مصور

Iftikhar Baloch

مصور

افسانہ از، افتخار بلوچ

ناصر ایک عام آدمی تھا۔ سڑکوں کے کنارے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے گاڑیاں گننے والے لوگ۔ ہر گزرتی گاڑی دیکھ کر اپنی خواہش کا معیار بدل لینے والے لوگوں کی طرح۔

مگر قدرت نے ناصر کے اندر سائنس اور ادب کا ایسا آہنگ رکھ دیا تھا کہ اُس کی بنی ہوئی تصویر کسی تھیورم کی سچائی لگتی، اور اُس کا کیا ہوا کام سائنسی کام کوئی تصویر محسوس ہوتا۔ مگر اُس کے فن کو پسند کرنے والے بہت کم لوگ تھے۔

بائیس کروڑ آبادی کے ملک میں صرف آٹھ دوست جو اُس کی صلاحیت کا اندازہ رکھتے تھے، مگر اُس کی تصویر کے معنی و مفہوم تک وہ بھی نہ پہنچ پاتے۔

وہ کون ہے؟ اُس کا راستہ کون سا ہے اس ادھیڑ بُن میں ناصر نے زندگی کے دس سال صرف کر ڈالے تھے، مگر کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا۔ ہر کام کو شروع بڑی خُوش دلی سے کیا کرتا مگر بے ترتیبی اُس کے ارادوں کو اور اُس کے فن کو گھیر لیا کرتی تھی۔

ناصر کی عامیت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مجسم بے ترتیبی لگنے لگتا تھا۔ اُسے کبھی بھی یقین نہیں آیا تھا کہ اُس نے جتنے کام کیے ہیں، کیسے کیے ہیں۔ ایک پَل کے لیے وہ سوچتا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے ورنہ وہ تو کسی قابل نہیں مگر اگلے ہی لمحے وہ سوچنے لگتا کہ اُس کے اندر بھی کوئی صنفِ لطیفہ موجود ہے آخر انسان کا اختیار بھی تو کوئی چیز ہے!

اُس کے کمرے میں جا بَہ جا بجھے ہوئے سگریٹ، بکھری ہوئی کتابیں اور دھلے اور ان دھلے کپڑے بے ترتیبی میں پڑے رہتے۔ کمرے کے ایک کونے میں لکڑی کا سٹینڈ تھا جس پر تختہ کیلوں سے نصب کیا گیا تھا۔

تختے پر ایک بڑا کاغذ لگا کر وہ کئی بار خیال کو رنگ دینے کا سوچتا اور بغیر کچھ کیے سو جاتا۔ ایک میز پر پڑے ہوئے رنگوں کے ڈبے جن کے ڈھکن فرش پر پڑے رہتے۔ میز کی سطح پر رنگوں کے دھبے نہ سمجھ میں آنے والی تصویر بناتے ہوئے نظر آتے۔ ایک دفعہ اُس نے ان دھبوں کو بَہ غور دیکھا تھا تو اُس کے چہرے پر مسکان ابھر آئی تھی۔

اگلے ہی لمحے اس نے سوچا تھا کہ رنگ کسی بھی ترتیب میں ہوں کوئی تصویر ضرور بناتے ہیں۔ یہ بے ترتیبی رنگوں کے لیے درست نہیں مگر اُسے افسوس بھی ہوا تھا کہ اُس نے تصویریں بناتے بناتے کتنے رنگ ضائع کر دیے۔

ناصر کے کمرے کی دیوار پر تین تصویریں چسپاں تھیں۔ ایک تصویر میں ایک بزرگ مرد کو بزرگ عورت کی ایڑی میں چبھا ہوا کانٹا نکالتے دکھایا گیا تھا اور دوسری تصویر میں ایک عورت کو اپنے کان سے بالی اتارتے دکھایا گیا تھا اور تیسری تصویر میں کچھ عورتوں کے دھڑ ساحل پر کھڑے تھے اور سر ریت پر پڑے تھے۔ سمندر کا رنگ سرخ تھا اور ڈوبتے ہوئے سورج کا رنگ نیلا۔ لہریں ریت پر پڑی کھوپڑیوں کو گہرائیوں میں لے جانی کی کوشش کرتے نظر آتی تھیں۔ تیسری تصویر بنانے کے بعد ناصر نے اپنی صلاحیت کو بہت داد دی تھی۔

تصویر مکمل کرنے کے چند روز بعد اُس کی ملاقات صارم سے ہوئی تھی۔ دونوں  انجینئرنگ سے متعلقہ ایک کمپنی میں نوکری کے لیے انٹرویو دینے آئے تھے۔ صارم ناصر کا یونی ورسٹی کے دنوں کا دوست تھا جسے مصوری سے شغف تھا۔ انٹرویو لینے والے نے ناصر سے کسی معزز شخص کا حوالہ دینے کو کہا تھا جس پر ناصر خاموش رہا تھا۔ یونی ورسٹی ختم ہوئے چھ ماہ بیت چکے تھے، مگر وسیلۂِ روزگار کا سکھ اس کے قریب سے نہیں گزرا تھا۔ وہ اب تک بیسیوں انٹرویو دے چکا تھا۔ اُس نے صارم کو جب تصویر کے متعلق بتایا تو صارم نے تصویر دیکھنے کی خواہش کی جس پر ناصر نے اسے اگلے دن کی شام مدعو کر لیا۔

اگلے دن شام کے وقت صارم ناصر کے کمرے میں موجود تھا سگریٹوں کی بو اُس کی طبعیت کو بوجھل کر رہی تھی۔ صارم نے ناصر کے اتنی تعداد میں سگریٹ پینے پر نا گواری کا اظہار کیا۔ صارم کی نظر جونہی تختے پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ کسی کی تصویر کا مبہم سا خاکہ بنا ہوا ہے۔ صارم کے پوچھنے پر اُسے ناصر نے بتایا کہ وہ اپنی تصویر بنا رہا ہے مگر جس تصویر کے لیے اس نے صارم کو بلایا ہے وہ یہ ہے۔

ناصر نے ہاتھ کے اشارے سے دیوار پر چسپاں تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ صارم اٹھ کر تصویر کے پاس چلا گیا اور اُسے بَہ غور دیکھنے لگا۔ چند لمحوں کے وقفے کے بعد صارم نے ناصر سے بس اتنا ہی کہا:

“ناصر بھائی آپ کی بنائی ہوئی تصویر کا مطلب اور وجہ تو میری سمجھ سے باہر ہے، البتہ تصویر خوب صورت انداز سے بنائی گئی ہے۔”

اُسی لمحے ناصر پر نا رسائی کی ہوا گرم ہو گئی۔ تنہائی نے اُس کے رگ و پے سے جذبات نچوڑ لیے تھے اور خالی جگہ کو بے حسی نے پُر کر لیا تھا جو اب رگیں چیرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ اپنی بے ترتیبی کو تنظیم میں بدلنے کی خواہش ہمیشہ اس کی اپنی ہی ذات ہی دفن ہو جاتی تھی۔ ناصر سوچتا تھا کہ آخر کیوں اُسے کوئی سمجھنے سے قاصر تھا بس تصویروں کی داد دینے کو آٹھ لوگ تھے؛ نواں صارم تھا وہ بھی بس داد ہی دے سکا تھا تصویر سمجھ نہیں سکا تھا۔

صارم اُس کے برابر آ کر بیٹھ گیا اور تصویر کا مطلب پوچھنے لگا، مگر ناصر کا دماغ ایک سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف تھا، “خدا مجھے دکھا کر چھپانا چاہتا ہے یا چھپا کر دکھانا چاہتا ہے یا میں خود اپنے آپ کو اتنا فاش کر رہا ہوں کہ کسی کو احساس نہیں ہو رہا۔”

صارم کے دوسری بار پوچھنے پر ناصر نے کہا، “یہ تصویر اُن عورتوں کی عکاسی کرتی ہے جنہیں دریاؤں کا پانی بند ہو جانے پر بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔”

“ہیں! وہ کیسے ناصر بھائی!” صارم نے حیران ہوتے ہوئے استفسار کیا۔

“دریا بند ہو جاتے تھے تو لوگ عورتوں کی قربانی دیتے تھے۔ اِسی لیے ان عورتوں کے سر ساحل پر پڑے ہیں،” ناصر نے بے زار سے لہجے میں جواب دیا۔

“مگر سورج کیوں نیلا ہے؟” صارم نے پھر سوال کیا۔

“وہ اس لیے کہ آج تو یہ ہمارے سروں پر گردش روک دیتا ہے مگر اُن پر چمکا ہی نہیں۔ کم از کم وہ اتنا تو ڈرتے کہ کہیں ایسا گناہ کرتے ہوئے یہ سورج ہی ہماری بستیوں پر نہ آ گرے۔ ہم کوشش کرتے ہیں ہماری خواہش نہ ٹوٹے اور اس کی تپش ہمیں گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیتی اور وہ پورے وجود کو مٹا دیتے یہ کچھ نہ کرتا،” ناصر نے سورج پر برستے ہوئے کہا۔

صارم خاموش ہو گیا تھا مگر اُسے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے اس شخص کا دماغ کسی طرف کو ڈھلک گیا ہو۔

ناصر کے دل پر زندگی نے سخت کیفیات کی بارات بٹھا دی تھی۔ زندگی کی بے ترتیبی کو سدھارنے لگتا تو اُسے یوں لگتا کہ جیسے وہ زنجیروں میں جکڑ لیا گیا ہو یہاں تک کہ سوچ بھی نہ سکتا ہو۔ تنہائی اُس کی نظروں اور لہجے پر قابض ہو چکی تھی۔ کبھی کبھی اُس کا دل کرتا کہ تصویر میں جو عورت اپنے کان سے بالی اتار رہی ہے ناصر خود یہ بالی اتارے اور چبا جائے۔ اُس کی صلاحیتوں کا ادراک کبھی نہیں ہوا تھا۔ یوں نا رسائی اُس کے دل و دماغ پر رقص کرتی رہتی اور وہ بلا وجہ اداس رہتا۔ وہ اِس بات پر شکر کیا کرتا تھا کہ اُسے یہ بلائے جان محبت کبھی نہیں ہوئی تھی مگر اگلے ہی پَل یہ شکر سخت محرومی میں بدلنے لگتا۔

صارم کو گئے ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا۔ ناصر کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ باہر رات کتنا اندھیرا دان کر چکی ہے آخر اُس نے سوچا کہ کرنے کو جب کچھ نہیں ہے تو کیوں نہ تصویر مکمل کر لی جائے۔

اُس نے ایک دفعہ شیشے میں خود کو دیکھا اور تختے کے سامنے کھڑا ہو کر تصویر بنانے لگا۔ اُس نے اپنے چہرے کا بیرونی خط بنا دیا۔ اُس کے تصورات میں اپنی پیشانی کا نقشہ ابھرنے لگا۔ ناصر کا خیال پیشانی کی دائیں جانب ایک زخم کے نشان پر چلا گیا۔ ہُو بَہ ہُو کرنے کی کوشش میں اُس نے نا مکمل چہرے کے ماتھے پر وہ داغ بنا دیا۔  اُس داغ کو نمایاں کرنے کی کوشش اُس نے جاری رکھی۔ یہ کام اُسے طبیعت پر بھاری محسوس ہونے لگا۔

مگر اُس نے آخر داغ کو اتنا نمایاں کر دیا کہ دیکھنے والے کو اتنا اندازہ ہو جاتا کہ یہ داغ ہے مصور کے فن میں کوتاہی نہیں۔

اب اُس کے لیے تصویر بنانا مشکل ہو رہا تھا۔ اُس کی سوچیں صارم کی نا سمجھی پر مرکوز تھیں، مگر اُس کی انگلیاں تصویر کے بال بنانے میں مصروف تھیں۔

ناصر نے ہاتھ روک کر سوچا کہ تصویر کس طرح خوب صورت بنائی جا سکتی ہے: بال دائیں جانب سے بناؤں، یا بائیں جانب سے۔

وہ ایک بار پھر شیشے کے سامنے چلا گیا۔ اُس نے دائیں جانب سے بال بنائے۔ لمحہ بھر کو اپنے حسن کا احساس ہوا۔ پھر اُس نے بائیں جانب سے بال بنائے۔ ایک مرتبہ پھر خوب صورتی بول اٹھی۔ اُس کے لیے فیصلہ مشکل ہو گیا۔ ابھی ناصر اسی تذبذب میں تھا کہ نا جانے طبیعت کا کون سا عُنصر بول اٹھا: “بال بکھرے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔”

ناصر نے اپنی انگلیاں اپنے ہی بالوں میں ڈال کر تیزی سے گھما دیں اور خود ہی بول اٹھا یہ اصل تصویر ہے؛ حقیقی معنوں میں میرا چہرہ جو مکمل طور پر میری زندگی کا عکاس ہے۔ اُس پر اداسی نے حملہ کر دیا تھا۔ وہ بوجھل نظروں سے تصویر کو دیکھتا اُس کی طرف بڑھا اور اُس نے بکھرے ہوئے سیاہ بال بنا دیے۔ اُسے تصویر سے بے زاری ہونے لگی۔ وہ کرسی پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا۔

رات گزرتی رہی ناصر کتاب پڑھتا رہا۔ کچھ وقت کے بعد اُسے کتاب سے بے زاری محسوس ہونے لگی۔ مصنف نے کوئی ایسی بات نہیں لکھی تھی جو ناصر کے مزاج سے میل کھاتی ہو۔

اگلی صبح ناصر کی آنکھ تو کھل گئی مگر وہ اور سونا چاہتا تھا۔ اُس نے تصویر کی طرف ایک نظر دیکھا؛ نا مکمل تصویر جس میں پریشانی کا عُنصر ابھرتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ اُس نے سوچا کیوں نہ کمپنی کو کال کر کے پتا کیا جائے کہ نوکری کے حوالے سے اُن لوگوں نے کیا سوچا؟ وہ فون پر نمبر ملانے لگا مگر کمپنی کے متعلقہ آدمی نے اُسے مایوس کر دیا۔ انہوں نے کسی اور کو چُن لیا تھا۔

ناصر زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے دو بارہ سو گیا۔ کافی دیر بعد جب اُس کی آنکھ کھلی تو باہر عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ ناصر نہا دھو کر آوارہ گردی کرنے چلا گیا۔ رات دیر تک وہ سڑکوں پر پھرتا رہا، لوگوں کو دیکھتا رہا، شہر کی رونق میں دل لگانے کی کوشش کرتا رہا۔

رات جب گہری ہو گئی تو وہ کمرے میں واپس آیا۔ اُس کی افسردگی میں اضافہ ہو چکا تھا اور فرار کا تسکین کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ آخرِ کار اُس نے تصویر کی آنکھیں بنانا شروع کی دیں۔ اُس نے شیشے میں اپنی آنکھیں دیکھیں، پلکوں کا اندازہ لگایا ابرُو دیکھے۔ آنکھوں کی چمک کا اندازہ لگانے کی کوشش کی، مگر تصویر کی آنکھوں میں افسردگی بھرنے کی کوشش کرنے لگا۔ بہت دیر تک انگلیاں چلانے کے بعد اُسے محسوس ہوا کہ اب تصویر کی آنکھیں اس قابل ہیں کہ ویرانی کی عکاسی کر سکیں۔

اُس نے سوچا کیوں نہ آنکھ سے ڈھلکتا ہوا آنسو بھی بنایا جائے مگر خود ہی اُس نے یہ کام کرنا پسند نہ کیا۔ وہ معنویت کا بڑا قائل تھا۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ یہ تصویر دیکھنے والا نظر نہ آنے والے آنسو بھی دیکھے۔ تصویر مکمل کرنے کے ارادے کو التوا میں ڈال کر اُس نے ایک اور کتاب کا مَطالعَہ شروع کر دیا۔

اگلے دن کی دو پہر ہو رہی تھی۔ مگر ناصر ایسے سویا ہوا تھا جیسے کئی صدیوں تک جاگنے کے بعد اب اُسے ذرا فرصت ملی ہو۔ اُس کا فون بج اٹھا۔ اُس نے ایک آنکھ کھول کر فون کی سکرین دیکھی تو اُس کے چھوٹے بھائی باقر کی کال تھی۔

“ہاں باقر کیا ہوا؟” ناصر نے کال ریسیو کر کے کہا۔ اُس کی آواز سے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کال سننا ہی نہ چاہتا ہو۔

“بھائی! باجی کی منگنی ٹوٹ گئی ہے، جس کی وجہ سے امی کو ڈیپریشن کا اٹیک ہوا ہے۔ آپ جلدی گھر آئیں۔” باقر کی آواز بکھرنے کے قریب تھی۔

ناصر کی نیند کافور ہو گئی۔ فکر کا ایک دریا اُس کے دماغ میں بہنے لگا جس کی رفتار میں ناصر کی اپنی ذات بہہ گئی۔

آدھی رات بیت چکی تھی جب وہ گھر پہنچا۔ دیکھا تو سارے لوگ جاگ رہے ہیں اور امی کے پاس بیٹھے ہیں، مگر سائرہ نظر نہیں آ رہی۔ سائرہ ناصر کی چھوٹی بہن تھی جو یونی ورسٹی سے گریجُوئیشن کر رہی تھی۔ ناصر نے ماں کے سامنے جانے سے پہلے سائرہ سے ملنا مناسب سمجھا اور سائرہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔

ناصر نے سائرہ کے کمرے میں جا کر دیکھا تو وہ رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ سائرہ کی نظر ناصر پر پڑی تو وہ دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی اُس نے آنسو بھی پونچھے مگر آنسو جاری رہے۔

ناصر نے سائرہ کو تسلی دی اُسے مسکرانے کو کہا اور ماں کے پاس چلا گیا۔ وہ سفر سے آیا تھا مگر تھکن کی جگہ فکر اُس کے چہرے پر نمایاں تھی۔ ماں نے جیسے ہی ناصر کو دیکھا وہ خوش ہونے لگی۔ بار بار اُس نے ایک ہی بات کہی، “یہ سارے بھی چلے جائیں اب تو پردیس نہیں جائے گا۔ تیرے بغیر میرا دل بہت گھبراتا ہے۔”

ماں کو سمجھاتے سمجھاتے رات بوڑھی ہو گئی۔ جب رات کے ماتھے پر چاندی ابھرنے لگی تو ناصر ذرا سستانے کے لیے بستر پر دراز ہو گیا، مگر نیند اُس سے کوسوں دور تھی۔ وہ اپنے خاندان اور اپنے مستقبل کے امکانات سوچتا رہا۔

صبح ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ناصر نے باقر کو الگ لے جا کر پوچھا، “انہوں نے منگنی توڑنے کی کوئی خاص وجہ بتائی ہے؟” اُس کی آواز میں تفکر نمایاں ہو گیا تھا۔

“نہیں بس اتنا ہی کہا کہ لڑکا اب نہیں چاہتا۔ مجھے تو لگتا ہے اُسے کوئی اور لڑکی پسند آ گئی ہے،” باقر نے غصے کا ابتدائیہ بُنتے ہوئے کہا۔

ناصر کے دل میں الفاظ کا طوفان پیدا ہو گیا مگر وہ چھوٹے بھائی کے آگے کچھ بولنے سے قاصر تھا۔ اُسے بار بار ایک خیال آتا تھا کہ آخر خوشی کے لیے یہ گھر ممنوعہ علاقہ کیوں بن گیا ہے۔ اُسے قسمت سے گِلے ضرور تھے، مگر طبیعت کی انصاف پسندی اپنی خرابیوں کا ادراک بھی کروا دیا کرتی تھی۔ منگنی ٹوٹنے سے اُس کے خاندان کی عزت پر داغ آ چکا تھا اور یہ داغ اُس وقت تک رہنا تھا جب تک سائرہ کے بال سفید نہ ہو جائیں!

اُسے گھر آئے ہوئے دو دن گزر گئے تھے وہ سارا دن اپنی ماں کو اور سائرہ کو سمجھاتا رہتا۔ یہ کوشش اُس کی اپنی طبیعت پر بوجھل پن پیدا کر دیا کرتی تھی۔ باپ کی اداسی اور فکر اس کا دل اور جلاتی مگر وہ کر بھی کیا سکتا تھا؛ وہ بے بس تھا جزوی اختیار کا کوئی قلم دان اُسے عطا نہیں ہوا تھا۔

اگلے دن دو پہر سے کچھ پہلے کا وقت تھا جب اُس کا فون بجنے لگا۔ ناصر نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف موجود شخص نے اسے بتایا کہ وہ ایک کمپنی سے بات کر رہا ہے اور کل بارہ بجے آپ کا انٹرویو ہے۔ ناصر ایک حقیقت پسند آدمی تھا۔ اُس نے سوچا ہو سکتا ہے یہ لوگ مجھے نوکری دے دیں، یوں میری والدہ کی پریشانی تھوڑی کم ہو جائے۔

اُس نے باقر کو  مشورے کے لیے بلایا تو باقر نے اس کے جانے کی شدید مخالفت کی اور گھر کی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر دلائل دیتا رہا، مگر ناصر کو امید نے جکڑ لیا تھا وہ تھوڑی دیر بعد گھر سے روانہ ہو گیا۔

پانچ چھ گھنٹے کے سفر میں وہ صرف یہ سوچتا رہا کہ اُس کی غیر موجودگی میں امی کیا سوچتی ہوں گی؟ کہیں وہ اور پریشانی کا شکار نہ ہو جائیں۔ نا جانے باقر امی کو سمجھا بھی پائے گا یا نہیں؟ کئی سوال ناصر کے ذہن میں سر اٹھاتے رہے مگر وسیلۂِ روزگار کی امید نے اس کا سفر جاری رکھا۔

اگلی صبح وہ وقت پر انٹرویو دینے پہنچ گیا۔ انٹرویو لینے والا اس سے مختلف سوالات پوچھتا رہا، ناصر نے جن کے معقول جوابات دیے۔ انٹرویو ختم ہونے کے بعد اُس نے خاص طور پر گزارش کی کہ اُسے جواب سے جلد از جلد آگاہ کر دیا جائے ساتھ اپنی مشکالات کا بھی بتایا۔ متعلقہ افسر نے ناصر کی گزارشات سن کر کہا کہ وہ لوگ ناصر کو کل صبح تک اطلاع دے دیں گے۔
ناصر کو ایک اور رات اپنے کمرے میں گزارنی پڑی۔ بکھری ہوئی کتابیں اور نا مکمل تصویر۔

اُس کا ذہن مسلسل سائرہ اور ماں کی حالت کا طواف کر رہا تھا۔ بے یقینی اس کے رگ و پے میں گردش کرنے لگی تھی مگر وہ پُر امید تھا کہ اُسے نوکری مل جائے گی اور یوں گھر کی مخدوش صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔

رات گزرتی جا رہی تھی آخر اُسے تنہائی نے بے زار کرنا شروع کر دیا۔ وہ کہاں جائے؟ کسے جا کر بتائے؟ کب تک سارا غبار اپنے اندر رکھے؟ وہ مسلسل سوچتا رہا کہ کیسے زندگی کو بہتر کیا جاسکتا ہے؟ کوئی جواب نہ بن پڑنے پر آخر اس نے تصویر مکمل کرنے کی ٹھان لی۔ وہ اٹھا ایک بار پھر اس نے شیشے میں دیکھا اور خود کو کاغذ پر اتارنے لگا۔ رات بہت دیر کے بعد اُس نے تصویر مکمل کر لی تھی۔

بکھرے ہوئے بال، اداس آنکھیں اور نیم وا ہونٹ، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔
تصویر مکمل کرنے کے بعد اطمینان کی کنکری نے فکر کی جھیل میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی مگر خود ہی گہرائیوں میں گم ہو گئی؛ ناصر بھی سو گیا۔

اگلی صبح اٹھتے ہی اُس نے کمپنی میں کال کی تو اُسی شخص نے جواب دیا، “ہم معذرت خواہ ہیں ہم نے ایک اور موزوں گریجویٹ کو چن لیا ہے۔ آپ حوصلہ نہ ہاریں اور امید رکھیں۔”
ناصر کا دماغ گھومنے لگا۔ امید کا آسمان اداسی کے صحرا میں دفن ہو گیا۔ ناصر نے فون میز پر رکھا اور دیواروں کو دیکھنے لگا۔ اُس کی نظریں کسی جگہ نہیں رک رہی تھیں اور ہونٹ کانپ رہے تھے کہ اُس کی نظر تصویر پر رک گئی۔ ناصر تصویر کی طرف بڑھا تصویر کے سامنے پہنچنے تک کئی گالیاں اُس کے ہونٹوں سے گزر گئیں اور ایک آنسو رخسار تک پہنچا ہی تھا کہ ہاتھ سے مسلا گیا۔

تصویر کے نیم وا ہونٹوں پر ناصر کے ہاتھ رقص کرنے لگے۔ جب وہ کام سے رکا تو تصویر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔ مسکراتے ہوئے ہونٹ جن کے پیچھے دانتوں کی سفیدی نظر آ رہی تھی۔

ناصر نے پیچھے مڑ کر ایک نظر تصویر کو دیکھا، اپنا سامان باندھا اور گھر روانہ ہو گیا۔