ہم جوڈیشل حکمرانی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں

Babar Sattar
بابر ستار

ہم جوڈیشل حکمرانی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں

از، بابر ستار

آئین بالا دست ہے۔ لیکن آئین وہ ہے جس کا تعین جج حضرات کرتے ہیں۔ ہم نے براہِ راست فوجی حکومتیں دیکھیں۔ ہم نے سہ فریقی (ٹرائیکا) ٹولے کو جمہوریت کو کنٹرول کرتے دیکھا ہماری نظروں کے سامنے پاکستان کے صدور نے 58 (2)(b) استعمال کرتے ہوئے منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا۔ سپریم کورٹ خالی وردی پوشوں کی منشا کی تعمیل کرتی رہی۔

2009ء سے ہمارے ہاں جوڈیشل فعالیت کا دور شروع ہوا۔ اس نے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ایگزیکٹو اور قانون سازی کے عمل کو ویٹو کرنے کا اختیار حاصل کرلیا۔ اب تک نمائندہ اداروں پر غیر منتخب شدہ اداروں کی فتح کا باب کم و بیش مکمل ہوچکا ہے۔ ہم میں سے کچھ کو یقین ہے کہ نواز شریف مجسم برائی ہیں، چنانچہ اُنہیں سیاسی طو رپر موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے جو بھی طریقے اختیار کیے جائیں، سب ٹھیک ہیں۔

یہ افراد سپریم کورٹ کے ستائش گر ہیں کہ یہ سیاسی دلدل میں پاؤں رکھتے ہوئے ایسا راستہ بنا رہی ہے جو اُن کے عزائم کی تکمیل کے لیے ساز گار ہے۔ دوسری طرف ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو نواز شریف کے ساتھ غیر مشروط وفاداری کے دعوے دار ہیں۔ وہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز سمجھتے ہیں۔ اُنہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پی ایم ایل (ن) کی اسٹرٹیجی کتنی غلط ہے۔ اُن کے نزدیک نواز شریف کو واپس اقتدار میں لانے کے لیے اپنایا گیا ہر حربہ درست ہے۔ اس دو طرفہ فائرنگ کی زد میں آنے والے وہ ہیں جو اس معرکے میں اصول اور قانونی طریق کار اپنانے کی بات کرتے ہیں۔

ملک کے در و دیوار پر ’’اچھا کام کر دکھانے کا جنون‘‘ طاری ہے۔ اس سے کم پر ہم راضی ہونے والے نہیں۔ اپنی 70سالہ قومی زندگی میں ہم ابھی تک منظم اصولوں کے مطابق کام کرنے پر اتفاق نہیں کرسکے ہیں جنون ہی ہمارا اصول ہے۔ ہماری وابستگی چاہے جمہوریت کے ساتھ ہو یا قانون کی حکمرانی کے ساتھ، قاعدے نامی کوئی چیز ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ اختیارات میں علیحدگی کا تصور ہمارے لیے اجنبی ہے۔ اختیار اور ذمہ داری کو یکجا کرتے ہوئے ہماری جان نکلتی ہے۔ ہرکوئی وہ کام کرنے پر تُلا ہوا ہے جو کسی اور کے کرنے کا ہے۔ کس کی مجال ہے جو کسی کو اُس کی اصل ذمہ داری کا احساس دلا دے۔

اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کہ ہم جوڈیشل حکمرانی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ’’پیار کی دنیا میں یہ پہلا قدم‘‘ افتخار چوہدری کی بحالی اور اُنہیں مسیحا کے طور پر پیش کرکے رکھا گیا تھا۔ کہا گیا کہ وہ ملک کی ’’خاموش اکثریت‘‘ کی امنگوں کے ترجمان ہیں۔ آج ہم میں سے بہت سے، جنہوں نے جسٹس چوہدری کے قد میں دیومالائی قامت شامل کردی تھی، جوڈیشل فعالیت کو دیکھ کر شرمندہ ہیں کہ یہ ریاستی نظام کو کس قدر زک پہنچا رہی ہے۔ جسٹس چوہدری نے سوموٹو اختیار کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے اختیارات میں دخل انداز ی کی۔ اُس وقت موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان سوموٹو اختیارات کے بے دریغ استعمال کے سخت ناقد تھے۔

اگر آرٹیکل 184(3) کے استعمال کی بابت کوئی حدودوقیود تھیں تو اب کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ نہایت چابکدستی سے ہر معاملہ بنیادی انسانی حقوق کے رنگ میں رنگ کر عوامی مفاد کی سند پاتا ہے۔ ہم نے چیف جسٹس آف پاکستان کو اسپتالوں کے دورے کرتے دیکھا ہے۔ وہ نہ صرف آپریشنز کی جانچ کرتے دیکھے گئے بلکہ محترم نے طبی عملے کو صائب ہدایات دینا بھی ضروری سمجھا۔ بصد احترام، اُن کے پاس ایسا کرنے کے لیے کیا اتھارٹی ہے؟ کیا یہ آئین میں درج ہے؟ کیا یہ سپریم کورٹ کے قوانین سے مطابقت رکھتا ہے؟

جسٹس چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم کے چیلنج کی سماعت کی۔ اس نے پارلیمنٹ کی جوڈیشل تقرریوں کی اتھارٹی کو پسند نہ کیا۔ چنانچہ ہم نے تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھا کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ میں کی گئی آئینی ترمیم کو نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کے پاس واپس بھیج دیا۔ پارلیمنٹ نے گھٹنے ٹیک دئیے اور سپریم کورٹ جو چاہتی تھی، اُسے دے دیا۔ اس نے نامزدگی کا اختیار اپنے پاس رکھا لیکن جب اس اختیار کو استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے جوڈیشل نظر ثانی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اسے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔

یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ آرمی پبلک ا سکول پشاور پر حملے نے ملک پر سکتہ طاری کردیا۔ اُس وقت عدالت پر الزام لگایا گیا کہ وہ دہشت گردی کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے، یا دہشت گردوں کو سزا نہیں دے پاتی۔ اکیسویں ترمیم ایک طرح سے عدالت پر ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ تھی۔ اس نے فوجی عدالت کی راہ ہموار کی۔ اس طرح عدالت کے اختیار میں فوج بھی شامل ہوگئی۔ سپریم کورٹ نے یہ کڑوی گولی نگل لی۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ فوجی عدالتوں میں ہونے والے خفیہ ٹرائلز بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہیں، اس نے آئینی ترامیم کو ساقط کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ چنانچہ اب پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ موضوع ختم ہوچکا۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 239(5)، جس کے مطابق ’’آئین میں کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘‘ کی اپنی مرضی سے تشریح کی اور کہا کہ سپریم کورٹ ویٹو کی طاقت رکھتی ہے ۔ یہ فیصلہ کرے گی کہ کون سی ترمیم درست ہے اور کون سی نہیں۔ ایک مرتبہ جب عدالت نے تشریح کے نام پر آئینی ترامیم کی جانچ کا اختیار حاصل کرلیا تو پھریہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عام قانون سازی پر اس کے اختیار کی کیا حد ہوگی۔

قانون سازی کے علاوہ پارلیمنٹ کے پاس وزیرِاعظم کو منتخب کرنے کی اتھارٹی ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ آئین الیکشن کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی رکن کو الیکشن سے پہلے اہل یا نااہل قرار دے سکتا ہے، اور الیکشن کے بعد یہ اختیار اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کے پاس چلا جاتاہے ۔ لیکن یہ گزرے وقتوں کی باتیں ہیں۔ اب پانامہ نے سب کچھ بدل کررکھ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق نااہلی اور ہے، لیکن آئین اور سپریم کورٹ کے 184(3) کے استعمال سے ہونے والی نااہلی کی نوعیت اور ہے۔ اس کے لیے کسی ٹرائل کی ضرورت نہیں۔

بس عدالت نے یہ تعین کرنا ہوتاہے کہ مذکورہ شخص 62/63 کی چھلنی سے گزر سکتا ہے یا نہیں۔ آئین کی اس طرح کی تشریح نے سپریم کورٹ کو اختیار دیا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ ایگزیکٹو کا سربراہ کون ہے۔ چنانچہ، مثال کے طور پر سپریم کورٹ نے ابھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایل این جی کے ٹھیکے کا فیصلہ کرنے کے لیے 184(3) کے تحت اپنے اختیارات استعمال نہیں کرے گی۔

اگر وہ اس کی سماعت کا فیصلہ کرلیتی ،اور یہ نتیجہ نکالتی کہ ٹھیکہ شفاف طریقے سے نہیں دیا گیا، چنانچہ وزیراعظم عباسی ’’صادق اور امین ‘‘ نہیں رہے۔ تو اس صور ت میں مسٹر عباسی کو گھر جانا پڑتا۔ چنانچہ اگر وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر موجود ہیں تو اس کی وجہ سپریم کورٹ کی ’’مہربانی ‘‘ ہے۔ اور یہاں پارلیمنٹ اپنی بالا دستی کی بات کررہی ہے۔

جب ایک وزیر اعظم کو ٹرائل کے بغیر، 184(3) کے صوابدیدی اختیار ات استعمال کرکےمنصب سے ہٹایا جاسکتا ہے تو ریاستی تنظیموں کے سربراہان کی معطلی تو ایک معمول کی بات ہے۔ اُن کی خلاف ِقانون تعیناتی کا پتہ چلانا کون سامشکل کام ہے۔ تھیوری کے اعتبار سے ہم ایک ایسا نظام رکھتے ہیں جس میں شہری اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ اُنہیں ووٹ کے ذریعے قانون سازی کا اختیار دیا جاتا ہے۔

غیر قانونی اقدامات پر نظر رکھنے کے لیے عدالت موجود ہوتی ہے۔ لیکن عملی طور پر ہم ایسا نظام دیکھ رہے ہیں جس میں جج حضرات آئین کی تشریح اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ تشریح اُن کے اختیار میں اضافہ کرے۔ پارلیمنٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کا انتخاب کرتی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے پاس امور مملکت چلانے کے لیے تعیناتیوں کا اختیار ہوتا ہے۔ یقیناََ اقربا پروری کی حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن پھر یہ مسئلہ تو جوڈیشل تقرریوں میں بھی موجود ہے۔

2009 ء سے ہم نے دیکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے ایسے فیصلے کیے جن کی کوئی عدالتی مثال موجود نہیں۔ اس نے ناقدین کی زبان بندی کرنے کے لیے توہین عدالت کے قانون کا استعمال کیا۔ ہماری جمہوریت بہت کمزور نہیں تھی، لیکن اسے کنٹرول کرلیا گیا ہے۔ لیکن پھر ابن انشا یاد آتے ہیں، ’’زنجیر ابھی کڑی نہ پڑیو، دیوانے کا پاؤں درمیاں ہے۔‘‘


بشکریہ روزنامہ جنگ۔۔۔ بابر ستار کا یہ مضمون روزنامہ دی نیوز میں مورخہ 24 فروری 2018 کو بعنوان Judicial Imperialism شائع ہوا۔ لیکن اردو قارئین کو یہ مترجم شکل میں عدالتی میانہ روی کی ضرورت کے طور پر پیش کیا گیا۔ شاید سمجھا جاتا ہے کہ اردو قاری مشکل اور آزاد منش خیالات کو ہضم کرنے سے قاصر ہے، واللہ اعلم۔