طے شُدہ آئین پر سوال کی حیثیت

Maulana Ammar Khan Nasir aik Rozan
مولانا عمار خان ناصر، صاحب مضمون

طے شُدہ آئین پر سوال کی حیثیت

از، عمار خان ناصر

کوئی موقف یا طرز فکر حقیقی معنوں میں اسی وقت مضبوط اور متاثر کن ہوتا ہے جب اس میں داخلی تضادات نہ ہوں۔ اگر ایک معاملے میں ایک اور دوسرے معاملے میں دوسرا معیار رکھا جائے تو بات میں صحت واصابت کا جتنا پہلو ہوتا ہے، اس کا وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔

مثلاً‌ اس نقطہ نظر کو دیکھیے کہ احمدیوں کے متعلق جو آئینی فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر کسی کو سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک بنیادی اور اساسی معاملہ ہے جو طے شدہ ہے اور ایسے امور کو چھیڑنے کی اجازت کوئی ریاست یا معاشرہ نہیں دیتا۔ اول تو یہ بات اس لحاظ سے درست نہیں کہ کسی بھی اجتماعی فیصلے کی قوت اسی میں مضمر ہوتی ہے کہ اس کی فکری ونظریاتی اساسات کا وزن لوگوں پر واضح رہے اور اس حوالے سے سوالات یا شبہات اٹھ رہے ہوں تو ان کا نظریاتی دلائل کے ساتھ ہی ازالہ کیا جائے۔ جو فیصلہ کیا گیا، اگر وہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے تو سوالات سے نہیں گھبرانا چاہیے، بلکہ سوالات کو روکنے کی کوشش کرنا بسا اوقات منفی نتائج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہاں بھی ہمارے طرز فکر ایک واضح تضاد سامنے آتا ہے جو ایک خاص معاملے میں سوال کی اجازت نہ دینے کی اخلاقی حیثیت کو مجروح کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں اسلامی یا سیکولر ریاست کی بحث پہلے دن سے موجود ہے اور واضح آئینی فیصلے ہو جانے کے باوجود نظری طور پر اب تک یہ بحث جاری ہے۔ سیکولرازم کے حامی ہر پلیٹ فارم پر کھل کر اپنے موقف اور اس کے دلائل پیش کر رہے ہیں، حالانکہ یہ ریاست کے طے شدہ نظریاتی تشخص کے خلاف ہے، لیکن وہاں یہ دلیل پیش نہیں کی جاتی کہ ایک طے شدہ معاملے پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

پھر پبلک ڈیبیٹ کے علاوہ آئین کی تعبیر کے حوالے سے اعلیٰ عدالتوں میں یہ بحث موجود ہے کہ کیا شریعت کی بالادستی کی ضمانت دینے والی شقیں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں یا ان کی حیثیت آئین کی دوسری شقوں کے برابر ہے، یعنی تضاد کی صورت میں شریعت کو بالادست حیثیت حاصل نہیں ہوگی؟ سپریم کورٹ حاکم خان کیس میں قرار دیتی ہے کہ شریعت کی بالادستی کی شق عملاً‌ فیصلہ کن اور موثر نہیں۔

اب اگر ریاست کی مذہبی اور نظریاتی اساس جیسے بنیادی مسئلے کے حوالے سے یہ بحثیں اٹھائی جا رہی ہیں اور انھیں گوارا کیا جا رہا ہے تو اس تشخص پر مبنی ایک جزوی فیصلے کے متعلق کیونکر یہ اسٹینڈ لیا جا سکتا ہے کہ اس پر کسی کو سوال تک اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی؟ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جو سوالات واقعتاً‌ ذہنوں میں موجود ہوں، انھیں کسی طرح کے قانونی یا معاشرتی دباؤ سے زیادہ دیر تک دبائے رکھنا ممکن بھی نہیں ہوتا اور ایسا کرنا حکمت اور دانش کے خلاف بھی ہوتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ فیصلے کا دفاع کھلے بحث ومباحثہ میں اس کے اپنے میرٹ کی روشنی میں کیا جائے اور سوالات کی کمزوری کو دلیل ہی کے میدان میں واضح کیا جائے۔

1 Comment

  1. سوال کو روکنا کمزوری کی علامت ہے۔ ہم بتوں کے پجاری کیوں بنے بیٹھے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس زمین پر محمد بن قاسم کے ساتھ اسلام آگیا تھا۔

Comments are closed.