یہ کس کی پدماوت ہے

Masood Ashar
مسعود اشعر

یہ کس کی پدماوت ہے

از، مسعود اشعر

اگر آج ملک محمد جائسی زندہ ہو تے تو اپنی مثنوی ’’پدماوت‘‘ پر بنائی جانے والی فلم دیکھ کر’’جوہر‘‘ ہو جاتے۔ معاف کیجیے جوہر تو راجپوت ناریاں اپنی راجپوتی آن بان شان پر ہوتی تھیں، ملک جائسی تو مسلمان تھے، وہ جو کچھ کرتے اسے خودکشی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تو ایک خیالی داستان رقم کی تھی، انہیں کہاں معلوم ہو گا کہ ان کی مثنوی ہالی وڈ کی بلاک بسٹر فلموں کی طرح ہندوستان کی کھڑکی توڑ فلم بن جائے گی۔ انہوں نے تو اس مثنوی کے ذریعے یہ سبق دینے کی کوشش کی تھی کہ دنیوی شان و شوکت، شاہی جاہ و جلال اور حسن و جمال کا تعاقب ایک سراب کا تعاقب ہے۔ آخر میں سب ٹھاٹ باٹ یونہی پڑا رہ جائے گا، ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔

ملک جائسی نے یہ مثنوی اودھی زبان میں لکھی تھی۔ ہندی والے اسے ہندی کی مثنوی کہتے تھے۔ اردو والے کافی عرصے تک اسے اپنی مثنوی ماننے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن پھر انہیں ہوش آیا اور اسے اردو کے اودھی لہجے کی مثنوی تسلیم کر لیا۔ یوں بھی یہ مثنوی فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔ اس لیے بھی اس پر اردو والوں کا حق زیادہ ہے۔ اور اردو والوں کو یہ سوال کرنے کا حق بھی تو ہے کہ اس فلم میں تاریخ کو مسخ کیوں کیا گیا ہے؟

تاریخ کو بھی اور مثنوی کو بھی۔ مثنوی میں ایک طوطا سلطان علاؤالدین خلجی کے سامنے چتوڑ کی رانی پدماوت کی خوبصورتی کی ایسی تعریفیں کرتا ہے کہ سلطان اسے دیکھے بغیر ہی اس پر دل و جان سے فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ اور اسے حاصل کرنے کے لیے چتوڑ پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔ اب فلم ملک جائسی کے زمانے میں تو بن نہیں رہی تھی۔ وہ تو آج کے زمانے میں بن رہی تھی اس لیے فلم بنانے والوں کو دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ وہ طوطا انسان بن گیا تاکہ آج کے تماشائیوں کو قائل کیا جا سکے اور انہیں جنگوں اور گھڑ دوڑ کے حیرت انگیز مناظر دکھا کر کروڑوں روپے کمائے جا سکیں۔

اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندوستان کے راجپوتوں نے اس فلم کے خلاف اتنا واویلا کیوں مچایا۔ فلم میں تو راجپوتوں کی مان مریادا کے نام پر زمین آسمان کے قلابے ملانے کے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں۔ راجپوتوں کی آن، راجپوتوں کی شان اور راجپوتوں کی غیرت کے اتنے قصیدے پڑھے گئے ہیں کہ ہمیں اپنے افسانہ نگار راجپوت دوست چودھری اکرام اللہ خاں سے خوف آنے لگا ہے کہ کہیں کسی وقت ان کی بھی راجپوتی آن انگڑائی لے کر جاگ نہ اٹھے اور ہم اس کی زد میں نہ آ جائیں۔

اس فلم پر اگر کسی کو احتجاج کرنا چاہیے تھا تو وہ ہیں مسلمان۔ ہم مانتے ہیں کہ علاؤالدین خلجی نے اپنے چچا جلال الدین خلجی کو مار کر تخت پر قبضہ کیا تھا لیکن کیا وہ عیاش، سفاک، خونخوار اور اس کے ساتھ ہی ایسا مسخرہ بھی تھا جیسا اس فلم میں دکھایا گیا ہے؟ تاریخ تو ایسا نہیں بتاتی۔ اس فلم کا علاؤالدین تو ہالی وڈ کی پرانی فلموں کا ولن ہے۔ اس کی الجھی ہوئی داڑھی اور سر کے لمبے لمبے بال ان فلموں کی یاد ہی دلاتے ہیں۔ اور پھر آنکھوں میں بھری خباثت اسے واقعی مکروہ شخصیت بنا دیتی ہے۔ اس سے مزید کراہت پیدا کرنے کے لیے اس کے دائیں گال پر زخموں کے نشان بھی بنائے گئے ہیں۔ یہی نہیں اسے لباس بھی وہ پہنایا گیا ہے کہ اس پر پہلی نظر پڑتے ہی آپ کو اس سے نفرت ہو جائے۔

اور ہاں، ہندوستان کی گرمی میں اس نے لومڑی کی دم والا فر بھی اپنی گردن پر جمایا ہوا ہے۔ کیونکہ ہالی وڈ کی فلموں میں ایسے کردار اس طرح کا لباس ہی پہنتے ہیں۔ تھوڑی بہت جو کسر رہ گئی تھی وہ اس کی نازیبا اور مضحکہ خیز حرکتوں سے پوری کر دی گئی ہے۔ وہ فلم دیکھنے والوں کے لیے ہر لحاظ سے نفرت انگیز ولن بنا ہوا ہے۔ فلموں میں یہی ہوتا ہے نا کہ جب ولن پر مار پڑتی ہے تو تماشائی خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں۔

ہم نے جس سینما میں یہ فلم دیکھی اس میں ہمارے اردگرد نو جوان یا تھوڑی سی زیادہ عمر کے لڑکے لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ جب بھی علاؤالدین پر مار پڑتی تو وہ سب زور زور سے ہنسنے لگتے۔ ان غریبوں کو کیا معلوم کہ علاؤالدین خلجی کون تھا اور اس نے اپنی سلطنت کے زمانے میں کیسی کیسی اصلاحات کی تھیں۔ ان کے سامنے تو ایک قابل نفرت ولن تھا۔ انہیں اس پر ہنسنا ہی چاہیے تھے اور فلم بنانے والوں کا مقصد بھی یہی تھا۔

فلم بنانے والوں کو تو ہندوستان کے راجپوتوں کی فوج ’’کرنی سینا‘‘ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے اس فلم کے خلاف ایسی مہم چلائی اور وہ اودھم مچایا کہ ہم جیسے بہت کم فلم دیکھنے والوں کو بھی کافی بڑی رقم خرچ کر کے سینما ہال جانا پڑ گیا۔ آپ انسانی سرشت تو جانتے ہی ہیں نا کہ جس چیز کے خلاف بھی زیادہ ہنگامہ کیا جاتا ہے انسان اسی کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ یہ فلم تابڑ توڑ کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ خوب چلے گی۔ اور اگر آپ یہ بھول جائیں کہ یہ کوئی تاریخی فلم ہے اور اس کا علاؤ الدین خلجی سے کوئی تعلق نہیں ہے تو سچی بات یہ ہے کہ عام تماشائی کے لیے یہ بہت ہی کامیاب فلم ہے۔ اس میں دو دلیر اور بہادر آدمیوں کی دوبدو لفظی جنگ بھی ہے اور ہاتھی گھوڑوں کی دھول اڑاتی دوڑ بھی۔

جب ہزاروں کی تعداد میں فوجیں میدان میں اترتی ہیں تو تماشائی اپنی نظریں اسکرین پر گاڑ دیتے ہیں کہ دیکھو اب کیا ہو گا۔ ہر منظر کے بعد تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جنگ کے ان سنسنی خیز مناظر سے فلم بنانے والوں کا دل نہیں بھرا تو انہوں نے علاؤالدین خلجی اور پدما وتی کے شوہر رتن سنگھ کی کشتی بھی کرا دی۔ آخر میں جب پدماوتی جوہر کے لیے جاتے ہوئے نہایت ہی فلسفیانہ انداز میں تقریر کرتی ہے تو شاید ہی کوئی آنکھ ہو جو نم نہ ہو گئی ہو۔ لیکن یہاں ہمیں خیال آیا کہ یہ تقریر تو نہایت ہی شدھ ہندی میں کی گئی ہے۔ کیا ہمارے تماشائی یہ زبان سمجھتے ہیں؟ بلکہ فلم کے منظر جب بھی چتوڑ کے راجہ یا پدماوتی کی طرف جاتے ہیں تو مکالمے اتنی شدھ ہندی میں ہو جاتے ہیں کہ ہمارے تماشائی صرف اٹکل سے ہی اس کا مطلب سمجھتے ہوں گے۔

ہم نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے پوچھا کہ یہ جو ایک کردار نے کہا ہے کہ ’’یہ کہیں شڑ ینتر ہی نہ ہو‘‘ تو آپ سمجھے اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ ہنس دیے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، کہانی تو سمجھ میں آ رہی ہے۔ ہاں، وہی بات کہ مار دھاڑ سے بھرپور انگریزی فلمیں بھی ہمارے عام تماشائی اسی لیے دیکھتے ہیں کہ ان میں مکالمے سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے اور انہیں خوش کرتی جاتی ہے۔ اس فلم میں تو جنگیں بھی ایسی ہیں جن میں منجنیق بھی استعمال کی گئی ہے۔ اور قلعے کا بھاری بھرکم پھاٹک توڑنے کے لیے موٹی موٹی بلیوں کا استعمال بھی ہے۔

اس لیے کہ ہالی وڈ کی فلموں میں بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح قلعے کی فصیلوں پر بھاگ دوڑ بھی ہے۔ اب یہ ہندوستانی فلم ہو اور اس میں ناچ گانے نہ ہوں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اس فلم میں کوئی ایک آئٹم سانگ تو نہیں ہے لیکن جی بھر کے ناچ اور گانے ہیں۔ دیوالی آئی تو ناچ گانا ہو گیا۔ ہولی آئی تو ناچ گانا ہو گیا۔ اس کے علاوہ بھی موقع بے موقع ناچ گانے ہیں۔ ایسے ناچ گانے بھی ہیں جن میں صرف پدماوتی ہی نہیں ناچتی ہمارے علاؤالدین خلجی صاحب بھی اپنی غلیظ شکل کے ساتھ ناچ گانے میں اپنا کمال دکھاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ یہ فلم نہ دیکھیں، آپ فلم ضرور دیکھیں، بس اتنا کرم کیجیے کہ اسے تاریخی فلم سمجھ کر نہ دیکھیں۔ یہ ملک محمد جائسی کی پدماوت نہیں ہے یہ بھنسالی صاحب کی پدماوت ہے۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ