لینن لبرل سے نفرت کیوں کرتا تھا

Amir Hussaini aik Rozan
محمد عامر حسینی، صاحبِ مضمون

لینن لبرل سے نفرت کیوں کرتا تھا

عامر حسینی

جب آٹھ مئی 1887ء کو ویلادیمیر لینن کا بڑا بھائی الیگزینڈر اولیانوف کو زار روس کے قتل کی سازش تیار کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تو اولیانوف کی عمر محض 19 سال تھی۔ اس کی ماں سینٹ پیٹرس برگ میں عورتوں کی جیل میں جب اپنی بیٹی سے ملاقات کو گئی تو وہ اخبار خریدنے کو رک گئی اور اس طرح اس نے پہلی بار اپنے بیٹے کی پھانسی کی خبر پڑھی۔

اس المیہ کے دس سال تک لینن کو روس کے انقلابی حلقوں میں اولیانوف کے چھوٹے بھائی کے طور پہ جانا جاتا رہا۔ لینن کے خاندان کو بہت ہی حقارت کی نگاہ سے سرکار کے حلقوں میں دیکھا جاتا تھا۔ لینن اس وقت جمنازیم /ہائی اسکول کے آخری درجے میں تھا اور اسے سرکاری طور پہ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت درکار تھی۔ لینن کے والد کے دوست جو اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے کرینسکی انھوں نے لینن کے امتحان میں بیٹھنے کا دفاع کیا اور حکام کو بتایا کہ لڑکا بہت ذہین ہے اور ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ وہ اپنے بھائی کے خیالات جیسے خیال کا حامل ہو۔

ہیڈماسٹر کی عمر، اس کا تجربہ اور ریاست سے وفاداری اس قدر زیادہ تھی کہ اس کی رائے کو آسانی سے رد کرنا ممکن نہیں تھا۔ لینن نے امتحان دیا اور حیرانگی کے بغیر اس نے اس امتحان میں شاندار کارکردگی دکھائی۔ اس کے والدین جب بھی اس سے اس کے عزائم بارے سوال سوال کرتے تو وہ کہتا : ساشا (اولیانوف کا نک نیم ) کی طرح۔ تعریف اور مقابلے دونوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس نے بہت قریب سے اپنے بڑے بھائی کی سرگرمیاں دیکھیں تھیں، اسے سیکھا بھی تھا اور اس سے اپنا موازانہ بھی کیا تھا۔ اس کے بھائی کی موت نے اسے بری طرح سے ہل اکر رکھ دیا تھا۔ اس حادثے نے اور اس کے بعد ہونے والے واقعات نے اسے بھی انقلابی بناڈالا تھا۔ اس نے ہر شے بدل کر رکھ دی تھی۔ جیسا کہ ایک مورخ اس کے بارے میں لکھتا ہے:

‘ہم اولیانوف کا نام لینن کی کتابوں، مضامین، تقریروں اور یہاں تک کہ اپنی والدہ اور بہنوں سے خطبات میں بھی نہیں پاتے ہیں۔ اس کے مجموعہ تصنیفات جو کہ 55 جلدوں پہ مشتمل ہے کہیں اولیانوف کا ذکر نہیں ملتا ماسوائے اتفاقی طور پہ صرف دو بار۔۔۔۔۔ اس قدر کم گوئی کو ہم احساس کی سرد مہری سے منسوب نہیں کرسکتے۔ بلکہ اس کے برعکس اس نے جذبات کو اس قدر گہرائی میں دفن کیا تھا کہ وہ کبھی باہر آتے دکھائی نہ دئے اور نہ ہی اس نے کبھی اپنے درد کا کسی کو پتا چلنے دیا کہ وہ لوگوں کو اس میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا۔’

جب کبھی وہ ریلیکس موڈ میں ہوتا تو وہ اپنے دوستوں کے سامنے ساشا کے اثر کا ذکر کرتا، جیسے ویلناٹوف کی لینن بارے یادوں میں بیان ہوا ہے۔ چرچل جوکہ سوشلزم اور کمیونزم کا سب سے بڑا تاحیات دشمن تھا لیکن وہ اپنی دشمنی سے اوپر اٹھنے کے قابل نظر آیا جب اس نے لینن پہ اس کی موت کے پانچ سال بعد ایک مضمون لکھا اور کہا:

‘وہ عمر کے اس حصّے میں تھا جہاں احساس پایا جاتا ہے۔ اس کا دماغ ایک یادگار آلہ تھا۔ جب اس کی برق چمکتی تو یہ تمام دنیا،تاريخ ، اس کے دکھ ، اس کی حماقتوں، اس کی خجالتوں اور سب سے بڑھ کر اس کی غلط کاریوں کو افشاء کرڈالتی تھی۔ یہ مرکز توجہ تمام حقائق کو افشاء کردیتی اور اکثر وہ حقائق جن کو بیان کرنا کوئی پسند نہ کرتا یہ ان کو بھی اپنی کرن سے منور کردیتی۔ عقل شاندار تھی اور بعض مواقع پہ تو بہت ہی زبردست۔ وہ کآئنات کا ادراک اس درجے پہ جا کر کرنے کا اہل تھا کہ یہ اہلیت بہت کم لوگوں میں پائی گئی ہے۔ اس کے بھائی کی پھانسی نے اس وسیع و عریض سفید روشنی کو ایک قوس قزح کو ایک آئینے میں بدل ڈالا تھا اور یہ آئینہ سرخ تھا۔’

انقلابی شاعر مایا کووسکی نے کچھ ایسی ہی چیز اپنی نظم میں بیان کی تھی اگرچہ بالکل مختلف تناظر میں:

وہ زمین زادہ ہے
مگر ان کی طرح نہیں
جن کی ناک
اپنے چھوٹے سے سوراخ سے نیچے نہیں جاتی
بلکہ وہ ایک آن میں ہی
ساری دنیا کو اپنے احاطے میں لے آتا ہے

سمبرسک شہر میں اس کے خاندان کی زندگی انتہائی دشوار ہوگئی تھی۔ سماجی طور پہ ان کے ہم مرتبہ لوگوں نے ان کا بائیکاٹ کردیا تھا، وہ لوگ جو ایک لمبے عرصے سے ان کو جانتے تھے گلی میں اس کی ماں کو دیکھتے تو کنی کترا کے نکل جاتے۔ اس بات نے لینن کو ماں کو والد کی ملنے والی پنشن کے عارضی طور پہ بند ہوجانے سے زیادہ غصّہ دلایا۔

اس نے اس کے اندر لبرل کے لیے گہری اور خالص نفرت پیدا کردی، اور یہ ان کی منافقت کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ لبرل کے لیے کتنا آسان تھا اسٹیبلشمنٹ کے موڈ کی تبدیلی سے ہم آہنگ اپنے آپ کو کرنا۔ ان کے لیے کس قدر آسان بات تھی کہ وہ ایک رائے سے دوسری رائے کی جانب چلے جائیں۔ اور کتنی آسانی سے حیرت کا اظہار کریں جب ان کو یاد دلایا جائے کہ چند ماہ پہلے انھوں نے کیا کہا تھا۔ ‘سیاسی چھپکلیوں سے اس کا توہین آمیز رویہ اس کی ساری زندگی پہ حاوی رہا اور اس نے اپنی یہ نفرت نہ صرف لبرل کے لیے رکھی بلکہ جب دائیں بازو کے سوشل ڈیموکریٹس نے اسی طرح کے فیشن کا مظاہرہ کیا۔

اس نے ساری زندگی پیٹی بورژوازی /درمیانے طبقے کے لبرل سیکشن کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا اور اس کو ایک مرتبہ جب کہا گیا کہ وہ کیوں ‘دیوار’ کے ساتھ ناحق سر پھوڑ رہا ہے؟ تو اس نے ترنت جواب دیا،’ لبرل دیوار کھوکھلی ہے، اس کو ایک زور دار دھکے کی ضرورت ہے یہ دھڑام سے اپنے ہی سائے پہ گرجائے گی اور اسے اسارنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا’۔

ولادیمر لینن نے اپنے بھائی کی پھانسی کے بعد  لبرل دانشوروں کی موقعہ پرستی اور آنکھوں دیکھا حال ملاحظہ کرلیا تھا اور آگے چل کر اس نے کارل مارکس کا یہ جملہ پڑھا ہوگا،’درمیانے طبقے کا سر آسمان پہ اور پاؤں کیچڑ میں ہوتے ہیں’ تو وہ اور بھی اپنی رائے پہ جم گیا ہوگا۔

لینن ‘لبرل ‘ کو Liberal careerist کہتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ جمہوریت سے ان کی وابستگی ‘زبانی کلامی’ اور عملی طور پہ اس سے غداری ہوتی ہے۔ اور موقع پرست لبرل دانشور کرتے کیا ہیں؟ لینن کے مطابق لبرل بورژوازی دانشوروں کا کام کیا ہے یہ سرمایہ دار جماعتوں کی سرمایہ دار قیادتوں کے پیچھے عوام میں موجود نیم دستکاروں، نیم پرولتاریہ (خام مزدروں) اور تباہ ہوجانے والے نیم کسانوں کو لگانے کا کام کرتے ہيں۔

ان کی جدوجہد کو سمجھوتوں کی نظر کرتے ہیں اور رجعت پسندوں سے ان کا اتحاد بنوانے اور ان کے طبقاتی شعور کی تباہی کرتے ہوئے ان کو بدعنوان بناتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کے مفادات کا بھی دفاع نہیں کرتے۔اور لبرل بورژوازی/لبرل سرمایہ داری کی پیروی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پہ چلاتے ہیں۔ لینن کہتا تھا کہ لبرل کے نزدیک رجعت پرستی ‘انقلابیوں ‘ سے کہیں لاکھ درجے اچھی ہے اور وہ اس سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اب اگر آپ کو عاصمہ جہانگیر اور ملّا فضل الرحمان ایک جگہ اکٹھے نظر آئیں تو اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے۔


لکھاری کا نوٹ:

یہ تحریر طارق علی کی نئی کتاب کے دو ابواب ‘بڑا بھائی’ اور ‘ چھوٹا’ اور لینن کے کچھ مضامین و کتب سے ملا کر لکھی گئی ہے۔