ماؤڑے بھنڈ کے کردار میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا قصہ

ایک روزن لکھاری
ذولفقار علی

ماؤڑے بھنڈ کے کردار میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا قصہ

ذوالفقار علی لُنڈ

یہ قصہ بہت پُرانا ہے۔ پاکستان سے بھی پُرانا مگر قصہ بہت دلچسپ ہے۔ قصہ بنانے والے کو پاکستان کی سیاست کی خبر تو نہ تھی مگر جامد معاشروں کے معاملات صدیوں تک تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ بار بار ایک چکر کی صورت گھومتے رہتے ہیں۔

ماؤڑا بھنڈ بغیر کسی محنت کے خوشحال ہونا چاہتا تھا۔ اُس نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قرض لینے شروع کیے اور قرض کے پیسوں سے خوب عیاشیاں کیں ۔ کُچھ عرصہ بعد جب قرض خواہوں نے اپنی رقم کا تقاضا کیا تو ماؤڑا بھنڈ پریشان ہو گیا کہ اب ان کے ساتھ کیسے نمٹا جائے۔

ماؤڑے بھنڈ کی عقل خوب چلتی تھی لہٰذا اُس نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ اُس نے غور کیا تو اُسے پتا چلا بادشاہ سمیت معاشرے کی اکثریت کُچھ ایسا حاصل کرنا چاہتی ہے جس کی شبیہ صدیوں کی انسانی خواہشوں کی نا مکمل داستانوں سے جُڑی ہوئی ہے۔ سو اُس نے بیٹوں سے کہا کہ میرے مرنے کی خبر کو عام کر دیا جائے اور رات کے اندھیرے میں مُجھے بھی دفنا دیا جائے۔

بیٹوں نے وصیت پر عمل کیا۔ ماؤڑا بھنڈ کُچھ عرصے کے لیے ایک ویران گُپھا میں چلا گیا اور بیٹوں سے کہا دُنیا کی نظروں میں دھول جھونک کر رات کو روٹی پانی دے جایا کرو پھر دیکھو میں کرتا کیا ہوں۔ بیٹوں نے ایک آدھ سال تک روٹی پانی کا بندوبست احسن طریقے سے نبھایا اور ماؤڑا بھنڈ تنہائی میں بیٹھ کر اپنا منصوبہ بناتا رہا۔

ایک اندھیری رات وہ ململ کے سُفید کپڑوں میں ملبوس اپنے گھر لوٹ آیا اور آواز لگائی خُدا کی جنت میں کون کون جانا چاہتا ہے۔ سب سے پہلے اُس کے بیٹوں نے کہا ہم جانا چاہتے ہیں۔ یہ آواز بستی کے اور لوگوں نے بھی سُنی مگر بروقت فیصلہ نہ کر سکے۔

صُبح لوگوں نے دیکھا کہ ماؤڑا بھنڈ کے بیٹے اپنا سب کُچھ لوگوں کو دے کر اچھے اخلاق کے ساتھ لوگوں سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ رہے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا خیر تو ہے اچانک کیا ہو گیا۔

بھنڈ کے بیٹوں نے کہا رات ہمارے گھر فرشتہ آیا تھا اُس نے کہا خُدا نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میں کُچھ لوگوں کو قبر کے عذاب کے بغیر جنت میں لے جاوں اور اُس نے شرط رکھی کہ جو کُچھ بھی ہے وہ عام لوگوں میں بانٹ دو اس لئے ہم اپنی تمام جائیداد غریبوں میں بانٹ رہے ہیں تاکہ معاشرے کی بھلائی ہو سکے۔

لوگوں نے پوچھا وہ پھر کب آئے گا بھنڈ کے بیٹوں نے کہا اُس نے آج رات ہمیں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے بس ہمارے پاس آج کا دن ہے۔

لوگوں نے کہا یار ہماری بھی سفارش کردو اُس فرشتے سے وہ ہمیں بھی جنت میں لے جائے۔ بھنڈ کے بیٹوں نے کہا یہ ہمارا اختیار نہیں ہے یہ فیصلہ وہی کرے گا کس کو لے جانا ہے کس کو نہیں لے جانا۔

بالکل ہماری اسٹیبلشمنٹ کی طرح جیسے وہ اپنی مرضی کے لوگوں کا احتساب کرنا چاہتی اور اپنی ہی مرضی کے لوگوں کو اقتدار دینا چاہتی ہے۔

بھنڈ کے گھر لوگوں کا تانتا بندھ گیا کہ فرشتے سے کہو ہمیں بھی جنت میں لے جائے۔ بھنڈ کے بیٹوں نے اپنے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کُچھ لوگوں کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اُن کی سفارش کریں گے۔ سب سے پہلے اُنہوں نے ایک مالدار بُڑھیا کو چُنا کہ جونہی رات کو فرشتہ آئے گا ہم آپ کی سفارش کر دیں گے۔

بھنڈ طے شُدہ وقت کے مطابق بستی میں آیا اور آواز لگائی کہ تیار ہو جاؤ میں آپ کو لینے آیا ہوں۔ بھنڈ کے بیٹے بُڑھیا کو ساتھ لے کر باہر حاضر ہوئے اور کہا عالی جاہ اس کا دُنیا سے دل بھر چُکا ہے قُدرت نے اسے مال و دولت سے نوازا ہے مگر اسے یہاں چین نہیں آتا آپ اسے بھی جنت میں لے چلیں۔

بھنڈ پہلے تو بہت غُصے ہوا اور کہا میں ایسا نہیں کر سکتا مُجھے یہ اختیار نہیں ہے مگر بوڑھیا اور بھنڈ کے بیٹوں کے اصرار پر اُس نے کہا ایک شرط پر میں اسے لے جا سکتا ہوں۔ بُڑھیا نے کہا عالی جاہ شرط بتاؤ۔

بھنڈ نے کہا کہ اپنی تمام جائیداد ماؤڑے بھنڈ کے بیٹوں کے نام کر دو وہ اس جائیداد کو حق داروں میں بانٹ دیں گے پھر کل میں آپ کو لے جاؤں گا۔ جاتے جاتے اُس نے کہا یہ بات کسی اور کو مت بتانا۔ یہ وعدہ لینے کے بعد وہ واپس گُپھا میں چلا گیا۔

بوڑھی چونکہ مالدار تھی تو اُس کے تعلقات امراء اور شرفا سے تھے۔ جب صبح اُس نے اپنی جائیداد ماوڑے بھنڈ کے بیٹوں کے نام کی تو بادشاہ کے وزیر کو پتا چل گیا اُس نے کہا بی اماں خیر تو ہے، کیا ہوا اچانک سب کُچھ بھنڈ کے بیٹوں کو دے دیا۔

اُس نے ساری کہانی وزیر کو بتا دی۔ وزیر نے بُڑھیا سے کہا میری بھی سفارش کردو۔ جس طرح بُڑھیا کو رام کیا گیا اسی طرح وزیر کو بھی بُڑھیا والی کہانی سُنائی گئی۔ وزیر صاحب نے بھی کہانی کے سکرپٹ پر عمل کیا اور اپنی تمام جائیداد بھنڈ کے بیٹوں کے نام کر دی۔

یہ بات بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اُس نے بھی اپنی تمام تر جائیداد کے بدلے جنت میں جانے کی سودی بازی کو ترجیح دی اور کہا میری بھی سفارش کر دو۔ اس بار ماؤڑا بھنڈ نے اپنی مجبوریوں اور جنت کی خوبصورتیوں کا بہترین پیرائے میں اظہار کیا اور منتیں ترلے کروانے کے بعد وہ بادشاہ کو بھی جنت میں لے جانےکے لیے راضی ہوگیا۔

جاتے جاتے کہنے لگا جب کل رات کو میں آؤں گا تو آپ سب لوگ ایک بیل کا بندوبست کر کے رکھنا اور اپنی تمام جائیداد ماؤڑے بھنڈ کے بیٹوں کے نام منتقل کر دینا۔ اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔

اگلی رات ماؤڑا بھنڈ دیے گئے وقت پر حاضر ہوا اور تینوں سے بات چیت کی اُن کو یقین دلانے کے بعد کہا کہ بادشاہ اور وزیر دونوں کو ننگا ہونا پڑے گا اور آپ تینوں کی آنکھوں پر پٹی بھی باندھنی پڑے گی تاکہ راستے میں خوفناک دوزخ کے نظاروں سے آپ کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ہاں ایک اور بات اگر آپ لوگ انسانی آواز سُنیں تو اُس پر ہرگز کان نہیں دھرنے چُپ کر کے اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔

انہوں نے دی گئی ہدایات پر عمل کیا اور تینوں بیل کی پیٹھ پر بیٹھ گئے۔ بیل نے کہاں جنت میں جانا تھا وہ رات بھر شہر کی گلیوں میں پھرتا رہا جب صبح ہوئی تو شہر کے لوگوں نے دیکھا کہ بیل کی پیٹھ پر بادشاہ، وزیر اور مالدار بُڑھیا بیٹھے ہوئے ہیں اور اُن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے جبکہ وزیر اور بادشاہ تو ننگے بھی ہیں تو اُنہوں نے زور زور سے قہقہے لگائے مگر اُنہوں نے ہدایات کے مُطابق لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرے۔

جب شہر کے ہجوم نے دیکھا کہ تینوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تو وہ سمجھ گئے کہ یہ جنات اور نا معلوم طاقتوں کے زیرِ اثر آچکے ہیں لہٰذا ان کو کُچھ سمجھانا یا شرم دلانا بالکل بے سود ہے۔ لوگوں نے اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا اور اُس مُلک میں آج بھی ماؤڑے بھنڈ کی اولاد حکومت کرتی ہے۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔