پاک بھارت کرکٹ ٹاکرا : کچھ ریکارڈ، کچھ تاریخ

aik Rozan writer
حسین جاوید افروز ، صاحب مضمون

پاک بھارت کرکٹ ٹاکرا

حسین جاوید افروز

لیجیے جناب ایک بار پھر دنیائے کرکٹ انگلینڈ میں ہونے والی چیمپینز ٹرافی کے فائنل کے سحر میں جکڑی جا چکی ہے ۔اور اگر اس ٹورنامنٹ کے دوران ہونے والوں مقابلوں پر نگاہ ڈالی جائے تو بلاشبہ اٹھارہ جون کو اوول لندن میں ہونے والا پاک بھارت فائنل میچ شائقین کو کرکٹ کے بخار میں مکمل طور پر مبتلا کرچکا ہے ۔جہاں ایک جانب ویرات کوہلی کو سینئر کھلاڑیوں کی خدمات حاصل ہے تو وہیں دوسری جانب نئے مگر جوشیلے کپتان سرفراز بھی اپنی ینگ سائیڈ خصوصاً فخر، شاداب اور حسن علی کے ساتھ کچھ خاص ہی کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔

اگر دونوں ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو اس میں کچھ شک نہیں کہ بھارتی ٹیم تادم تحریر ایک متوازن جتھے کی صورت میں دکھائی دیتی ہے ۔بلیو سکواڈ میں جہاں روہت شرما، یوراج، دھونی اور کوہلی جیسے جہان دیدہ کھلاڑی موجود ہیں۔ وہاں پانڈیا، جڈیجا اور بمرا جیسے چستی سے بھرپور نئے کھلاڑی بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ اگرچہ انڈین ٹیم دفاعی چیمپئن ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چار جون کو پاکستان بھارت سے میچ جیت نہیں سکا۔ لیکن انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کو شکست دے کر اب سرفراز الیون ایک جوشیلے جتھے میں بدل چکی ہے۔

چنانچہ اب اوول میں پاک بھارت ہائی وولٹیج فائنل کو ایک یک طرفہ میچ سمجھنا غلطی ہوگی۔ اٹھارہ جون کو کیا ہوگا اس معاملے کو فی الحال سرفراز اور کوہلی پر ہی چھوڑتے ہیں ۔ آئیے آج کچھ بات ہوجائے پاکستان اور بھارت کے درمیان ون ڈے کرکٹ کے حوالے سے کچھ یادگار لمحات کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ معرکے ہمیشہ سے ہی دنیائے کرکٹ کے لئے ایک الگ ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ بقول عمران خان جب معاملہ پاک بھارت میچ کا ہو تو ہمیں ساری ساری رات نیند نہیں آتی تھی۔ اور میں اپنے کھلاڑیوں کو نیند کی گولیاں کھلانے پر مجبور ہوتا تھا تاکہ یہ میچ کیلئے تازہ دم ہو سکیں۔ میچ سے پہلے میچ کا پریشر ہی اتنا قاتل احساس لئے ہوتا تھا کہ کچھ نہ پوچھئے۔

یہاں سابق بھارتی کپتان سارو گنگولی بھی رقمطراز ہیں کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان سے میچ سے پہلے چوکنا ہو جایا کرتے تھے کہ کچھ الگ سے کر دکھانا ہوگا۔ ایسا نہیں تھا کہ پاکستان کے کھلاڑیوں کے ساتھ آف دا فیلڈ بھی کوئی محاذ آرائی کی فضا ہوتی تھی۔ لیکن جب بھی دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی تو مقابلے کی فضا بن ہی جایا کرتی تھی۔

شاہد آفریدی کے مطابق یہ بات درست ہے کہ کہ جب ہم ۹۹میں بھارت گئے تو ہمیں پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ کراؤڈ بالکل بھی سپورٹ نہیں کرے گا ۔لیکن یقین جانیے پاکستان کے بعد اگر مجھے کہیں جا کر کھیلنے کا مز ہ آیا تو وہ مقام ہندوستان ہی ہے۔

اس مضمون کو بھی دیکھیے: پی ایس ایل ٹو کا فائنل لاہور میں پاگل پن تھا کیا؟

میچ سے ہٹ کر ہمیں عوام سے بہت پیار ملا۔ اسے طرح لٹل ماسٹر سچن ٹنڈلکر بھی کہتے ہیں کہ جب ہم 2004 میں پاکستان کے دورے پر گئے تو ہر جگہ محبت کا سیلاب نظر آیا۔ مجھے پشاور میں مشہور پشاوری قالین خریدنے تھے ۔ لیکن مجھے خوش کن حیرانی ہوئی جب دکان کے مالک نے ہم سے پیسے لینے سے انکار کردیا ۔پاک بھارت ون ڈے مقابلوں پر بات کی جائے تو اب تک دونوں ٹیموں مابین129 میچز کھیلے جا چکے ہیں جن میں پاکستان 72 اور میں بھارت 52 میچوں میں فاتح کی حیثیت سے ابھرا ۔جبکہ مجموعی طور پر دونوں ممالک کے درمیان 16 ون ڈے سیریز 1978 سے 2013 کے دوران کھیلی گئیں جن میں 11 مرتبہ پاکستان ،اور 5بار بھارت فتح یاب رہا ۔جبکہ ایک سیریز ٹائی رہی۔

اس کے علاوہ بھارت نے کئی بار شارجہ کپ میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کھائی۔ البتہ عالمی کپ مقابلوں میں بھارت اب تک چھ بار پاکستان کو زیر کرچکا ہے ۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاک بھارت مقابلے محض ایک میچ کے کینوس تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ یہ دونوں قوموں کے درمیان اعصاب کی جنگ بن جاتی ہے ۔

میڈیا میں پاک بھارت سابق کھلاڑیوں کے درمیان مذاکرے کرائے جاتے ہیں۔ میچ کی ٹکٹیں میچ کی تاریخ اناؤنس ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھوں بک جایا کرتی ہیں۔کبھی کبھی اعصاب کی یہ جنگ میدان میں کھلاڑیوں کے درمیان بھی زور پکڑ لیتی ہے۔ جیسے 1978 میں بھارتی کپتان بیدی ساہیوال میں دوران میچ احتجاجاً اپنی ٹیم کو میدان سے باہر لے گئے اور میچ پاکستان کے حق میں کردیا گیا۔ یہاں 18 اپریل 1986 کے آسٹریلشیا کپ فائنل کو کون فراموش کر سکتا ہے جب آخری گیند پر چار رنز درکار تھے اور میانداد نے چیتن شرما کی یارکر جو کہ فل ٹاس میں بدل گئی کو چھکے میں بدل دیا۔ یہ کسی بھی ون ڈے ٹورنامنٹ میں پاکستان پہلی ٹائٹل فتح تھی۔

آج بھی یہ میچ نفسیاتی طور پر بھارتی ٹیم کے اعصاب شل کر دیتا ہے ۔ اسی طرح 1987 میں کلکتہ میں سلیم ملک کی برق رفتار 72 رنز کی اننگ نے بھی ایک جیتا ہوا میچ بھارت سے چھین لیا۔ جبکہ 1991 میں شارجہ کپ فائنل میں بھارت کے خلاف عاقب جاوید کی 37/7 وکٹوں کی تباہ کن پرفارمنس بھی شائقین کے دلوں کو گرما دیتی ہے ۔ اسی طرح 1992 کے عالمی کپ میں وکٹ کیپر کرن مورے کی بار بار اپیلوں سے جاوید میانداد زچ ہوگئے اور وکٹ پر اچھلتے ہوئے کرن مورے کی نقل اتاری۔

اسی طرح بنگلور میں کھیلے گئے عالمی کپ کوارٹر فائنل میں عامر سہیل کا پرشاد کو چوکے رسید کرنے کے بعد بلا دکھانا اور اگلی ہی گیند پر بولڈ ہو جانا بھی ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔جہاں شائقین کو عظیم سعید انور کے چنائے میں مئی 97 میں 194 رنز کی اننگ بھلائے نہیں بھولتی۔ وہیں سچن ٹندولکر کی 2003 میں عالمی کپ ناک آؤٹ مقابلے میں 98 رنز کی اننگ بھی ایک کلاسک کی حیثیت رکھتی ہے ۔جب سچن نے وسیم اکرم ،وقار اور شعیب اختر کی تباہ کن گیندوں کے باوجود بھارت کو اہم میچ میں کامیابی دلائی۔اسی طر ح نومبر 2004 بھارت میں کلکتہ پلاٹنیم جوبلی میچ میں بھارت نے 292 کا پہاڑ سا ہدف کھڑا کیا جس پر سابق بھارتی اوپنر سری کانت طنزیہ انداز میں بولے کہ میچ دو سو فیصد بھارت جیت چکا ہے لیکن جب نوجوان سلمان بٹ کے شاندار108 رنز کی بدولت پاکستان جیت گیا تو سری کانت کو کیمرے کی نگاہیں تلاش ہی کرتی رہ گئیں۔

اسی طرح 2005 میں کانپور میں کھیلے جانے والے میچ میں جس طرح آفریدی نے بھارتی باؤلروں کی درگت بنائی اس پر مشہور بھارتی کھلاڑی اور کمینٹیٹر روی شاستری نے بے ساختہ ان کو’’ بو م بوم آفریدی ‘‘کا خطاب دے ڈالا جو بعد میں آفریدی کی پہچان بن گیا۔جب کہ 2006 کے ایک میچ میں لاہور میں دھونی نے 72 رنز کر کے جس طرح بھارت کو فتح دلائی اس سے صدر مشرف بھی دھونی کی بیٹنگ اور ہیر اسٹائل کے گرویدہ ہوگئے۔

ایسے میں ایشیا کپ کا مارچ 2014 کا بنگلہ دیش میں کھیلے جانے والا میچ کون فراموش کر سکتا ہے جب آخری وکٹ پر موجود آفریدی کے ایشون کو رسید کئے گئے چھکے نے بھارتی کپتان ویرات کوہلی کے جیت کے خواب کو بکھیر کر رکھ دیا۔ بوم بوم آفریدی کے اس چھکے نے ایک بار پھر بھارت کو میانداد کے تاریخی چھکے کی یاد دلا دی۔

غرضیکہ پاکستان بھارت ون ڈے کرکٹ معرکے سنسنی خیز لمحات سے بھرے پڑے ہیں۔ تاہم گزشتہ دس سال سے بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنے ریکارڈ کو کافی بہتر کیا ہے۔ جس کی وجہ دھونی کی قیادت اور ویرات کوہلی کی جارحانہ اپروچ ہے۔

یہاں پاکستان ٹیم کو سمجھنا ہوگا کہ بھارتی ٹیم پریشر کو ہینڈل کرنے میں گرین شرٹس پر برتری رکھتی ہے۔ اور یہی سرفراز الیون کو بھی سیکھنا ہوگا کہ کرکٹ میں فارم کی نہیں کلاس کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ کیونکہ فارم عارضی ہوتی ہے جبکہ کلاس مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ اور اوول میں اٹھارہ جون کو پاکستان کو روایتی جارحانہ حکمت عملی سے کام لینا ہو گا تاکہ اوول میں بھارتی ٹیم کو کی کامیابیوں کے آگے بند باندھا جا سکے ۔