ایک بھیڑیے کی باتیں

امر جلیل
امر جلیل

ایک بھیڑیے کی باتیں

از، امر جلیل

میں کبھی ان دونوں کو، اور کبھی اپنے گھر کو دیکھتا رہا۔ میرا گھر کسی زاویے سے گھر نہیں لگتا۔ کباڑخانہ لگتا ہے۔ ہر پرانی چیز کو عرف عام میں کباڑ کہتے ہیں چونکہ میں بہت پرانا ہوگیا ہوں اس  لیے مجھ سے وابستہ ہر چیز پرانی ہے۔ میرے  لیے کپڑے پرانے ہیں۔ میری میز پرانی ہے۔ میری کرسی پرانی ہے۔ میری چارپائی پرانی ہے۔ چارپائی پر پڑا ہوا بستر پرانا ہے۔ بستر میں کھٹمل اور میرے سر میں جوئیں پڑ گئی ہیں جو میرے دائیں بائیں کان پر رینگتی رہتی ہیں۔ اس  لیے کسی سیانے کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ میرے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

میں ان دونوں کو نہیں جانتا تھا۔ مگر ان کا آنا خدا کی قدرت تھی۔ میں کبھی ان کو اور کبھی اپنے گھر کو دیکھتا رہا۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد اپنوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں ان کی باتیں اپنی کتھا اور قصوں میں لکھوں گا۔ اول تو میں کسی سے وعدہ نہیں کرتااور اگر وعدہ کرلوں تو نبھاتا ضرور ہوں یعنی وعدہ وفا کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ میں نے ایک خاتون سے وعدہ کیا تھا کہ میں اس کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لاؤں گا۔ خاتون نے کہا تھا: میرے  لیے ایک تارا کافی ہے۔ باقی تارے تم آسمان پر لگے رہنے دینا۔ آسمان کو اجاڑنا مت۔

آپ ایک تاریخی حقیقت نوٹ کر لیجیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صرف مرد نے کسی خاتون کا دل جیتنے کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کا وعدہ کیا ہے۔ آج تک کسی خاتون نے کسی مرد کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کا وعدہ نہیں کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ عورت مہم جو نہیں ہوتی، یا پھر ڈرپوک ہوتی ہے، تو پھر آپ کی سوچ غلط ہے۔ ناقص ہے۔ عورت اگر ٹھان لے تو بڑی مہم جو بن جاتی ہے۔ مہیوال کی سوہنی کا قصہ تو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ وہ ہر رات اپنے میاں کو نیند میں غلطاں چھوڑ کر گھڑے پر تیرتے ہوئے دریا پار مہیوال سے ملنے جاتی تھی اور فجر ہونے سے پہلے لوٹ آتی تھی اور رضائی تان کر سو جاتی تھی۔ ایک رات مہم جوئی سوہنی کو لے ڈوبی۔ مہیوال نے بھی دریا میں چھلانگ لگا دی۔ سندھ کے چھوٹے سے شہر شہداد پور کے قریب سوہنی مہیوال کی لاشیں دریائے سندھ سے نکالی گئیں۔

دونوں شہداد پور میں دفن ہیں۔ مہیوال پیر سائیں بن چکا ہے اور سوہنی پیرنی بن گئی ہے۔ وہاں جانے سے آپ کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ سوہنی مہیوال کا قصہ میں نے آپ کو اس  لیے سنایا ہے کہ آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ عورت مہم جو نہیں ہوتی اور وہ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کا وعدہ نہیں کرتی۔ عورت حقیقت پسند ہوتی ہے۔ خلا باز نیل ارم اسٹرانگ آسمانوں کی سیر کرنے کے بعد جب لوٹا تھا تب اپنے ساتھ مٹھی بھر چاند کی مٹی لے آیا تھا۔ ایک بھی تارا توڑ کر نہیں لایا تھا۔ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے صرف مرد کرتے ہیں۔ میں بھی کبھی مرد ہوا کرتا تھا۔

میں نے بھی ایک خاتون کی خوشنودی کی خاطر آسمان سے تارے توڑ کر لانے کا وعدہ کیا تھا۔ میں کراچی کی سب سے اونچی عمارت کی چھت پر چڑھ گیا تھا۔ لوگوں نے سمجھا کہ میں عمارت کی چھت سے عید کا چاند دیکھنے آیا ہوں۔ وہ مٹھائیوں کے ڈبے، چکن تکے اور طرح طرح کے طعام لے کر میرے پیچھے دوڑے ہوئے آئے۔ میں نے انہیں سمجھا بجھا کر واپس کردیا کہ بھائی عید آنے میں ابھی دس مہینے باقی ہیں ۔ میں کسی اور کام سے اونچی عمارت کی چھت پر آیا ہوں۔
ایک نیک مرد نے رس ملائی کھاتے ہوئے کہا۔ ’’خودکشی حرام ہے۔‘‘

اسے تسلی دیتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’مجھے حرام کو حلال بنانے کے گر آتے ہیں۔ میں آسمان سے تارے توڑنے آیا ہوں۔‘‘
انہوں نے مجھے کھسکا ہوا سمجھا اور مجھ پر ہنستے ہوئے چلے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد چھت کی منڈیر پر چڑھ کر میں نے آسمان سے ایک تارا توڑنے کی کوشش کی۔ آسمان پھر بھی بہت دور تھا۔ اچھل کر میں نے تارا توڑنے کی کوشش کی۔ توازن نہ رکھ سکا۔ چھت پر گرنے کے بجائے میں نیچے زمین کی طرف ڈول گیا۔ عین محاورے کے مطابق میں آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹک گیا اور مرنے سے بال بال بچ گیا مگر میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اب میں لنگڑا کر چلتا ہوں اور کسی کے کام میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔
’’لگتا ہے تم اپنے خیالوں میں گم ہو۔‘‘ مرد نے کہا۔ ’’ہم اتنی دیر سے بولے جارہے ہیں، اور تم ہو کہ ٹک ٹکی باندھے ہمیں دیکھے جارہے ہو۔ کچھ تو بولو۔‘‘

میں نے چونک کر کہا۔ ’’تم بولو، میں سن رہا ہوں۔‘‘ مرد نے کہا ’’میں بھیڑیا ہوں اور یہ میری بیوی بھیڑنی ہے۔‘‘

آپ، میں، ہم سب کچھ کچھ پگلے اور کچھ کچھ کھسکے ہوئے ہوتے ہیں۔ مگر وہ دونوں نہ کھسکے ہوئے لگ رہے تھے اور نہ پگلے لگ رہے تھے۔ مرد نے کہا۔ ’’تم اس قدر بوڑھے ہوچکے ہو کہ کبھی بھی مر سکتے ہو۔ تمہارے بال بچے کہاں ہیں؟‘‘

کھسیانہ ہوتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ کہیں دور رہتے ہیں۔‘‘

’’تو تم انسان ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتے‘‘ مرد نے کہا ’’آؤ میرے ساتھ کھڑکی سے جھانک کر دیکھو۔‘‘
میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ مجھے آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ بھیڑیوں کا غول میرے کباڑخانے کے باہر کھڑا ہوا تھا۔ مرد نے کہا ’’یہ ہمارے بچے ہیں۔ بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں۔ ہم سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہ جانتے تھے کہ ہم ایک آدمی سے ملنے جارہے ہیں۔ یہ ہماری حفاظت کے لیے آئے ہیں۔‘‘

یہ جو کچھ ہورہا تھا، غیر طبعی اور پراسرار لگ رہا تھا۔ ایک بھیڑیا اور ایک بھیڑنی انسانی روپ میں میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
’’ہم بھیڑیے اپنے اور پرانے بھیڑیوں کے بچوں پر جان نچھاور کرتے ہیں۔‘‘ مرد نے کہا۔ ’’ہم بھیڑیے اپنے بچوں کو چیرتے پھاڑتے نہیں۔ یہ ہماری فطرت میں نہیں ہے۔‘‘

متعجب ہوکر میں نے پوچھا ’’مگر یہ سب تم مجھے کیوں بتا رہے ہو؟‘‘

مرد نے کہا ۔ ’’شکار کرتے ہوئے یا کسی درندے سے لڑتے ہوئے جب بھیڑنی مر جاتی ہے تب کنبے کی دوسری بھیڑنیاں اس کے بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔‘‘

میں نے بیزار ہوتے ہوئے کہا۔ ’’میں انسان ہوں۔ میرا تم بھیڑیوں سے کیا واسطہ! کیوں سنا رہے ہو تم مجھے بھیڑیوں کے قصے؟‘‘
’’ساحر لدھیانوی کا ایک شعر ہے، خود پاپ کرو اور نام ہو شیطان کا بدنام۔‘‘ مرد نے کہا۔ ’’تم انسان جب درندگی پر اتر آتے ہو تب بیچ میں ہم بھیڑیوں کا نام کیوں لے آتے ہو؟ فلاں بھیڑیے نے پانچ سال کے بچے کو چیر پھاڑ ڈالا! وہ شخص بھیڑیا نہیں ہوتا۔ وہ شخص تم انسانوں میں سے ایک ہوتا ہے۔‘‘

میں ہکا بکا رہ گیا۔

مرد اور عورت نے جانے سے پہلے کہا۔ ’’اپنے دانشوروں کو بتا دینا کہ ہم بھیڑیے انسان نہیں ہیں۔ اس  لیے ہم اپنے بچوں کو چیرتے پھاڑتے نہیں۔‘‘

اور پھر دروازے سے باہر نکلتے ہوئے مرد نے کہا ’’اور اپنے دانشوروں کو یہ بھی بتا دینا کہ ہم بھیڑیے ایٹم بم نہیں بناتے۔‘‘