نا معلوم کی تلاش اور امر جلیل کی جلیل القدری

Waris Raza

نا معلوم کی تلاش اور امر جلیل کی جلیل القدری

از، وارث رضا

وہ مطلقُ العنان آمر ضیا کے جبر میں بھی شاہ راہِ دستور سے واقف تھا۔ وہ اکثر کبھی صبح تڑکے کبھی سہ پہر اور کبھی رات کے مہیب سناٹوں میں شاہ راہِ دستور پہ لٹکے وقت کو دیکھتا رہتا تھا۔ وقت سے باتیں کیا کرتا تھا، وقت سے ظلم و جبر ختم ہونے کا سمے معلوم کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔

وہ سندھ کے سیراب کرتے دریا مانند اپنی گفتگو کو دھیما رکھ کر شاہ راہِ دستور پہ لٹکتے وقت کو سندھ کے اجڑنے، دریاؤں کے بہاؤ کی روانی کے ٹھہر جانے اور منچھر کنارے آباد مچھیروں کی معاشی بد حالی کو خوش حالی میں تبدیل ہونے والے وقت کا معلوم کیا کرتا۔

جب شاہ راہِ دستور پہ لٹکا ہوا وقت اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیتا تھا تو وہ بوجھل قدموں سے گھر لوٹ کر اپنی مایوسی اور کھوجتا کو قلم کے سپرد کر کے اپنی بِپتا کو افسانوی رنگ دے کر دکھی دل کی بھڑاس نکال لیا کرتا تھا۔

وہ جبر کے کئی سال شاہ راہِ دستور پہ لٹکتے وقت کا ایک مستقل دوست بن گیا تھا۔ اسے امید تھی کہ شاہ راہِ دستور پہ لٹکتا ہوا وقت اسے ضرور بتائے گا کہ ظلم و جبر کی یہ سیاہی روشنی میں کب، کیسے اور کس وقت تک تبدیل ہو گی۔

وہ ریاست کے شہرِ اقتدار میں آیا ہی اس نیت سے تھا کہ وہ اپنے سندھ کے اجڑے کھیت کھلیان اور سندھ کے عوام میں پھیلی وحشت اور جبر کی قوت سے پھیلتی دہشت کا کوئی حل نکال سکے، مگر شاہ راہِ دستور پہ لٹکتے وقت نے بھی سندھ کے عوم کا ساتھ دینے کے بہ جائے آمر فوجی جنتائی قوتوں کا ساتھ دیا، اور اس کے دل میں مچلتی عوامی امید خوش حالی اور جمہوریت کی آس آخرِ کار دم توڑ گئی۔

نا جانے کیوں وہ مایوس نہ ہوتا تھا، تبھی تو وہ تمام خدشات کی پروا کیے بہ غیر اپنے گم شدہ دوست دھنی بخش کی تلاش میں پاگل خانے تک جا پہنچا۔

وہ دھنی بخش کے ان نا معلوم اغواء کنندگان کا پتا چاہتا تھا، جن سے واقف ہونے والے بھی ان کی واقفیت سے لا تعلقی اختیار کیا کرتے تھے، اور جب وہ اپنے دوست دھنی بخش کے متعلق زیادہ کھوجنا کیا کرتا تو اسے کہا جاتا کہ تم باز آ جاؤ دھنی بخش کی کھوجنا سے۔ اسے ڈرایا اور دھمکایا جاتا۔

مگر جب وہ دھنی بخش کی تلاش سے باز نہ آیا تو اکثر اسے جواب ملا کہ ہم نہیں جانتے کہ دھنی بخش کو گم کرنے والے کون ہیں۔ شاید کہ نا معلوم ہیں وہ لوگ… وہ پاگلوں کے بھیس میں بھی “نا معلوم” کی کھوجنا میں جتا رہا، مگر “نا معلوم” نے اس کے مقدر میں نا کامی داخل کر دی تھی۔

وہ کوششوں کے با وُجود اپنے دوست دھنی بخش کو گم کرنے والے “نا معلوم” کا پتا نہ ڈھونڈ سکا۔ اچانک اسے امید ہو چلی کہ اس کی مدد اس کا “خدا” ضرور کرے گا، اس نے اپنے”خدا” کے سامنے اپنے دوست دھنی بخش کی گم شدگی کا حال سنایا تو اسے وہاں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔

وہ خود نام کا جلیل تھا، لہٰذا بہت پر امید تھا کہ اس کے اسم کو “خدا” سن کر مہر بان ہو جائے گا اور یوں اس کے دوست دھنی بخش کو اغواء کرنے والے نا معلوم  کا پتا چل جائے گا، اور شاید اسی بناء وہ سندھ کے رہواسیوں میں خود کو “امر” کر جائے۔

مگر نا جانے ایسا کیوں نہ ہو سکا، البتہ شاید نا معلوم کے دوستوں کو اس کی “خدا” سے گفتگو اور راز و نیاز کا پتا لگ گیا، تب سے وہ دھنی بخش کے اغواء کنندگان کی کھوج کا قصور وار تو نہ ٹھہرا البتہ “خدا” سے راز و نیاز کے جرم میں اس قدر “جلیل القدر” ہو گیا کہ اس کے خلاف نا معلوم سے زیادہ محراب و منبر متحرک ہو گئے۔

جو امر جلیل دھنی بخش کو تلاش کر کے سندھ واسیوں میں “امر” ہونا چاہتا تھا، اسے متولّیوں کے فتووں نے سندھ، بل کہ جگ بھر میں ںا جانے خوف سے “امر” کر دیا۔

سوچتا ہوں کہ امر جلیل نے تو جو کچھ “خدا” سے گلہ شکوہ کیا ہو گا وہ امر جلیل جانے اور اس کا خدا… مگر عورت حقوق کی تلاش میں برس ہا برس سے پا پیادہ اور کسی اجر اور صلے کی تمنا کیے بہ غیر با قاعدگی کے ساتھ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی خواتین نے تو ہر گز “خدا” سے نہ راز و نیاز کیا اور نہ کسی “نا معلوم کی شکایت کی، تو پھر پشاور کے ایک جج نے چند وکلاء کی درخواست پر کیوں عورت مارچ کے اسلام آباد اور کراچی کے منتظمین کی گرفتاری کا حکم نامہ جاری کر دیا؟

بات یہاں تک ہوتی تو شاید نظر انداز کیا جا سکتا تھا، مگر اسی اثنا اعلیٰ عدلیہ کے معزز جسٹس منصور علی شاہ نے عِصمت دری کیس میں ایک ایسا دلیرانہ فیصلہ دیا کہ جس کی رُو سے عِصمت دری کی شکار عورت سے اس کے کردار پر سوال نہ کرنے اور اس کی شخصیت کے متعلق ذاتی سوال کرنے کی ممانعت کا فیصلہ دے دیا اور عدالت میں متاثرہ عورت پر جرح کرنے سے وکلاء کو روک دیا گیا۔

یہ اعلیٰ عدلیہ کا انصاف کے ضمن میں وہ فیصلہ تھا جو کہ عالمی طور سے سراہا جا رہا ہے، جب کہ اس فیصلے کی رو سے عمومی طور سے سماج انصاف کے حصول میں ایک قدم آگے بڑھا ہے۔

اس لمحے متذکرہ جرأت مندانہ فیصلہ دینے والے جسٹس کے خلاف کب محراب و منبر والے اپنی صف بندیاں کرتے ہیں۔ مجھ سمیت بہت سارے افراد کو اس لمحے کا انتظار ہے جب دکھیاری عورت کو انصاف دینے والے جسٹس کے خلاف فتاوی کا سلسلہ شروع ہو، کیوں کہ اس سماج میں یہ چلن عورت حقوق اور خدا سے راز و نیاز کرنے کے سلسلے میں عام ہو چلا ہے کہ جب چاہو بہ غیر ثبوت کسی پر الزام لگا دو اور جب چاہو کسی آمر کو پوجا پاٹ کے اوتار کا منصب عطا کر دو۔

ہم جب سماج کی تعریف اور اس کے خد و خال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو جائزہ لینے والے سماج کے طور طریقوں اور راہ و رسم میں اخلاقیات کو اول درجے پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب سماج کی اخلاقیات کی بات کی جانے لگے تو اس سماج میں تعلیمی نظام کی اس سوچ پر نظر رکھنا ضروری ہو جاتا ہے، جس کے تحت سماج عمل کرتا ہو، پاکستانی سماج کی سمت کیا ہے یا آیا یہ سماج کی حقیقی تعریف میں آتا ہے۔

یہ وہ جان لیوا سوال یا گتھی ہے، جس کی وضاحت میں جان کی بازی دینا اکثر ٹھہر جاتا ہے۔ یعنی جان لیا جائے کہ جو سماج دلیل اور منطق پر گفتگو نہ کرے یا خیالات کے آدرش پر بحث و مباحثہ نہ کرے تو اسے سماج کا درجہ دینا بھی ایک سوال ہی بن جاتا ہے۔

پاکستانی سماج کا اجمالی جائزہ لیتے وقت ہم سب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری بنیاد ہر گز کسی شائستگی، دلیل اور بحث و مباحث سے تخلیق کرنے کے عوامل پر نہیں رکھی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم نہ تاریخی طور پر اور نہ ہی تعلیمی طور پر آگہی حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، بل کہ ہم سنی سنائی اور بَہ غیر تحقیق کیے ایسے سراب کی جانب چلے جانے والے افراد ہیں جن میں عقل و شعور نام کی کوئی شے نہیں بستی، چِہ جائی کہ ہم اپنی انتہا پسند سوچ کو مکمل اپنے اوپر طاری نہ کر لیں۔

ہمارے سماج میں انتہا پسند سوچ کی بنیادی وجہ جہاں عام فرد تک تعلیم کا نہ پہنچنا ہے وہیں بار بار ایوانِ اقتدار پر عوام کے غیر منتخب افراد کا زمامِ حکومت سنبھالنا بھی ہے۔ ملک میں بار بار کے فوجی آمرانہ راج اور ان کے پروردہ سیاسی سلیکٹیڈ راج رہے ہیں جو اپنے اقتدار کے مکمل ہونے کی کوشش میں سماج کی بنت سازی پر کوئی توجہ نہ دیتے اور نہ سماج کی آبیاری ان کا مسئلہ ہے۔

ریاست کی اس سماج دشمن سوچ کا فطری نتیجہ عدم برداشت، معاشرتی اخلاقی بگاڑ اور ان تمام کے نتیجے میں انتہا پسند سوچ کا پنپنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم مایوس ہو کر بہتر سماج کے تشکیل کی کوششیں ترک کر دیں؟

اگر ہم سب یہ نہیں چاہتے تو پھر ہم میں برداشت در گزر اور تحقیق کے سوتے کیسے اور کیوں کر پیدا ہوں گے؟

اس کا سادہ سا جواب ہے کہ جب آپ ایک اچھے سامع بننے کی جانب جائیں گے تو آپ میں برداشت تحمل در گزر اور وسیع النظری جنم لیگی جو آخر کار تنگ نظری اور انتہا پسندی کے اژدھے کو قابو کر لے گی، وگرنہ آئندہ نسل نہ پہاڑ جوکھم روہڑی سندھ سے امر جلیل نہ لاہور سے جسٹس منصور شاہ اور نہ استحصال سے مبرا عورت یا ماں اگل پائے گی۔

فیصلہ آج ہی کرنا ہے کہ کیا ہم بانجھ دھرتی اپنے مستقبل کو دیں گے، یا تعمیری سوچ اور احترام کی انصاف بر مبنی دھرتی، جہاں سکھ چین کی بانسری کی آواز ہو اور پرند چہچہائیں تو ان کے آزادانہ سر ہمارے کل کے آزاد انسان کو سُر اور تخلیق کی لے پر شانتی دیں اور وہ تعمیر و تخلیق کے وہ راہ رو ہوں جن پر سماج کی ہر پرت اپنی بانہیں کھول دے۔ اور ہم وسیع ذہن سے ہر بات کو سننے، پرکھنے اور رد عمل دینے کے اوتار بنیں۔

About وارث رضا 36 Articles
وارث رضا کراچی میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ ملک میں چلنے والی مختلف زمینی سیاسی و صحافتی تحریکوں میں توانا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا ان کی جد وجہد کا مِحور رہا ہے۔