سرکاری خرچ پر حج و عمرہ : کیا یہ استطاعت کی بناء پر فرض نہیں؟

سرکاری خرچ پر حج و عمرہ

(ڈاکٹر عرفان شہزاد)

سرکاری ملازمین اور حکومتی عہدہ داروں کے لیے سرکاری خرچ پر حج و عمرہ کی مراعت کا قانون جس ذہن نے متعارف کروایا ہے، وہ دین اور دیانت دونوں  سے ناآشنا تھا۔

خدا نے حج کو انسان کی استطاعت کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ اس نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ حج صرف انہی لوگوں پر فرض ہے جو حج کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ جن کے پاس وسائل نہ ہوں وہ قرض یا عطیہ لے کر یہ عبادت ضرور ہی ادا کریں۔

کسی بھی عبادت کے جو بھی لوازمات ہوتے، ان سب کو ایک فرد باوجود استطاعت کے جب تک خود پورا نہ کرے، عبادت پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔ حج کی عبادت صرف جسمانی ہی نہیں ،مالی عبادت بھی ہے۔ یہ پوری ہی تب ہوتی ہے جب انسان اس میں اپنے وقت اور اپنی جسمانی مشقت کے ساتھ اپنا پیسہ بھی لگائے، خدا نے یہ بھی دیکھنا تھا کہ کون اپنا محبوب مال خرچ کر کے یہ عبادت بجا لاتا ہے۔ سرکاری خرچ پر حج و عمرہ کی سہولت نے خدا کی سکیم میں مداخلت کر کے اسے ناقص بنا دیا ہے۔

یہ معلوم ہے کہ سرکاری مال کس بے دردی سے استعمال کرنے کی ریت پائی جاتی ہے۔ بجلی ہی کو  لے لیجیے، سرکاری دفاتر میں اس کا کتنا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہی افراد اپنے گھروں میں ایک بلب بھی فالتو جلانا گوارا نہیں کرتے، کیوں کہ وہاں اپنا پیسہ جلتا ہے۔ یہ فرق پیدا ہوتا ہے اپنے اور دوسروں کے مال کے برتنے میں۔ سرکاری خرچ پر حج و عمرہ کرنے سے وہ کیفیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے جو اپنا کمایا ہوا مال خرچ کرنے سے ہوتی ہے؟

خدا کی مرضی یہ تھی کہ اس کا بندہ حج و عمرہ  اپنے وسائل سے ادا کرے، اس طرح اپنے حج کی قدر بھی اس میں پیدا ہوگی، پھر جو حج کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ اس عبادت کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت بھی ہو جائے تو خدا اور اس کے دین کی محبت تو اسے حاصل ہو ہی جائے گی، یوں اصل مقصود تو حاصل ہو ہی جائے گا۔ لیکن دین کے اس سارے فلسفے کو سمجھے بنا، سرکاری خرچ پر حج کی سہولت بلا ضرورت  فراہم  کر دی گئی۔ اب حال یہ ہے کہ جو سرکاری ملازمین اپنے طور پر حج کرنے کی  استطاعت رکھتے ہیں وہ بھی موقع ملنے پر سرکاری خرچ پر حج کرنے چلے جاتے ہیں۔  یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے اس کا فیصلہ ان کے ضمیر پر چھوڑ دیتے ہیں۔

اس مضمون کو بھی دیکھا جا سکتا ہے: عمرے پر گئی حکومت پاکستان: اللہ میاں ہے نا

کسی غریب سرکاری ملازم کو اگر یہ انتخاب دیا جائے کہ حج پر اٹھنے والے خرچ جتنی رقم لے لے، پھر چاہے حج کر لے یا اپنی کوئی ضرورت پوی کر لے، تو  وہ کیا کرے گا؟ کیا اس کی کوئی ایسی ضرورتیں اور مجبوریاں نہیں ہو سکتیں جن پر خرچ کرنا زیادہ ضروری ہو۔ چنانچہ یہ طے کرنا کہ حج پر جانا ہے یا نہیں فرد کا ذاتی معاملہ ہے، اسی سے بندے اور خدا میں  وہ تعلق پیدا ہوتا ہے جو خدا کو مطلوب ہے۔ ایک آدمی محض اس بنا پر حج و عمرہ پر چلا جائے کہ قرعہ میں اس کا نام نکل آیا ہے، لیکن یہی پیسہ اسے ملتا تو وہ  اپنی کسی ضرورت میں خرچ کر لیتا، تو ایسا حج و عمرہ غیر ترجیحی بنیادوں پر ہوگا۔ حج و عمرہ کی یہ سہولت ترجیحات خود طے کرنے کے اختیار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور ترجیحات کی ترتیب بھی الٹ دیتی ہے۔

دیانت داری کے لحاظ سے بھی سرکاری خرچ پر حج و عمرہ کی سہولت دینا درست نہیں۔ حکومتی خزانہ عوام کی کمائی پر ٹیکس کے ذریعے سے حاصل شدہ آمدنی کا نام ہے۔ یہ ٹیکس یہ بتا کر اکھٹا کیے جاتے ہیں کہ انہیں عوام کی بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ پھر عوام سے پوچھے بنا انہیں کسی بھی ایسی مد میں کیسے خرچ کیا جا سکتا ہے جس کا تعلق عوامی بہبود سے نہ ہو، جو نہ دین کا تقاضا ہو نہ دنیا کی کوئی ضرورت اس سے وابستہ ہو؟ صاف لفظوں میں کہا جائے تو یہ بددیانتی ہے جسے مذہب کے نام پر روا رکھا گیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے جس ملک کے پاس عوام کی بہبود میں خرچ کرنے کے لیے رقم پوری نہ پڑتی ہو، اس کے سرکاری ملازمین کو دین یا دنیا کی کوئی بھی غیر ضروری سہولتیں دینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟

سرکاری خرچ پر دنیوی عیاشیوں پر تو چونکہ بات ہوتی رہتی ہے اور اس کی بددیانتی بھی واضح ہے، لیکن دین کے نام پر ہونے والا یہ اربوں روپے کا خرچ بھی بالکل غلط طرز عمل ہے۔

جس نے حج و عمرہ کرنا ہے وہ اپنے پیسے سے کرے، تاکہ جسمانی صحت اور مالی خوشحالی دونوں کا شکر ادا  ہو سکے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو، وہ اس کی حسرت میں جیے اور یوں خدا کی محبت کا مستحق قرار پائے۔

درست یہ ہوگا کہ ہمارے پالیسی ساز، سرکاری خرچ پر حج و عمرہ کی سہولت فی الفور ختم کریں۔ تاکہ ہر مسلمان اپنے وسائل اور اپنے حالات کے مطابق خود فیصلہ کرے، یہی دین کا منشا ہے، خدا کی سکیم میں مداخلت اب ختم کیجیے۔