناول پر تبصرہ

یہ راستہ کوئی اور ہے

 یہ راستہ کوئی اور ہے : اقبال حسن خان کے ناول پر تبصرہ

(ارشد علی)

1600 عیسوی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کی صورت میں ہندوستان کی اس سیاہ بختی کا آغاز ہوا جو ساڑھے تین سو سال بعد بٹوارے کی صورت میں اپنے انجام کو یوں پہنچی کہ تاریکیاں اس خطے کا دائمی مقدر قرار پائی ہوں۔ ایسے میں جب تاریخ کے سیاہ باب کو ایک روشن صبح میں تبدیل کرنے کی امید پیدا ہو رہی تھی تو کیا وجہ یا وجوہات رہیں کہ اس صبح کو دھتکار کر ایک اماوس کی طویل اور نہ ختم ہونے والی رات اس خطے کہ باسیوں کا مقدر کر دی گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ کشت و خون کے وہ باب رقم کیے گئے جن کی مثال ملنا تاریخ عالم میں شاید ممکن نہ ہو۔ اس قتل و خون ، لوٹ مار، بے گھری کے اسباب سامنے لانے کی بجائے گزشتہ ستر سال سے میٹھی گولیاں جو کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی روایات کے نام پر سرحد کے دونوں جانب کے باسیوں کو چٹائی جا رہی ہیں۔ اور حتمی و قطعی وجوہات کو بیان کرنے کی بجائے جھوٹ ، فریب ، اور دھوکا دہی کے ذ ریعے لوگوں کو اسی (بلکہ شاید اس سے بدتر )ذہنی حالت میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے جوذ ہنی حالت اس سارے ہنگام کا باعث رہی۔
ایسی تلخ صورت حال میں جہاں سچ نا صرف مکروہ اور سفاک ہے بلکہ اسے تسلیم کرنا تو درکنا ر کوئی سننے کا بھی رودار نہیں تو اقبال حسن خان نا جانے کیوں لوگوں کو چیخ چیخ کر ان معاملات اور اس سچائی سے آگاہ کرنے میں اپنی جان ہلکان کیے ہے جس سچائی کو جاننے والے اکیلے میں خود سے دہراتے بھی ڈرتے ہیں۔ ” یہ راستہ کوئی اور ہے” ایسی ہی سچائی کی داستان ہے جو ہماری آنکھوں پر بندھی پٹی کو کھولنے کی کوشش ہے ۔ بٹوارہ ، آزادی تھی یا نئی غلامی کا سفر، جہدوجہد کا نتیجہ تھا یا سازشوں کا حاصل۔۔ اس کے نتیجے میں مسلمان آسودہ ہوا یا برباد یہ وہ سوال ہیں جو دہائیوں پہلے اٹھائے جانے چاہیے تھے اور ان کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کے بعد آگے کی راہ کا تعین کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ہم ستر سال بعد بھی چپ کی بکل مارے بیٹھے ہیں کہ شاید ان سوالات کا بوجھ اٹھانے کی سکت ہم میں ابھی تک پیدا نہیں ہو سکی یا ہم ان جوابات کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے تاحال محروم ہیں۔ جس انسانی المیے نے ہجرت کی صورت میں ہزار سالہ مشترکہ تہذیبی اثاثے کو تہہ خاک کیا ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کا تجزیہ کیا جاتا اور ان عناصر کو بے نقاب کیا جاتا جن کے مفادات کے پیش نظر یہ منظم اکھاڑ پچھاڑ کی گئی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس اس المیے کو انہیں طبقات کے مفادات کے تحفظ کو استعمال میں لایا گیا جن کی ایماٗ پر یہ سب ہوا اور نتیجہ یہ کے وہ طبقہ آج بھی ہمارے سروں پر حکمران بنا بیٹھا ہے۔ اور ان کی سازشوں کی بدولت ہمارے دماغ اس دشمنی اور نفرت سے ابل رہے ہیں جو چند دہائیاں پہلے وجود میں آئی اور اب اس کا کوئی انت دکھائی نہیں دیتا۔
“یہ راستہ کوئی اور ہے” ایسی ہی ناگفتنی کو گفتہ کرنے کا عمل ہے جیسا کہ سلطنت برطانیہ کی کمزوری، کانگریس کی غلطیاں، مولانا آزاد کی دور اندیشی ، مسلم لیگ پرمسلط جاگیرداروں کی بے حسی اور قائد کی بے بسی کہ وہ نہ ہی ان طبقات کو الگ کر پائے اور نہ ہی پاکستان کو ان خطوط پر چلا سکے جس کا خاکہ اگر کہیں تھا تو وہ ان کے زہن میں تھا۔ اور ایسے ہی کئی معاملات جن کا براہ راست تعلق تقسیم سے یا اس کے فورا بعد کی صورتحال سے تھا یہ ناول بغیر کسی لگی لپٹی کے ان تمام حقائق کو متن کرتا دکھائی دیتا ہے جن کا اوپر تذکرہ کر چکا ہوں۔ اس ناول میں قاری کو اس سوال کا سامنا کرنے پر بھی مجبور کیا گیا ہے کہ آیا ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام سے مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہوا یاوہ بکھر کر رہ گئی اور وہ عددی برتری جو ہندو کو زیر کر سکتی تھی تین حصوں میں تقسیم ہو کر اپنی معنویت ہی کھو بیٹھی۔ تقسیم کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا اس میں بیشتر قلم کاروں نے اپنا قلم اس پہلو پر اٹھایا کہ کس طرح ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کو چیڑ پھاڑ کر رکھ دیا اور کس طرح مغربی پنجاب والے مسلمانوں نے غیر مذہبوں کی عزتیں اور جائیدادیں پامال کیں۔ اور یہ سارا لٹریچر (چند استثناٗکے ساتھ) نفرت کی اس فضاء کو بڑھوتری دینے کا باعث بنا۔ (اس جملہ معترضہ سے یہ مراد نہ لی جائے کہ میں اس سب لکھے جانے کی مخالفت یا نفی کر رہا ہوں) لیکن اگر کسی نے توجہ نہ دی تو وہ خیر محمد، چوہدری نور محمد اور وزیرے حرامی جیسے کردار تھے جنہوں نے کسی شوبھا کو کسی کمل سے ملانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالی اور اپنے مالی اثاثوں کی بھی قربانی دی۔ لیکن اس مقصد سے ایک قدم سے پیچھے نہ ہٹے۔
اقبال حسن خان نے ایک احسان اور ہم پر یہ کیا کہ وہ ان گرد میں چھپے کرداروں کو قرطاس پر منتقل کر کے ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسان کا دل انسانیت، محبت اور پیار سے خالی نہ تھا بلکہ اس کی آنکھوں پر حرص ہوس اور دشمنی کی پٹی باندھی گئی تھی۔ اور اس کے شعور کو اس طور بہکایا گیا تھا کہ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر اس ٹولے کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ گیا جس نے اپنے سماجی و سیاسی مفادات کو پورا کرنے میں ہر طرح کی اخلاقیات کو ذبح کر ڈالا۔ اوراس مذبح کے بطن سے جو کچھ برآمد ہوا، اسے دنیا انسانی تاریخ کے بدترین المیے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اس ناول کے تمام پہلوؤں کا احاطہ تو اس مختصر تحریر میں کرنا شاید ممکن نہ ہواور دوسرا میں خود میں اتنی اہلیت بھی نہیں پاتا۔لیکن اتنا ضرور کہوں گاکہ جو زخم پچھلے ستر برسوں سے پونے دو ارب انسانوں کے لیے ناسور کی شکل اختیار کیے ہیں کسی نے تو ان کی جراحی کا آغاز کیا اور ان اسباب و حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی جن سے شناسائی ہی اس ناسور کے سدباب کا باعث ہو سکتی ہے۔ اور اس سدباب کی بدولت ہی تینوں دیسوں میں بسنے والے پونے دو ارب انسانوں کی زندگیوں میں امن ، سکون اور اطمینا ن کے لمحات لوٹ سکتے ہیں ۔اور یہ امن و اطمینان کے لمحات لوٹ آئیں تو انہیں محبت و الفت میں بدلنے کو زیادہ وقت درکار نہ ہوگا۔
مجھے امید ہے کہ بھلے اس نقار خانے میں طوطی کی آواز سننے والا کوئی نہیں مگر اقبال حسن خان لوگوں کو جھنجھوڑنے اور حقائق کا سامنا کروانے میں اپنی توانائیاں اسی طور استعمال میں لاتے رہیں گے کہ “مجھے ہے حکم اذاں ۔۔۔۔۔۔