حادثہ ایک دم نہیں ہوتا… ساہی وال

Yasser Chattha, the writer

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا… ساہی وال

از، یاسر چٹھہ

یہ سی ٹی ڈی CTD اور اُس اطلاع دینے والے حساس ادارے کے شِیہ جوان وہی ہیں جن کی:

  • ابا جان، اماں جان، چاچے، مامے اور رشتے داروں نے جوتی، گالی اور تھپڑ کے تشدد سے تربیت کی ہے،
  • جن کو سکول و مدرسہ نے کئی صورتوں کے تشدد روا رکھ کے تعلیم دی ہے،
  • جن کو جو تعلیم ملی ہے وہ تشدد اور نفرت کی نفسیات کی پروردگی پر اکساتی ہے،
  • جن کے سینئر افسران ان پر گالیوں اور پورے کھلے منھ کے زور سے بر آمد اونچی آواز سے تشدد کرتے ہیں،
  • جن کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ صرف تم ہی ہو جن کے ہاتھ سے خیر بر آمد ہو سکتی ہے، باقی سب بے وقوف، جاہل، اور حالات کی نزاکتوں سے بے خبر، اور نا کام ہیں
  • وہ ایسے معاشرے میں ہیں جہاں جرم کو برا نہیں بَل کہ مجرم کو جہنمی باور کیا جاتا ہے،
  • جہاں بات بات پر  بیچ چوراہے پھانسی سے کم کی بات نہیں
  • جہاں عدالت بدلہ خو لوگوں سے بھری ہونے کے با وجود، فوجی عدالتوں کے نام کے قانونی و  آئینی encounters and ultra-ethical deviations آدرش پسندوں کے آنسوؤں کی جھڑی میں بھی دوڑ دُڑا کر، بازو مروڑ مڑا کر پاس ہو جاتے ہیں
  • جہاں قانون نام کی کسی چیز کا نفاذ کرنے والے اپنے دوڑنے کی رفتار سے اپنے فرض کی بجا آوری کے لیے منتخب ہوتے ہیں
  • جہاں یہ قانون نافذ کار ڈیوٹی آورز  duty hours کی کسی حد و قید سے باہر تھکن سے بے حال ہو کر فرائض ادا کرتے ہیں۔

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا…  بھئی روز حادثے ہوتے ہیں۔ ہم تم کہتے ہیں کہ “انہوں نے کچھ ایسا کیا ہو گا کہ جو ان کے ساتھ ایسا ہوا”، تو پھر ایسا ہونا خرقِ عادت کب رہتا ہے۔

اپنے اندر سے تشدد بھری نفسیات کو نکالنا ہو گا۔ طریقے سوچتے ہیں، اور عمل کرتے ہیں۔ صرف سٹیٹسوں اور ٹویٹوں سے یہ طوفان، متعفن طوفان ٹالا نا جائے گا۔ آئیے اپنے اپنے طور پر کوشش کریں، ورنہ یونہی رہ جائیں گے۔

قابل اجمیری (1931- 1962) کہہ گئے ہیں:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


مزید دیکھیے:  جنونی ہجوم اورقتل کا تجزیہ و تحلیل (اناٹومی) از،  آتش تاثیر

عاشر عظیم کی دھواں دار قانون ما ورائیت  از، احمد علی کاظمی


ہوش کی بات کرتے ہیں۔ سنیے سلمان حیدر کیا کہتے ہیں:

“دوستو! ہم نے ریاستی اداروں کے ظلم جبر اور طاقت کے اندھا دھند غیر قانونی استعمال کو بلوچستان، سابقہ فاٹا، خیبر پختون خواہ، سندھ ہر جگہ شک کا غیر ضروری فائدہ دیا اور کہا کہ مرنے والوں نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہو گا جو اداروں نے انہیں مار ڈالا، غائب ہونے والوں نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہو گا جو اداروں نے انہیں غائب کر دیا۔

نتیجہ اس کا یہ کہ ج**نی اداروں کا وہ رویہ آہستہ آہستہ ہمارے گھروں تک آ پہنچا۔ سوچیے کہ ٹی وی کیمروں کی موجودگی، شور شرابے اور سوشل میڈیا کی رسائی کے با وجود یہ پنجاب میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو اس سب کی آنکھ سے اوجھل بلوچستان، اور سابقہ فاٹا، پروپیگنڈے کی دھند میں لپٹے کراچی اور دیگر سندھی علاقو،ں میں انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا جو ہم تک پہنچا ہی نہیں۔”

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق کے زیرِ نظر کچھ یہ بات ہے:

دہشت گردی کے عِفریت نے ملک کو جکڑ لیا تھا۔ ریاست نے محسوس کیا کہ دہشت گردی کے ملزموں کا جرم عدالت میں ثابت کرنا مشکل ہے۔ سو اس نے اس عِفریت سے نمٹنے کےلیے دو طریقے چنے:

1۔ ایک یہ کہ عدالتی کارِ روائی کے چکر میں پڑے بغیر انکاؤنٹرز میں “ٹھوک” دو؛ اس طریقے سے سی ٹی ڈی نے کئی کار ہائے نمایاں سرانجام دیے۔

2۔ دوسرا یہ کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے پھانسیاں لگوا کر وہی نتیجہ حاصل کرو جو سی ٹی ڈی اپنے بندوق کے زور پر کرتی ہے۔

ان دونوں طریقوں کو نظریۂِ ضرورت کے پائے چوبیں کا سہارا دیا گیا اور ان کے ذریعے مارے جانے والوں کے متعلق عام لوگ بھی کہنے لگے کہ “کچھ تو کیا ہوگا۔”

یوں ایک عِفریت سے نمٹنے کی کوشش میں اس سے بڑا عفریت وجود میں آ چکا۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قبلہ درست کیا جائے۔ قانون کی حکم رانی سے بڑھ کر کوئی چیز ایسی نہیں جو اس عفریت سے قوم کی جان چھڑا سکے۔

کوئی اگر مگر نہیں، صاف اور سیدھی بات۔

نظریۂ ضرورت کا پائے چوبیں ہٹا دیجیے۔ سی ٹی ڈی اور فوجی عدالتوں سمیت ریاست کے ہر ادارے کو دستور اور قانون کے دائرے کے اندر لائیے۔”

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔