پدماوت ، جس نے سنجے لیلا بھنسالی کو متنازع بنایا

Khizer Hayat
خضرحیات

پدماوت، جس نے سنجے لیلا بھنسالی کو متنازع بنایا

از، خضرحیات

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ابھی وی سی آر ہمارے گھر تک نہیں پہنچا تھا۔ وی سی آر تو اُس دور میں ہر گھر جانے کے لیے بیتاب تھا مگر ہمارے مالی و معاشی حالات اسے ہمارے گھر میں گھُسنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس دور میں ہم لوگ ایک رات کے لیے کرائے پر رنگین ٹی وی، وی سی آر اور چار فلمیں لایا کرتے تھے۔ اس سارے سیٹ کا ایک رات کا کرایہ 100 روپے ہوا کرتا تھا۔ اگر ٹی وی کے بغیر صرف وی سی آر چاہیے ہوتا تو وہ مرضی کی چار فلموں کے ساتھ ضمانت پر 40 روپے میں مل جاتا تھا۔

اگر وی سی آر بھی نہیں چاہیے تو ایک فلم کا کرایہ 10 روپے ہوا کرتا تھا۔ ہم مختلف وقتوں میں مختلف کمبی نیشن گھر لاتے رہے ہیں۔ اہتمام یہ ہوتا تھا کہ دس دس روپے جمع کیے جاتے اور سکول سے چھٹی والی رات کو ہم یہ عیاشی کرنے کے مجاز تھے۔ حصہ داروں میں سے کسی ایک کے گھر کی بیٹھک کا انتخاب کیا جاتا اور رات کے کھانے سے فارغ ہوکر پہلی فلم لگا دی جاتی۔ پہلی فلم عموماً اس قسم کی لگائی جاتی جس میں قابلِ اعتراض چیزیں کم سے کم ہوں۔ اس ضمن میں عام طور پر پہلے نمبر پر کوئی پاکستانی پنجابی فلم ہی منتخب کی جاتی تھی جسے دیکھنے کے لیے چاچے مامے بابے تائے بھی اپنے حقّے کے ساتھ براجمان ہو جاتے تھے اور نورجہاں کے پنجابی گانوں پہ سر دُھنتے دھنتے اپنے اپنے ماضی میں پہنچ جاتے تھے۔ پہلی فلم کے بعد اکثر لوگ اٹھ جاتے اور میدان میں وہی لوگ چارپائیوں پر پڑے رہ جاتے جو حصہ داران ہوتے۔ بچوں کو بھی پہلی فلم کے بعد بھگا دیا جاتا۔

اسی طرح کی ایک محفل میں ایک دفعہ ایک فلم ‘خاموشی’ لگائی گئی۔ یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب ان معاملات کا کمانڈ اینڈ کنٹرول مجھ سے بڑی والی نسل کے ہاتھ میں تھا۔ ہمارا زمانہ بڑوں کے تین چار سال بعد آتا ہے۔ میرے بڑے بھائی صاحب انچارج تھے اور ایک فلم اپنی مرضی اور پسند کی بھی لے آئے۔ فلم چلی تو اس نے دیکھنے والوں پہ پہلا تاثر یہ قائم کیا کہ اس میں تو سارے گونگے ہی ہیں، کوئی بولنے والی فلم لگانی چاہیے تھے۔

نانا پاٹیکر اور سیما بسواس دونوں ہی اشاروں سے باتیں کر رہے ہیں اور ان کی ننھی بچی جو بڑی ہوکر منیشا کوائرالا بنتی ہے، بھی اشاروں کی زبان بول رہی ہے۔ اب ایک ایسی صورتحال جس میں سات آٹھ بندوں نے پیسے جوڑ کے اپنی تفریح کے لیے وی سی آر کا اہتمام کیا ہو اور ذہن میں یہ بھی ہو کہ آج کی رات ذرا موج مستی، ہلّا گلّا ہو جائے گا۔ اس صورتحال میں ایک خاموش فلم لگ جائے تو کسے برداشت ہوگی۔ ہوُٹنگ شروع ہو گئی، سب بڑے بھائی کے پیچھے پڑ گئے کہ بھائی فلم لینے سے پہلے ایک دفعہ چلا کے چیک تو کر لینی تھی کہ کوئی بولتا بھی ہے اس میں یا نہیں اور یہ کہ ‘گُونگے دی رمزاں گُونگا ای جانے’ ہم کیسے سمجھیں یہ کیا کہہ رہے ہیں۔

اسی شور شرابے میں خود بخود یہ قرارداد پاس ہو گئی کہ نکال دو یہ فلم اور کوئی اجے دیوگن، متھن چکرورتی یا سنجے دت کی لگا دو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بڑے بھائی صاحب فلم اترنے تک یہی کہتے رہے کہ چلنے دو بہت اچھی فلم ہے، گانے بھی سارے سننے والے ہیں پسند آئے گی وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے ناجانے کہاں سے سن لیا تھا کہ ایک نئے ڈائریکٹر نے یہ فلم بنائی ہے اور بہت پسند کی جا رہی ہے۔ مگر کسی نے ان کی نہ سنی لیکن میں نے سن لی۔ (یہی حال ایک دفعہ اس وقت پیش آیا تھا جب بڑے بھائی صاحب سنجے دت اور ایشوریا رائے کی فلم ‘شبد’  لے آئے تھے۔ اسے بھی ایسے ہی اتروا دیا گیا کہ دونوں کے علاوہ تو فلم میں ہے ہی کوئی نہیں، بور کر رہی ہے بدل دو۔ بدل دی گئی)۔

یہ سارا واقعہ وقت کی بھول بھلیوں میں کہیں محو ہو گیا اور ہم زندگی کی شاہراہ پر چلتے رہے۔ پڑھائی لکھائی کے لیے جب لاہور آئے تو فلموں کو ان کے یانرے کی بنیاد پر دیکھنا شروع کیا۔ اس سے پہلے وی سی آر پر جو فلمیں دیکھیں وہ زیادہ تر اداکاروں اور اداکاراؤں کی بنیاد پر دیکھی گئیں۔ اجے دیوگن پسند ہے تو اس کی ساری دیکھ لیں۔ اسی طرح سنجے دت کی جو بھی ملی دیکھ لی۔ مگر یہ سمجھ بہت بعد میں آئی کہ فینٹسی، رومانس، ہسٹاریکل، وار موویز زیادہ پسند آتی ہیں تو اسی بنیاد پہ فلمیں دیکھنا شروع کیں۔ ابھی تک بالی ووڈ کا جادو ہی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ جس دوران شاہ رخ خان والی فلم ‘دیوداس’ مادھوری کی وجہ سے دیکھی اور اس کے آگے پیچھے ‘ہم دل دے چکے صنم’ بھی دیکھی تو توجہ اسٹیج کے پیچھے بھی چلی گئی کہ کون ہے وہ بندہ جو یہ فلمیں بنا رہا ہے جو اتنی دل کو پسند آ رہی ہیں۔

جن دو فلموں کا میں ذکر کر رہا ہوں ان میں سے ‘دیوداس’ کے بارے میں تو اخباروں میں بہت لکھا گیا تھا کہ یہ بالی ووڈ کی اب تک کی سب سے مہنگی فلم ہے۔ مادھوری نے اتنا مہنگا زیور پہنا ہے تو ایشوریا نے بہت قیمتی لہنگا پہنا ہے۔ فلمیں دیکھیں تو یقین آ گیا کہ واقعی اتنا پیسہ لگا ہوگا۔ سکرین پہ جدھر دیکھو رنگوں کی ایک بہار آئی ہوئی ہے۔ اتنے اجلے اجلے رنگ ایک ہی جگہ اس سے پہلے ہم نے بہت کم دیکھے تھے۔ کیمرہ ورک بھی ایسا مضبوط کہ جو جو چیز فریم کا حصہ بنی ہے اسے لازمی طور پر وہاں ہونا ہی چاہیے تھے۔ پینٹنگ ایسی بھرپور لگتی تھی کہ اس میں سے ایک بھی چیز کو ہٹا لیا جائے تو سارا توازن بگڑتا محسوس ہوتا تھا۔ ایڈیٹنگ کی گلیُو نے سب کچھ ایسے جوڑ کے سامنے پھیلا دیا ہے کہ پوری فلم ایک تسلسل کا نمونہ نظر آتی ہے۔ اور پھر ان فلموں میں جو گانے ریکارڈ کیے گئے وہ اپنی جگہ الگ ایک جہان بسا چکے ہیں۔ ان فلموں میں سب کچھ بھلا ہی بھلا تھا۔

اب جب یہ سب کچھ حسِ جمالیات کو بھلا لگا تو پھر ہم اسٹیج کے پیچھے والے خیمے میں گھسے اور یہاں ہماری ملاقات ہوئی سنجے لیلا بھنسالی کے ساتھ۔ ہمیں اس بندے پہ بے پناہ پیار آیا، متاثر بھی ہوئے اور یہ سوچ سوچ کر داد دیتے رہتے کہ یار یہ بندہ کتنا خوبصورت سوچتا ہے۔ بلکہ یہ بندہ تو سوچتا بھی رنگوں کی زبان میں ہے۔ اسی چاہ میں پھر ہریتک روشن اور ایشوریا رائے والی ‘گزارش’ دیکھی، امیتابھ بچن اور رانی مکھرجی والی ‘بلیک’ دیکھی، رنبیر کپور اور سونم کپور کی پہلی فلم ‘سانوریا’ دیکھی اور سبھی فلموں نے سنجے لیلا کے لیے ہمارے دل میں محبت کو اور بھی بڑھا دیا۔

اب جبکہ یہ کھوج شروع ہو ہی گئی تو ہم نے سوچا شروع سے شروع کرتے ہیں۔ 1994ء میں ایک فلم آئی تھی

1942: A Love Story

جس میں انیل کپور اور منیشا کوائرالا نے اداکاری کی تھی۔ آنجہانی موسیقار آر ڈی برمن نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دی تھی اور کیا ہی عمدہ ترتیب دی تھی۔ یہ ان کے کیرئیر کی آخری فلم تھی۔ جاوید اختر کے بولوں نے بھی سماں ہی باندھ دیا تھا۔ ‘اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا’ جیسا ریشمی تشبیہات سے بھرپور گیت اسی فلم کا حصہ بنا تھا۔ یہ فلم چونکہ لکھی سنجے لیلا بھنسالی نے تھی اس  لیے یہ بھی دیکھی۔ اور پھر جب ‘خاموشی’ کے بارے میں پتہ چلا کہ سنجے نے ہی بنائی تھی تو بے اختیار وی سی آر والے زمانے کی راتوں میں سے ایک رات کا وہ واقعہ یاد آ گیا جب بڑے بھائی صاحب کہی جا رہے تھے کہ فلم دیکھنے والی ہے اور کوئی سننے کو تیار نہیں ہو رہا تھا۔ میں بہت جذباتی ہو گیا اور پورے اہتمام کے ساتھ یہ فلم دیکھی۔ کچھ ماضی کے قصے کا عمل دخل تھا اور کچھ فلم کی کہانی ایسی دل گداز تھی کہ میں اپنے آپ کو کئی جگہوں پہ رونے سے روک نہ سکا۔ فلم ختم ہوئی تو میں پھر رو رہا تھا اور بڑے بھائی کے وہ الفاظ میرے ذہن میں گونج رہے تھے کہ فلم دیکھنے والی ہے، چلنے دو۔

میں سوچ رہا تھا بعض اوقات ہم بے دھیانی میں کیسی کیسی چیزوں سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ نہ جانے ہم کیسے کیسے جہانوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ میں نے بڑے بھائی کو فوراً فون کیا اور انہیں بتایا کہ اُس رات جب سب آپ کو غلط ثابت کر رہے تھے میں آپ کو تب بھی صحیح سمجھ رہا تھا اور آج یہ ثابت بھی ہو گیا ہے کہ آپ غلط نہیں تھے کیونکہ ‘خاموشی’ انتہائی لطیف جذبات سے بھرپور فلم ہے۔ اگلی دفعہ گاؤں گیا تو لیپ ٹاپ میں اپنے ساتھ یہ فلم بھی لے کے گیا اور بڑے بھائی کو پاس بیٹھ کر بڑے چاؤ کے ساتھ دکھائی اور ان کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے بتایا کہ آپ بالکل ٹھیک تھے، باقی سب لوگ غلط تھے۔

اب تک ہم سنجے لیلا بھنسالی کی فلموگرافی کے مکمل طور پر قائل ہو چکے تھے کیونکہ یہ ثابت ہو گیا تھا کہ سنجے لیلا کی فلم میری حسِ جمالیات کے عین مطابق ہوتی ہے اور میں اسی طرح کی چیز دیکھنا چاہ رہا ہوتا ہوں۔ اب تک پاکستانی سنیماز بھی بھارتی فلمیں دکھانے لگے تھے تو جب 2013ء میں ‘رام لیلہ’ اور 2015ء میں ‘باجی راؤ مستانی’ آئی تو یہ دونوں فلمیں ہم نے بڑے شوق سے سنیما جا کر دیکھیں۔ ‘رام لیلہ’ تک تو بات وہی رہی مگر جب ‘باجی راؤ مستانی’ دیکھی تو ایک جھٹکا سا لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ خوبصورت کیمرہ ورک، دیدہ زیب لباس، خوبصورت دپیکا اور میوزک کے پیچھے سنجے لیلا بھنسالی نے کہانی کو کمزور کر دیا ہے۔ خیر کچھ دنوں میں یہ تکلیف پرانی ہو گئی اور ہم دوبارہ سے سنجے لیلا کی پرانی فلمیں دیکھنے میں لگ گئے اور باجی راؤ مستانی جیسی کمزور فلم کو اپنے اور سنجے لیلا کے بیچ میں آنے سے ہمیشہ روکتے رہے۔

اس کے بعد باری آتی ہے ‘پدماوت’ کی جو اس وقت سے ہی خبروں میں تھی جب سے سنجے لیلا نے پدماوتی کے نام سے یہ فلم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ تیرہویں صدی میں برصغیر پر حکومت کرنے والے افغان مسلمان بادشاہ علاؤالدین خلجی کے دور میں ریاست چتورگڑھ کے راجہ رتن سنگھ کی شریکِ حیات رانی پدماوتی کو مرکزی کردار کے طور پر پیش کرکے اس فلم کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ حقیقت میں تو سولہویں صدی کے ایک صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے اپنی ایک نظم ‘پدماوت’ میں ٹھیک اسی طرح رانی پدماوتی کا کردار گھڑ کے پیش کیا تھا جیسے امتیاز علی تاج نے اپنے ڈرامے ‘انارکلی’ کے لیے انارکلی کا کردار تشکیل دیا تھا۔

اس بات پر بھی اختلاف ہے کہ اس نام کی رانی حقیقت میں بھی ہو گزری ہے یا نہیں مگر کہانی لکھنے والے، افسانے گھڑنے والے اور فلم بنانے والے کو بہرحال اتنی آزادی میسر ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے حالات و واقعات کو پیش کر دیں اور ساتھ ہی بتا دیں کہ یہ محض افسانہ ہے۔ لیکن اس مبالغہ آمیزی میں اس بات کا خیال بہرصورت رکھا جاتا ہے کہ اس پیش کش سے کسی انسانی گروہ، مذہب، نسل یا رنگت کے بارے میں منفی جذبات اجاگر نہ کیے جائیں اور کہانی کسی نئے تنازع کو جنم نہ دے دے۔

‘پدماوت’ جو پہلے پدماوتی تھی وہ شروع سے ہی تنازعات میں گھر گئی۔ راجھستان میں لگائے گئے سیٹ کو توڑنے پھوڑنے سے لے کر سنجے لیلا بھنسالی پر تشدد، ملک گیر مظاہرے اور دپیکا پڈوکون کی پہلے ناک کاٹنے اور پھر اس کے سر کی قیمت مقرر کرنے تک کئی مناظر تھے جو آنکھوں سے گزرتے رہے۔ دسمبر میں فلم ریلیز ہونا تھی مگر بھارت کے راجپوتوں کو اس بات پہ اعتراض تھا کہ فلم میں ایک مسلمان حکمران اور راجپوت رانی (خیالی کردار) کے درمیان کوئی ایسا ویسا منظر نہ شامل کیا جائے جس سے دیکھنے والوں کی نظر میں رانی کی عزت کم ہو جائے۔ چنانچہ فلم کی ریلیز منسوخ ہوئی اور فلم کا نام تبدیل کرنے سمیت کئی ایک کٹ تھے جو سنسر بورڈ نے فلم پر لگا کر اسے نمائش کی اجازت دے دی۔ سینسر بورڈ نے علاؤالدین خلجی کے کردار پر کوئی اعتراض نہیں لگایا یہ اپنی جگہ ایک حیرت ہے۔

فلم لگی تو مختلف طرح کی آراء سامنے آنے لگ گئیں۔ ہم نے بھی ادھر ادھر سے پڑھا کہ فلم کی اسٹوری تو چلیں جیسی بھی ہے اس میں مسلمان بادشاہ کے کردار کے ساتھ بہت ناانصافی کی گئی ہے۔ ہم نے بھی یہی سمجھا کہ بھارت میں چلنے والی ہندوتوا کی لہر کے زیراثر فلم کو مکمل طور پر بدل دیا گیا ہوگا اور یہ وہ والی فلم نہیں ہوگی جو ہمارے پسندیدہ ڈائریکٹر کے خوبصورت خیالوں میں کبھی جگمائی ہو گی۔ اخبار چغلیاں کھاتے رہے اور ہماری بدگمانی بڑھتی رہی۔ خیر ہماری بدگمانی بڑھی تو ہم نے فلم کا بائیکاٹ کر دیا کہ اگر سنجے لیلا کی فلم نے بھی تاریخ کے ساتھ اس طرح کا مذاق کیا ہے اور وہ بھی مُودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی کا حصہ بن گئے ہیں تو ہمارا سنیما بھنسالی کے بغیر ہی بھلا۔ ہم نے فلم دیکھنے کا ارادہ ترک کر دیا اور خبریں تجرئیے پڑھ پڑھ کے دل جلاتے رہے۔

فلم اب اترنے ہی والی تھی تو جی کڑا کرکے سوچا کہ ایک دفعہ دیکھ ہی آتے ہیں اور جو بھی رائے بنائیں گے اپنی آنکھوں دیکھی پہ بنائیں گے، سننے میں تو غلطی ہو ہی سکتی ہے چاہے پچاس بندوں سے سن لیں۔ چنانچہ پہنچ گئے سنیما اور دیکھ لی یہ فلم۔

پدماوت کے بارے میں ہماری رائے یہی بنی کہ پوری فلم میں علاؤالدین خلجی یعنی رنویر سنگھ، زبردست لوکیشنز اور بہترین کیمرہ ورک کے علاوہ سرے سے چوتھی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ بہت کوشش کی کہ کچھ ایسا مل جائے جس کی بناء پر ہم فلم کو اچھا کہہ دیں مگر سوچ سوچ کے مایوسی ہی ہوئی۔ ہماری نظر میں فلم کا نام پدماوت ہونا ہی نہیں چاہیے تھا، یہ فلم شروع سے آخر تک خلجی کے بارے میں تھی اور اسے نام بھی کوئی ‘خلجی نامہ’ کی طرح کا ہی دینا چاہیے تھا۔ رنویر سنگھ کے بارے میں سنجے لیلا خود کہتا ہے کہ یہ لڑکا بہت جان مارتا ہے اپنے رول کے لیے، پدماوت دیکھ کر سنجے کی یہ بات حرف بہ حرف درست معلوم ہوئی۔ خلجی کے ایک کمزور کردار کو جتنا جوان رنویر نے بنا دیا ہے کوئی بھی اور ہوتا تو شاید فیل ہو جاتا۔

کمزور ہم اس  لیے کہہ رہے ہیں کہ اس کے پاس اکثر و بیشتر جو مکالمے تھے وہ انتہائی سطحی اور منطق سے عاری تھے۔ مگر اس نے کمزور جملوں کو کہیں بھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا بلکہ ہر سیچوئشن پہ وہ حاوی ہی رہا۔ اس کے مدمقابل راجہ رتن سنگھ یعنی شاہد کپور کے ڈائیلاگ نہایت مضبوط تھے (مقابلتاً) مگر شاہد کپور شروع سے آخر تک دبا ہی رہا، کہیں بھی اس نے محسوس نہیں کرایا کہ وہ کھل کے ڈائیلاگ بول رہا ہے۔ رانی پدماوتی تو کہیں نظر ہی نہیں آئی۔ اس نے تو بس ایک دو گانے گائے ہیں اور بس۔ اللہ جانے فلم کے توازن کو کیا ہو گیا تھا۔ فلم کی کہانی تو کمزور تھی ہی، ڈائیلاگ اس سے بھی گئے گزرے تھے اور کرداروں کے مابین وقت کی تقسیم بھی سمجھ سے باہر تھی۔

فلم کی سب سے بڑی خامی تھی مکالموں میں گوندھا جانے والا کمزور استدلال۔ دلی کا ایک شہنشاہ ہے (ذاتی کردار میں وہ جیسا بھی ہے) آپ نے اس کو اس طرح دکھایا ہے جیسے عقل نام کی چیز اسے چھو کے ہی نہیں گزری۔ وہ چھ ماہ تک اپنی پوری فوج کے ساتھ صحراؤں میں محض اس  لیے بیٹھا رہا کہ اسے رانی پدماوتی کی ایک جھلک دیکھنی تھی۔

ان چھ ماہ کے دوران اسے سلطنت کا کوئی کام ہی نہیں پڑا۔ حیران ہوں کہ بادشاہی اتنی ہی آسان ہوا کرتی تھی کہ آپ کا جب جی چاہے صحراؤں میں بسیرا کر لیں، راجدھانی کو اللہ کے آسرے چھوڑ دیں اور جب دل چاہے واپس آ کے تخت پر بیٹھ جائیں۔ میرا بھی دل چاہا کہ اتنے دنوں سے فارغ ہوں، کسی ریاست کا حکمران ہی نہ بن جاؤں مگر ہندوستان پر اس طرح حکمرانی قائم رہ سکتی تو بہادر شاہ ظفر جیسے بے ضرر انسان کو رنگون میں جا کے قید نہ ہونا پڑتا۔ یہاں جو تخت پر بیٹھا ہے وہ کبھی بھی فہم و فراست سے عاری نہیں رہا، یہ کام ہی چالاکی اور ہوشیاری کا ہے جبکہ آپ دکھا رہے ہیں کہ خیمے جل رہے ہیں اور علاؤالدین خلجی کہہ رہا ہے کہ مجھے سونے دو۔ ‘آگ لگی ہے تو بجھا دو، بجھ جائے تو مجھے جگا دو’۔ حیرت ہے!

سنجے لیلا بھنسالی نے بھی تاریخ کی انہی کتابوں سے رہنمائی حاصل کی تھی جو انہیں وزیراعظم نریندر مودی نے تحفے کے طور پر بھیجی ہوں گی۔ یا پھر انہوں نے سب ویکیپیڈیا ڈاٹ آرگ سے ساری معلومات اکٹھی کی ہیں۔ کسی تاریخ دان سے مشورہ کیا ہوتا تو وہ آپ کو یہ بھی بتا دیتا کہ علاؤالدین خلجی ہم جنس پرست بھی نہیں تھا، اس کا بیٹا تھا۔ مگر اس قدر تردّد کیوں اٹھائیں، جب کام سنی سنائی پہ ہی چل سکتا ہے تو موٹی موٹی کتابیں کیوں کھنگالیں!

فلم کی موسیقی بھی بہت پیچھے کو ہٹتی نظر آئی ہے۔ سوائے ایک گانے کے ‘اک دل ہے، اک جان ہے’ موسیقی میں تھا ہی کیا۔ میں حیران تھا کہ ‘لال عشق’ اور ‘ آیت’ جیسے گیتوں کی دھنوں کا خالق بندہ اس طرح کے گانے بھی بنا سکتا ہے جن پہ بادشاہ خلجی پاگلوں کی طرح ناچ رہا ہے اور نہ دھن سمجھ آ رہی ہے اور نہ بول۔

امیر خسرو کے نام سے کون واقف نہیں ہوگا۔ شاعری، موسیقی، قوالی، ادب کی دنیا کا اتنا روشن ستارہ بھی خلجی کے دور میں ہی برصغیر کے افق پر جگمایا تھا مگر آپ نے اس کردار کو ہوا تک نہیں لگوائی۔ کوئی ایک قوالی انہی کے اعزاز میں بنا لیتے تو فلم ذرا معتبر ہو جاتی۔ آپ نے باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ امیر خسرو کو بھی نظرانداز کر دیا ہے اور پھر بھی آپ سوچ رہے ہیں کہ آپ نے اچھا کام کیا ہے۔ ایک بار پھر حیرت ہے!

سنجے لیلا بھنسالی سے بے پناہ محبت تھی، میں نے ہمیشہ سمجھا کہ اس بندے کی سوچ بہت رنگ برنگی، محبت بھری، انسانیت نواز، موسیقی سے عشق رکھنے والی اور مٹھاس سے بھرپور ہے۔ ‘باجی راؤ مستانی’ کی صرف کہانی کمزور تھی مگر ‘پدماوت’ میں تو کچھ ہے ہی نہیں سوائے رنویر سنگھ کی اداکاری کے، نہ کہانی ہے نہ ڈائیلاگز ہیں اور نہ کوئی روحانیت ہے۔ میں کبھی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ سنجے بھی ہندوتوا کے ناگ کے سامنے جھک جائے گا مگر کہانی جس طرح یک رُخی دکھائی گئی ہے اسے دیکھ کر مجھے اور سنجے کے میرے جیسے باقی چاہنے والوں کو اپنی رائے پر ضرور نظرثانی کرنا پڑے گی۔ پدماوت نے باقی کسی کو بھلے ہی کوئی نقصان نہ پہنچایا ہو مگر یہ سنجے لیلا بھنسالی کو متنازع ضرور بنا گئی ہے۔