سیاست کو سیاست ہی سمجھنا چاہیے

قاسم یعقوب ، ایک روزن لکھاری
قاسم یعقوب ، صاحب مضمون

سیاست کو سیاست ہی سمجھنا چاہیے

(قاسم یعقوب)

سیاست کی فلسفیانہ تشکیل ایک ناممکن عمل ہے۔ سیاست میں بھی نظریے عمل کرتے ہیں مگر اُن کی عملی تشکیل انھیں اپنے نظریات سے دور کر دیتی ہے۔ سیاست دورِ موجود میں رہنے کا نام ہے ۔ سیاست صورتِ حال کی اسیر سماجیات میں تشریحِ حیات کرنے کا عمل ہے۔سیاست یونانی لفظPolisسے ماخوذ ہے جس کے معنی شہری زندگی ہے۔ شہری زندگی سے مُراد معاشرت ہے، جہاں سماجی اعمال پیدا ہوتے ہیں ،جہاں انسان ایک معاشرے کی ناگزیرضرورت کو محسوس کرتا ہے۔ سیاست کی سائنس زندگی، نظامِ حکومت اور ریاست کے درمیان ایک پُل کا کام کرتی ہے۔ نظریہ ہائے تکثیریت اور انفرادیت ریاست ، فرد اورحکومت کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو بیان کرتے ہیں۔اختیار اصل میں ذمہ داری ہے جو صورتِ حالات سے پیدا ہوتی ہے۔
سیاست عملی جہت کے بغیر نامکمل اور خام خیالی ہے۔یہ پولیٹیکل سائنس اپنی عملی جہت کے بغیر کوئی تھیوری تشکیل نہیں دے سکتی۔ سیاست ہر خطے اور سماج میں عملی اشکال میں بدل جاتی ہے اور نتائج کے اعتبار سے طرح طرح کے نظریوں میں ڈھلنے لگتی ہے، سیاست کی یکساں شکل کے عملی مظاہرہ کی خواہش ایک خام تجربہ ہی ہو سکتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں سیاست نے پورے معاشرے کی فکری کارگزاری کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس میں ایک مشکل یہ آ رہی ہے کہ طاقت نے سیاست کو ہر چیز کا مرکز بنا دیا ہے۔اور سیاست میں بھی کچھ خاص چیزوں کو اہمیت دے رکھی ہے۔ طاقت کے مراکز فیصلہ کرتے ہیں کہ اب ہمارا سب سے اہم ایشو کیا ہے اور اسے کس طرح سامنے آنا یا رہنا چاہیے۔ گذشتہ کچھ دہائیوں سے اس عمل میں شدت آئی ہے، خصوصاً جب اس کا مرکزمیڈیائی قوتوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔میڈیائی سماج مکمل طور پر سکرین کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ ہم کچھ سوچنے سمجھنے کی قوت سے مکمل بے بہرہ کر دیے جاتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم جس طرح کے ایشوز میں پھنس گئے ہیں اس کی نجات کا حل بھی میڈیائی طاقتوں کے پاس ہے، ہمارے پاس کچھ نہیں۔ نجات دہندگی کے لیے بھی ہمیں انھی طاقتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ سماجی حرکت کا سب سے خطرناک مرحلہ ہے۔ہمارے ہاتھ بہت ساری جھاگ تو آجاتی ہے مگر دھوپ کی تیزی کے ساتھ ہی ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ آئیے کچھ مثالیں دیکھئیے:
۰ ہمیں بتایا گیاتھا کہ سب سے بڑا مسئلہ مشرف حکومت کا چلے جانا ہے، آمر کی وجہ سے بارڈرز کھلے ہیں اور طالبان سرگرم ہو رہے ہیں۔ مشرف چلا گیا۔زرداری آ گئے، ہم ایک اور عہد میں داخل ہو گئے۔ جج بھی بحال ہوگئے۔ ایک اور مصیبت شروع ہو گئی۔ سو موٹو آرڈرز شروع ہو گئے۔پھر ہمارا سب سے بڑامسئلہ جج صاحب بن گئے۔
۰ ہمیں بتایا گیا کہ زرداری سب سے بڑا کرپٹ ہے، اسے ہٹنا چاہیے۔ ہم نے زور لگا دیا کہ اسے ہٹاؤ۔ سوئس بینک کا پیسا واپس لاؤ۔میمو گیٹ سیکنڈل آ گئے۔مگر اب سب کچھ ہم اس طرح بھول چکے ہیں جس طرح اتوار بازار رات کو خاموش ہو چکا ہوتا ہے۔
۰ پھر ہمیں بتایا گیا کہ دھاندلی اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دھاندلی ڈراما ختم ہوا، جیو نیوز سے دوستی ہو گئی۔ ہم سب کچھ بھول گئے۔
۰ پھر ہمیں بتایا گیا کہ پناما اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ نواز شریف کا نام نہیں تو کیا ہُوا۔ اس کے بیٹوں کا نام تو ہے۔ لوگ پوچھتے رہے کہ اگر یہ کرپشن ہے تو سینکڑوں افراد اور بھی ہیں جن کا نام آیا ہے مگر کہا گیا کہ طاقت جس طرح اور جن کے لیے اپنا انتخاب کرتی ہے ،ہمیں اس میں بولنے کی اجازت نہیں۔
اب آگے کچھ دیر کے بعد الیکشن کا دور دورہ شروع ہو جائے گا۔ پھر ہم کسی ایک پارٹی کی حمایت کرتے اور ایک کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے اور کسی ایک کی جیت کو سب کچھ سمجھ لیں گے اور شکست کو قوم کی تباہی۔ یہ سب سیاست کی کارستانیاں ہیں۔ہم سیاست کی طاقت کے اسیر ہو چکے ہوتے ہیں اور ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم آزادانہ رائے رکھتے ہیں۔مگرہمیں رائے دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ میڈیا کی اندھی قوت کسی کو بھی مرکز میں لا سکتی ہے اور کسی کو بھی حاشیے پر پھینک سکتی ہے۔

سیاست کو سیاست ہی سمجھنا چاہیے
اگلی بار یہی نواز شریف یا زرداری کسی کو نشان زد کر رہے ہوں گے اور ہم ’کرپٹ مافیا‘ کے خلاف ان کا ساتھ دے رہے ہوں گے۔ اگر یقین نہیں تو ذرا زرادری صاحب کی پناما کیس میں پریس کانفرنس سن لیجیے۔ وہی زرادری جن کو کٹہرے میں لانے کے لیے ہم سب اپنے تمام سماجی فلسفیوں کے ساتھ سرگرم تھے، آج وہی کسی اور کو کٹہرے میں لانے کے لیے ان قوتوں کے ساتھ ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اُن کی باری پہلے تھی اب اِن کی باری ہے۔
سیاست کسی طے شدہ فلسفے کے ساتھ نہیں چلتی۔ یہ کسی حق و باطل کی میزان میں خود کو تولنے سے کتراتی ہے۔ اس میں ناپائیداری ہے۔وقتی اور سطحی فیصلے ہیں۔ ہم ان کو کسی تھیورائزیشن سے نہیں گزار سکتے۔ ہم ایک گروہ کی حمایت تو کر سکتے ہیں اس کو کسی فلسفے کی میزان میں تول نہیں سکتے۔مگر کسی سماجی فلسفے کی بنیاد نہیں بنا سکتے۔ اشیا اپنی جگہ بہت جلد بدل لیتی ہیں۔ایک نکتہ یا نظریہ کسی دوسرے پر لگا کے دیکھیں، وہی اچھائیاں اور برائیاں دوسرے گروہ میں بھی نظر آنے لگیں گی۔
سماجی حرکیات سے نابلد افراد خود کو ایک گروہ کی مخالفت میں کسی دوسرے گروہ کی حمایت میں صرف کر رہے ہوتے ہیں اور خود کو متوازن رکھنے کے پابند بھی ہوتے ہیں۔ ایسا ناممکن ہے۔ ایک گروہ کی حمایت تو ہو سکتی ہے مگر وقتی سیاسی عمل کی بنیاد پر کسی مستقل فلسفے کا آغاز احمقانہ عمل ہے۔ ہمیں سیاست کو سیاست ہی سمجھنا چاہیے اورخود کو باور کروانا چاہیے کہ ہم سیاست کی قوت کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ آج جس جہت سے متاثر یا جس کے حمایت یافتہ ہیں ،کل اسی کی مخالفت بھی کر سکتے ہیں۔ تضادات کی کوکھ سے نکل کر حق الیقین کے درجے پر کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔