پاکستانی اقلیتیں: میں، جشن اور موت

اقلیتیں

(اظہر مشتاق)

صاحب میں اقلیت سے ہوں، جی کون سی اقلیت ارے اقلیتیں تو بہت قسم کی ہیں ، صاحب مجھے قسموں کا نہیں پتا لیکن میرے ماں باپ کہتے ہیں کہ بیٹا زیادہ بات چیت نہ کرنا، سکون سے رہنا، کسی بحث میں نہ الجھنا، کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں کرنا، میری ماں میری سرخ کتابوں سے گھبراتی ہے، وہ کتابوں میں لکھے الفاظ اور ان الفاظ کے معانی سے واقف نہیں مگر کسی نے اسے بتا دیا کہ سرخ رنگ کی سب کتابیں بغاوت سکھاتی ہیں، دین سے بغاوت ، رسوم سے بغاوت، مسجد کلیسا و مندر سے بغاوت ، وڈٰیروں، جاگیرداروں اور نمبرداروں سے بغاوت۔ میری ماں کا ماننا ہے کہ اقلیتوں کو بغاوت راس نہیں آتی !

مصنف اظہر مشتاق
اظہر مشتاق

ارے تو تم باغی ہو ؟ باغی ہونا کوئی جرم تو نہیں ، فرسودہ رسوم و روایات سے باغی ہونا اچھی بات ہے اور ترقی کی علامت ہے ہم جدید عہد میں جی رہے ہیں پرانے عہد کا لباس اتار پھینکنا ہی پڑے گا۔
صاحب کسی ظالم نے میری ماں کو یہ بتا دیا ہے کہ میں پیروں اور مولویوں کو نہیں مانتا، میں انہیں شعبدہ باز اور جادوگر کہتا ہوں ، کسی نے یہاں تک کہا کہ میں ملحد ہو گیا ہوں، میری ماں کا میرے عقائد سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔میں صبح سویرے اٹھ کر ماں کے سامنے نماز پڑھتا ہوں مگر میری ماں پھر بھی مطمئن نہیں ہوتی۔ گھر میں اگر کسی بات پر بحث چھڑ جائے تو میری مختلف رائے جان کر میری ماں چونک جاتی ہے اور ہر بار مجھے یہ احساس دلاتی ہیکہ ہم اقلیت میں ہیں۔
ایک تو یہ اقلیت کا رونا! بھائی مجھے بتا دو کس اقلیت کی بات کر رہے آپ؟ اچھا ٹھہرو میں اقلیت اور اکثریت کا فرق واضع کئے دیتا ہوں، “اگر کسی ملک میں ایک مذہب کے ماننے والے تعداد میں زیادہ ہوں تو اسے اکثریت کہتے ہیں اور اگر دوسرے مذاہب کے ماننے والے تعداد میں کم ہوں تو اُنہیں اقلیت کہا جاتا ہے، لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ملک کی اکثریت کسی دوسرے ملک کی اقلیت ہو اور اقلیت اکثریت۔”
جی صاحب ، میں نے کتابوں میں بھی یہی پڑھا ہے، نصاب میں یہی بتایا گیا ہے کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، میں یہ سوچ کر خوش ہوتا کہ ہم اکثریت میں ہیں، لیکن جب گاؤں کے سکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد ہائی سکول میں داخل ہوا تو اپنے ہم جماعت لڑکوں نے ذات برادری کا پوچھا تو پتا چلا کہ اکثریت اور اقلیت کی تعریف تبدیل ہوچکی یا معاشرتی علوم میں لکھی گئی اکثریت اور اقلیت کی تعریف متروک ہو چکی، سکول اور کالج کے زمانے میں یہ معلوم ہوا کہ برادری، علاقے یا مسلک کے لحاظ سے بھی انسان اقلیت اور اکثریت میں تقسیم ہیں۔
ارے میاں آپ کتنے باریک بین ہیں، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نظر اند از کر دیا کریں ، اقلیت اور اکثریت کا تعین کسی برادری، مسلک یا علاقائی وابستگی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ مذہبی وابستگی سے ہوتا ہے، دیکھیں ہم سب مسلمان ہیں بھلے ہماری ذات جو بھی ہو، مسلک جو بھی ہو اور ہم جہاں مرضی رہ رہے ہوں۔
صاحب ! میرا تجربہ آپ سے بالکل مختلف ہے، مجھے شک ہو رہا ہے کہ شاید ہم دونوں الگ الگ ممالک کے باشندے ہیں، آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کسی ایسے سماج کا حصّہ ہیں جہاں سب چیزیں ویسی ہی ہیں جیسا ان کے بارے میں درسی کتب میں لکھا گیا ہے۔ آپ کو تو اپنے ارد گرد سے کبھی کوئی پریشانی لاحق ہی نہیں ہوئی۔
دیکھو میری بات سنو، یہ جو تمہارے سوچنے کا انداز ہے، میں نے کبھی ایسے نہیں سوچا یا وقت ہی نہیں ملا، تمہاری باتوں سے ایسا لگتا ہے تم اسلامی تعلیم سے بالکل بے بہرہ ہو، تم شکل سے تو پڑھے لکھے لگتے ہو اور باتیں عجیب سی کرتے ہو، تمہیں پتا ہے کہ اللہ کے نبی نے کہا تھا کہ “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔”
جناب، میرا تو نہ کوئی فرقہ ہے نہ مسلک، میں مسلمانوں کے گھر پیداہوا، دادی اماں سے قرآن پڑھا، سکول میں اساتذہ نے درسی دینیات پڑھائی تو پتا چلا کہ ہمارا مذہب اسلام ہے، اسلام کے پانچ ارکان ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بتایا گیا، مسجد میں جمعہ پڑھنا شروع کیا تو مولوی صاحب کو حقوق اللہ پر زیادہ زور دیتے سنا، مولوی صاحب خال خال حقوق العباد پر بھی بات کر لیا کرتے تھے۔ میں دور دراز کے گاؤں میں رہنے والا ایک عام سا دیہاتی تھا، ہمارے گھر ریڈیو چلانا بھی ایک شیطانی عمل سمجھا جاتا تھا، ریڈیو کا بہترین مصرف “سیر بین ” سننا تھا۔ جب سکول گیا تو یہ عقدہ کھلا کہ اکثریتی برادری کے لڑکے اقلیتی برادری کے طلباء کو پھینٹی لگا کر آزاد گھوم پھر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہیکہ ایک بار مجھے ایک ہم جماعت نے بغیر کسی وجہ کے تھپڑ جڑ دیا تو ہمارے ماسٹر جی نے شکائت لگانے پر میری تواضع تھپڑوں اور ڈنڈوں سے کی تھی۔ میں نے گھر بتایا تو میری ماں کے چہرے پر ایک ایسی اداسی پھیلی کہ جس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ماں بھیگی آنکھوں سے میرے گالوں کو سہلاتے ہوئے مجھے خاموش رہنے کی ہدایت کرتی رہی۔ میں کالج گیا تو کالج کے حالات سکول سے مختلف نہیں تھے وہاں بھی بڑی ذات کے طلباء کے پھڈوں میں پولیس تماشائی بنی رہتی تھی۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا تو کتب خانے کے انچارج سے منٹو کے افسانے طلب کئے ، انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ابھی تمہاری عمر نہیں کہ تم یہ کتاب پڑھو، مجھے عجیب سی حیرانی ہوئی ۔ میں نے سن رکھا تھا کہ کتاب علم کا خزانہ ہوتی ہے، یہ بات میرے لئے بالکل نئی تھی کہ کوئی کتاب پڑھنے کے لئے عمر کے خاص حصے میں ہونا ضروری ہے۔ انہوں نےمجھے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی داستان کو سمجھنے کے لئے ، یوسف بن تاشفین اور ایک بت شکن پیدا ہوا تھما دیں، مجھے جنگ و جدل سے خوف آتا تھا، دونوں کتابیں پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ محمود غزنوی کتنا سفاک اور ایک نالائق سپہ سالار تھا جو ایک دو حملوں سے ہندوستان کو فتح نہ کر سکا بلکہ اس نے سترہ حملے کئے، مجھے سومنات کے مندر کے ٹوٹنے پر دکھ ہوا کیونکہ میں نے اسلامی جنگ کے بارے شرعی حکام میں پڑھا تھا کہ “جنگ کے دوران عبادتگاہوں، کھڑی فصلوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر حملہ کرنا منع ہے، اسلام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ اس شخص پر حملہ کیا جائے جو آپکے مقابلے پر نہ آئے۔
اوہ میرے خدا ! تمہیں پتا ہے تم محمود غزنوی جیسے عظیم جرنیل کے بارے میں کیا کہا اور ہاں کافروں کا مندر ٹوٹنے پر تمہیں دکھ ہوا، بھائی یہ بتاؤ تم مسلمان بھی ہو کہ نہیں، اور ہاں اگر تم نے “منٹو” جیسے فحش نگار اور مرتد کو پڑھا ہے تو تم تو فارغ ہو، میں تبھی سوچوں یہ آدمی اتنی فاطر العقل باتیں کیوں کر رہا ہے؟ یار تو تم پھر دو قومی نظریہ پر بھی تنقید کرتے ہوئے نہیں چوکتے ہو گے؟ لاحول ولا قوۃ، تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے، تم اپنے ایمان کی تجدید کرو بھائی، مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہو کچھ تو خیال کرو، تمہارے جیسے لوگ بھگت سنگھ ، سلیمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو شہید کہتے پھرتے ہیں، تمہیں تو جوزف کالونی، یوحنا آباد، سندھ کے مندروں، ہزارہ اور کوہستان میں مرنے والے اہل تشیع، ربوہ اور چکوال کے احمدیوں کے واقعات، آسیہ بی بی اور نبیل مسیح کی سزاؤں پر بھی دکھ ہوتا ہو گا۔ تمہیں تو صلاح الدین ، مسعود اظہر اور حافظ سعید بھی دہشت گرد لگتے ہوں گے۔
تم تو کشمیر کے جہاد کو بھی دہشت گرد سمجھتے ہوگے۔ تم تو اسامہ اور طالبان کو بھی اچھا نہیں سمجھتے ہو گے، تم تو احمد لدھیانوی صاحب اور فا روقی صاحب کو بھی ٹھیک نہیں سمجھتے ہوگے، تمہارے جیسے لوگ تو پاکستان کے وجود کو بھی انسانی تقسیم کہتے ہو۔
صاحب غصہ نہ کیجئے، جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے، لیکن سُنیے تو سہی، میں ایسا کیوں ہوں، میں کیوں سوچتا ہوں، کیا مجھے سوچنا چاہیے یا نہیں؟ میں مانتا ہوں میں آسیہ بی بی اور نبیل مسیح کے لئے شان تاثیر کے ساتھ کھڑا ہوں، مجھے چکوال میں احمدیوں پر ہونے والے بلوے پر دکھ ہے، پتا ہے کیوں؟ کیونکہ میرے جیسے لوگوں پر جب علاقائی ، مسلکی یا کسی بھی دوسری نوعیت کی اقلیت ہونے کی بنیاد پر اکثریت حملہ کرتی ہے تو ایک عجیب قسم کی بے بسی کا سامنا ہوتا ہے، جب ارباب اختیار بھی اکثریت سے ہوتے ہیں اور ریاستی ذمہ دار بھی اکثریت سے، جناب میں نے وہ بے بسی دیکھی ہے، اس وقت جی کرتا ہے ایسے الفاظ لکھے جائیں کہ تحریر سے لہو ٹپکے، میں انسانی صلاحیتوں کی ناقدری اور حقوق کی پامالی کو آنکھوں سے دیکھتا ہوں تو مجھے اقلیت کے ساتھ جڑنے کا تازیانہ پڑتا ہے۔ لیکن ٹھہریے میں اقدار اور اخلاقیات سے واقف ہوں، میں امجد صابری، ایدھی اور جنید جمشید کی موت پر لاکھ اختلافات کے باوجود جشن نہیں مناتا!