سائیں میں ہوں فقیرُو فقیرا میگواڑ : نقش گر

نقش گر
سائیں میں ہوں فقیرُو فقیرا میگواڑ : نقش گر

ملک سانول رضا 

ممنوع ہو گی آپ کے دھرم میں

لیکن

میرے تو دل کے کنول کِھلتے ہیں اس سے

میرے تو۔۔۔۔۔ بچے پلتے ہیں اس سے

اس نے جواب دیا

ہم سوچنے لگے کہ مائیں نہیں، انائیں بانجھ ہوتی ہیں۔

سنہ 79 میں ایک سندھ جایا مصلوب ہوا تو سندھو ماں نے اسی سال ایک اور بیٹا جنم دیا

ایک فنکار بیٹا

ایک شاہکار بیٹا

ایک سنگ تراش بیٹا

ایک بت تراش بیٹا

اس سپوت سے ملنے ٹنڈو الہ یار پہنچے۔

 ٹنڈو الہ یار حیدرآباد کی مشرقی جانب، تھر کی اور، میر پور خاص روڈ کے چالیسویں سنگ میل پر۔

ایک ساہو کار سے پوچھا

اس نام کا سیٹھ ہمارے شہر میں نہیں ہے

ایک دکان دار سے پتہ کیا

جواب نفی میں

سائیکل پہ جاتے اخبار والے سے پوچھا،

کہا اخباروں کی دکان سے معلوم کریں۔

اخباروں کی دکان!

نقش گر

خبریں دکانوں پہ بکتی ہیں کیا؟

اور کیا خبریں بیچنے کے لئے تو ہوتی ہیں اور جہاں سودا ملتا ہے اسے ہم تو دکان کہتے ہیں۔

یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا

اخبار پڑھتے بوڑھے سے پوچھا

 عینک اتاری

 اخبار رکھا

پنجاب سے آئے ہو؟

نہیں بابا، سرائیکی صوبے سے

 سرائیکی صوبہ؟

وہ کب بنا؟

بابا خواب دیکھنے میں کوئی حرج تو نہیں۔

آپ کے ایک شاعر نے بھی ایک جنت دیش  کا خواب دیکھا تھا۔

کیا ہوا پھر؟

بوڑھے کی بات پر شرمندہ ہوئے۔

مگر ہماری شرمندگی ہماری خوشیوں کی طرح بہت عارضی ہوتی ہے

 دوسرے بزرگ نے کہا

 کیوں پردیسیوں کو تنگ کرتا ہے

 ہماری طرف دیکھا

 آپ جس کا پوچھ رہے ہیں وہ میگواڑ ہے؟

جی

 پہلا بولا ارے اپنے کھیم چند کا بیٹا جس کی بیوہ کا پچھلے مہینے دیہانت ہوا ہے

بیٹے معاف کرنا بُڑھاپا دوست ہی نہیں یاد داشت بھی چھین لیتا ہے

 ان بزرگوں نے ایک جوان کے ذریعے ہمیں مطلوبہ مکان پہنچوایا

 وہ ہمیں سبز دروازے پر ملا، اس زمیں زاد نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کیا۔

وہ کوئی حملہ آوروں کی اولاد تو نہیں تھا کہ بلند آہنگ میں زبر پیش جوڑ کر سلام کرتا

نقش گر

سائیں میں ہوں فقیرو فقیرا میگواڑ

 دروازہ کھولا سامنے مورتیاں اور ایک طالب اپنے کام میں مصروف

چند سیڑھیاں اوپر ایک چھوٹے کمرے میں بٹھایا

 یہ میرا سٹوڈیو بھی ہے اور اوطاق بھی

دسویں جماعت پڑھنے والے جوان نے پانی سامنے رکھا

 آپ کا بیٹا ہے؟

یہ میرا سالا ہے۔

بیٹے کیا نام ہے؟

اجے

 اجے!

تو عام طور پر میگواڑوں کا نام نہیں ہوتا

 ہمارے بت تراش نے کہا

جدت کے نام پر قدامت اُکھڑ رہی ہے، بکھر رہی ہے

 گھر میں تو گجراتی بولتے ہوں گے؟

گہری سانس لی

 یہ بھی ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے

 مجھے یہ فن بزرگوں سے ملا ہے ہمارے بڑے مندروں کے لیے مورتیاں بناتے تھے۔ میں نے بھی شروع میں یہی روش اپنائی۔ محبوب تو بھگوان ہوتا ہے، اور بھاگوان ہی محبوب اور محبوب کو سامنے بٹھا کر باتیں کرنے سے حقِ محبوبیت اور ربوبیت ادا ہوتا ہے۔ سنا ہے کہ مسلمانوں کے خدا نے بھی اپنے محبوب کو سامنے بٹھا کر باتیں کی تھیں۔

 میرے ہاتھوں سے بنے یہ بت نہیں، یہ تو میرے محبوب ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔

روایت شکن کیسے بنے؟

اپنے پُرکھوں کی راہ پر چلتے چلتے اچانک ایک کتاب ملی اور میری دنیا بدل گئی۔

صاحب!

کتابوں نے ہی تو دنیا بدلی ہے اس کتاب کے ذریعے مجھے میرا روحانی استاد ملا۔

 مائیکل اینجلو

 اور میرے کام میں تنوع اور نکھار آ گیا۔

پاکستان میں کن اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی؟

حمرہ عباس

 فتح ہالے پوٹو

نظام دین ڈاہری

محمد علی ٹالپر

 ان اساتذہ سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔

یہ سامنے تو سب زندگی کی علامت ہیں

یہ جوڑا وفا کی صورت میں

 یہ بوڑھا آس کی مورت میں

 لیکن ہمیں کسی “بت “کی مورتی نظر نہیں آ رہی

 کوئی بت کسی وڈیرے کا

کوئی سر، کسی حاکم کا۔

ناز سے بولا

 میرے استاد محترم فتح ہالے پوٹو نے کہا تھا درباری نہیں بننا سرداروں، وڈیروں، شاہوں کی مورتیاں بنا کر تحفوں میں نہیں دینا۔ وہ آئیں تیرے در پر تیرے سامنے بیٹھیں پھر اپنے فن کا جادو جگانا۔

نقش گر

 اس نے کہا تھا قدر دان تیرے پاس چل کر آئے گا۔

ویسے سائیں، لائیو کام کا لطف ہی کچھ اور ہے

 یہ سامنے رکھا بسٹ دو مہینے لائیو کام کا نتیجہ ہے

لائیو کام سے شاہکار تخلیق ہوتے ہیں۔

والدین سے تو میں نے مذہبی تھیم لیا کیونکہ ان کا سارا کام مندروں اور گرجوں سے جڑا ہوا تھا اور اس سے ہمارا روزگار جڑا ہوا تھا

 ہم سوچنے لگے مذہب پیٹ پالتا بھی ہے، اور پھاڑتا بھی ہے۔

 لیکن میں جدت اور تنوع لایا۔ میرا کام انڈین ہے، نا یورپی یہ ان دونوں کا امتزاج ہے۔

اس کو کیا نام دیا ہے؟

میرے کام کو وقت نام دے گا، وقت کا دیا نام مٹتا نہیں۔

بت گری پتھر، دھات، لکڑی، پلاسٹک سے بھی ہوتی ہے۔ لیکن میرا کام بنیادی طور پر مٹی کا ہے مٹی سے مورت بنائی پلاسٹر آف پیرس کا سانچہ ڈھالا اور اس کو دائمیت دینے کے لیے فائبر گلاس کے کیمیکل سے کوٹنگ کر دی۔ فائبر گلاس موسمی اثرات سے تحفظ دیتا ہے۔

آپ کے کام کی کہاں کہاں نمائش ہو چکی ہے؟

2006  لاہور این سی اے

2007 لاہور میں راشد رانا اور حمرہ عباس کے ساتھ ایک پروجیکٹ کیا

2007 استنبول میں 3 مہینے کے ایک انٹرنیشنل پروجیکٹ پر کام کیا 110 آرٹسٹ شریک تھے۔

2008 کینوس گیلری میں

2010 سندھ میوزیم میں ایک شو کیا

2010 وی ایم گیلری کراچی

2014 کوئل گیلری

2016 کراچی بیچ لگژری ہوٹل میں

2016 نیپال

2017 حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول

ایک فرسودہ سا سوال پوچھ بیٹھے

کوئی حکومتی اہلکار ملنے آتے ہیں؟

ہاں ایک دفعہ سردار علی شاہ جو ثقافت کے وزیر ہیں وہ آئے تھے، بھلا ثقافت وزیروں کے دم چلتی ہے کیا؟

ایک برطانوی شہری نے کہا، میں آپ کے پاس آ کر سیکھنا چاہتا ہوں۔

 میں نے کہا میرے دیس میں سکھ کے دن آ جائیں، پھر آنا۔

آخر میں ہم نے کہا

 اے نقش گر دُھن کے پکے لگتے ہو!

سائیں!

پتھروں کو کلمہ پڑھانا،

مٹی کو زبان دینا کوئی آسان تو نہیں

ان ڈھالنا کوئی عام تو نہیں۔ فولاد چاہیے زندگی جینے میں اور زندگی کو فن میں بدلنے میں۔ میری گلیوں میں بارش کے پانی سے گزر کے آئے ہیں آپ، میں انہی کچی گلیوں کی مٹی کو زندگی دیتا ہوں۔

 بھاگوان بناتا ہوں

 کرب تراشتا ہوں

درد ڈھالتا ہوں۔

 ہم اس نقش گر کی باتوں سے بت بنے رہے، لیکن اس کے ہاتھوں کے شاہکار میں نہ ڈھل سکے۔