الحاد لبرل ازم کی اساس نہیں

الحاد لبرل ازم کی اساس نہیں

الحاد لبرل ازم کی اساس نہیں

از، نصیر احمد

2016 میں روزنامہ دنیا میں خورشید ندیم صاحب کا  لبرل ازم، مذہب اور معاشرہ کے نام سے ایک کالم چھپا تھا۔ ان کا مضمون آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں؛ ہمارے خیال میں ان کی یہ باتیں درست نہیں ہیں کہ الحاد لبرل ازم بحیثیت نظریہ کی اساس  ہےاور لبرلز خالق کو واہمہ یا گمان سمجھتے ہیں۔

ہم نے  اپنے فیس بک کے پیج پر ان سے  اختلاف کیا۔ یہ کہنے کی کوشش کی کہ  عہد جدید میں لبرل ازم دوتین صدیوں پر مشتمل ایک پیچیدہ نظام فکر ہے، لیکن الحاد اس کی اساس نہیں ہے۔ اورخالق کو ماننے والے بھی اگر چاہیں تو لبرل ہو سکتے ہیں۔

اس پر بھی بحثیں ہیں کہ لبرل ازم اک نظام فکر ہے یا فکر کا ایک ارتقائی سفر جو پیہم جاری رہتا ہے۔ لیکن  اس سے پہلے ان کی طرف سے ملے ہوئے اس مشورے پر دھیان دیتے ہیں۔ ہمارے کسی دوست نے ان  کے کالم پر ہمارے اعتراضات ان تک پہنچا دیے تھے۔ اس کا انھوں نے یہ جواب دیا:

اپنے دوست کو میری طرف سے مشورہ دیجیے کہ وہ میرا کالم ایک بار پھر پڑھیں اور ساتھ ہی کسی ڈکشنری میں ’لبرل ازم‘ کا مطلب دیکھ لیں۔’ازم بطور ایک فلسفہ زندگی، کیا ہے، یہ کسی سیاسیات کی لغت میں مل جائے گا۔ آپ کے دوست لبرل رویے کا ذکر رہے ہیں۔ وہ فلسفے اور رویے کے فرق کو جان لیں گے تو میری بات کی تفہیم آسان ہو جا ئے گی۔

والسلام

خورشید ندیم

ہم ہر وقت اپنی جہالت پر شرمندہ سے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم پڑھے لکھے لوگوں کے مشورے پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی کسی کی بات  عجلت میں یکسر رد کر دینا کوئی اتنا اچھا رویہ نہیں ہوتا، اور اس کی بات تو بالکل بھی رد نہیں کی جاسکتی جن کی بہت سنی جاتی ہے۔ اب جیسے انہوں نے مشورہ دیا ہے، ویسے اس پر عمل پیرا ہونے کی پوری سعی کریں گے۔

لیجیے ان کا کالم پڑھ لیا۔ پہلےصرف کالم کا ایک حصہ لبرل ازم کی تعریف کے بارے میں پڑھا تھا، ہمیں تعریف سے اختلاف ہوا، ہم راکٹ ہو گئے۔ اب ان کا کالم پورا پڑھا۔ ہمیں کالم کا منطقی سلسلہ کچھ بے ربط سا  لگا ہے۔ فکر مند  نہ  ہوں، اس دفعہ ہم راکٹ نہیں ہوں گے، ان کے مشوروں پر عمل کریں گے۔

ان کا اگلا مشورہ یہ ہے کہ  کسی لغت میں لبرل ازم کے معانی دیکھ لیں۔ پھر کسی سیاسات کی لغت  میں ازم کے معنی دیکھ لیں۔ یہاں مشورے سے ہم تھوڑا  سا  مختلف کر لیتے ہیں۔

انگریزی کی آکسفورڈ  ڈکشنری میں لفظ لبرل کے معانی دیکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ ازم سے پہلے آتا ہے۔ اس کے  کسی اور لغت میں بھی لبرل ازم کےمعانی دیکھ لیتے ہیں۔  لبرل کے معانی یہ ڈکشنری یوں بیان کرتی ہے۔

1۔ اپنے  رویوں اور آرا سے مختلف  رویوں اور آرا کو قبول کر نے پر آمادہ، نئے خیالات کے لیے فراخ

اس تعریف میں الحاد کا کوئی ذکر موجود نہیں ۔ اور جو زندگی کے حقائق ہیں وہ بھی یہی دیتے ہیں کہ تحمل اور برداشت  اور ذہنی فراخی کے لیے ملحد ہونا ضروری نہیں۔ اس بات کو ہم اس مثال سے واضح کر سکتے ہیں

۔زربخت ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں۔  وہ خود کو مسلمان کہتی ہیں۔ برطانیہ عظیم کی شہری ہیں، وہیں رہائش پذیر ہیں۔   انھیں کسی نے نفسیاتی مشاورت کے ایک کورس کی  اطلاع دی کیونکہ وہ نفسیات سے دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان کے یہ ایک نئی بات تھی۔انھوں نے اس کورس میں داخلہ لے لیا۔ اور کورس میں شامل لوگوں کی آرا ان  کی آرا سے کافی مختلف تھیں۔ وہ ان آرا کو توجہ اور دلچسپی سے سنتی رہیں اور ان آرا کے بارے میں حقائق جمع کرتی رہیں ان حقائق  کی مدد سے انھوں نے نفسیات کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کیا۔ آجکل وہ ایک ماہر نفسیاتی  مشیر ہیں۔یعنی انھوں نے اپنے سے مخلتف رویوں اور آرا  کا احترام کیا،  اور نئے خیالات سے آگاہ ہونے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا وہ ایک لبرل جمہہوریت کی ایک مفید شہری بن گئیں۔ لیکن نہ انھوں قشقہ کھینچا، نہ دیر میں بیٹھیں اور ترک اسلام بھی نہیں کیا۔ ابھی تک حضور باری میں سجدہ ریز ہیں اور خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرتی ہیں۔

2۔ فرد کے حقوق اور آزادیوں اور لبرل شہری قوانین کو پسندیدہ سمجھنے والی فرد۔

لیجیے اس  تعریف میں بھی الحاد کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس بات کی وضاحت ہم اس مثال سے کرتے ہیں۔

فرح دیبا ایک مسلمان  دانشور خاتون ہیں اور پناہ گزینوں کے انسانی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی حقوق کے لیے  اقوام متحدہ میں کام کرتی ہیں۔وہ اقوام متحدہ کے قوانین کے زیر تحت کام کرتی ہیں۔ کام کے حوالے سے ان کے مثبت رویے ان قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اس لیے انسانی حقوق کے تحفظ سے منسلک حلقوں میں ان کو بہت سراہا جاتا ہے۔ لیکن ملحد وہ بھی نہیں ہیں۔۔ اپنے مسلمان ہونے پر انھیں انتہائی فخر ہے لیکن سب پناہ گزین ان کی نظر میں برابر ہیں، اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔یہ ان کے اخلاق حسنہ کا ثبوت بھی ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کی پاسداری بھی۔

3۔ انفرادی اور تجارتی آزادیوں اور معتدل سیاسی اور سماجی تشکیل نو کو پسند کرنے والا فرد

اس  تعریف میں بھی الحاد کا ذکر موجود نہیں۔ملکی قوانین کے تحت جیمز جونز ایک خریداری کا مرکز چلاتے ہیں۔ ٹیکس ادا کرتے ہیں  اور  معذوروں  کے حقوق کے احترام کے  لیے مقامی کونسل سے ایک مسلسل اور فعال رابطے میں ہیں۔ ۔ ان کے مرکز میں ہر مذہب، ہر رنگ اور ہر ثقافت کے لوگ آتے ہیں۔ اور وہ ان سب افراد کو دل موہ لینے والی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ جیمز جونز ایک عیسائی ہیں۔  اور کلیسا کے لیے دل کھول کر چندہ فراہم کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ مقامی کلیسا میں عبادت گزار انھیں بہت پسند کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمیں علم ہے، کلیسا نے ابھی تک ان کے کلیسا سے روحانی انقطاع کے لیے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔

اس تعریف پر مبنی ایک جمہوری معاشرہ جو مذہبی آزادیوں کا احترام کرے، اس کی  بنیادیں الحاد پر مبنی نہیں ہو سکتیں، بلکہ شاید مذہبی آزادیوں کا احترام ہی ایسے جمہوری معاشرے کی اساس ہے۔ اور جس معاشرے میں خالق کو ماننے والے مسلسل ترقی کریں،وہ ملحد معاشرہ نہیں ہو سکتا۔ الحاد ایک انفرادی حق ہے اور ایمان بھی ایک انفرادی حق ہے۔ بہت سارے حقوق میں سے ایک حق کو لے کر ایک معاشرے کی اساس پر فیصلہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔یعنی جہاں بیس تیس لوگ بیٹھے ہوں، وہاں یہ کہہ دینا، مجھے تو صرف یہ چڑیل اور  جولیٹ ہی نظر آتی ہیں تو حقائق سے انکار ہی ہو گا۔، اگر اس تعریف سے لبرل ازم کا کوئی ناتا ہے ،تو ہر لبرل حق ایسے معاشرے کی اساس ہے۔حق الحاد کے احترام کرنے سے کوئی معاشرہ ملحد نہیں ہو سکتا جس طرح مذہبی آزادیوں کا احترام کرنے سے کوئی معاشرہ مذہبی نہیں ہو سکتا۔ ہم تھوڑی سی عجلت کر گئے یہ بات ہمیں لبرل ازم کی تعریفوں کے دوران کہنی چاہیے تھی لیکن ایک اندازہ ہے کہ لفظ لبرل ک لبرل ازم سے تھوڑا بہت تعلق تو ہو گا۔ اس لغت کے بنانے نرے جاہل تو نہیں ہوں گے۔ جیسے کمیونزم کا کمیونسٹ سے کچھ تو ناتا تو ہوتا ہی ہے۔ اگر لبرل ازم کا لبرل سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا، تو ہمیں اپنی جہالت ماننےمیں تو لمحے نہیں لگتے۔ کسی نئے مشورے پر عمل پیرا ہو جائیں گے۔

4۔ لبرل پارٹی (خصوصی طور پر برطانیہ عظیم کی لبرل پارٹی) لبرل افراد اور لبرل جمہوری پارٹی سے متعلق فرد۔

اس تعریف میں بھی الحاد کا کوئی ذکر نہیں۔الحاد بطور لبرل ازم کی اساس تو بہت دور کی بات ہے۔ کسی صیغے میں شاید الحاد کا ذکر آ ہی جائے، اگر آگیا، ہم کوئی بددیانتی نہیں کریں گے۔جیسا لکھا ہے ویسے ہی کہیں گے۔ مریم منصف  ایک تعارف نامے کے مطابق کینیڈا کی لبرل پارٹی سے متعلق ہیں اور وہ مسلمان بھی ہیں۔ ایسا ہی ان کا تعارف دیا گیا ہے۔ ہمارے لکھنے کے بعد اگر پتا چلے کہ وہ ملحد ہو گئی ہیں ، تو  مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد لبرل جماعتوں میں کافی زیادہ ہے۔ اب ہماری دشمنی میں سب تو خالق کے منکر تو نہیں ہو جائیں گے؟ ایک امکان تو ہمیشہ ہی موجود رہتا ہے۔ وہ ایک نئی صورتحال ہو گئی، اس کے لیے کسی نئے مشورے پر عمل کرنا شروع کر دیں گے۔ لیکن کیا لبرل پارٹی سے متعلق ہو کر  آپ خالق کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں؟یا خالق کو مانتے ہوئے آپ لبرل پارٹی کے رکن رہ سکتے ہیں؟  اگر آپ خدا یا خالق کو مانتے ہوئے لبرل ہو سکتے ہیں،  تو لبرل ازم کی اساس الحاد تو نہیں ہو سکتی؟ شاید لبرل ازم کی اساس آپ کا حق انتخاب ہے اور حق انتخاب کے نتیجے ہر کوئی ملحد نہیں ہو سکتا۔ یعنی کوئی عیسائی برطانیہ عظیم میں اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر   اسلام قبول کر لے۔ کیا اس کے قبول اسلام کا مطلب خالق  سے انکار ہے؟جیسے کہتے ہیں یہ منطق تو سر چکرا دیتی ہے کیونکہ اس کا حقائق سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

5۔مذہبی علوم صیغے میں لغت میں یہ تعریف درج ہے۔ایسا فرد جو  اس بات کا قائل ہو،کہ اگر جدید خیالات کی روشنی روایتی عقائد کو مسترد کر دے تو روایتی عقائد سے دست بردار ہو جائے۔یا روایتی عقائد سے دست برداری کا قائل ہو ۔

یہاں بھی الحاد کا کوئی ذکر نہیں۔  مثال کے طور پر ایک عیسائی عالم  سینٹ کلیمنٹ اوف الیگانڈریا(215- 150)کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے اپنے وجود سے آگاہی باعث شرم ہونی چاہیے۔ جبکہ اکیسویں صدی میں چرچ اوف انگلینڈ کے پادری روون ولیمز کہتے ہیں کہ عورتوں کے بشپ بننے کے حق کو مسترد کرنے سے چرچ اپنے اعتبار کھو بیٹھا ہے تو روون ولیمز کے خیالات کو   عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کلیمنٹ کے خیالات کے مقابلے میں ہم  لبرل کہیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی ٹولیمی کے  کرہ ارض کے متعلق خیالات کہ زمین دنیا کا مرکز ہے کی بجائے موجودہ رصدگاہوں کو معتبر جانے کہ یہ رصد گاہیں کہتی ہیں زمین وسیع  کائنات کے ایک شمسی نظام کا محض ایک سیارہ  ہے تو اسے لبرل کہیں گے۔ کیونکہ ٹولیمی کے مقابلے میں ان رصد گاہوں  کے پاس زیادہ بہتر ثبوت ہیں۔

اگر ماں بچے سے یہ کہے کہ سو  جا  بیٹا  نہیں تو فرینکسٹائن کا بھوت تمھیں کھا جائے گا اور بیٹا یہ کہے، چھوڑ ماں ،وہ کوئی سچ تھوڑا ہی ہے، وہ تو میری شیلے کا ناول ہے۔ ایسا بیٹا لبرل کہلائے گا۔ یا اگر کوئی یہ کہے کہ رکھ تل کے ولی کے فیوض و برکات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے، اس لیے ہم حتمی طور پر کوئی نتیجہ قائم نہیں کر سکتے، ایسا شخص لبرل کہلائے گا، ملحد نہیں۔ اور ایسی سوچ کی اساس الحاد نہیں بلکہ علوم میں ترقی اور شعور عام ہے۔

اگر مسجد کی دیوار پر یہ  لکھا ہو کہ عورتوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع ہے تو اس بات پر کیوں؟ کیسے؟ کیا؟ کب؟ کیسے سوالات اٹھانے والا  فرد لبرل کہلائے گا۔  ان سب باتوں سے خالق باری کا انکار نہیں ہوتا اس لیے ایسا لبرل ملحد نہیں کہلائے گا۔ جو ملحد لبرل ہیں، لبرل جمہوریتوں میں ان کے حقوق کا احترام  لبرل سوچ  کا ایک نتیجہ ہے ، اس کی وجہ نہیں ہے۔

کسی بھی انسان کے حقوق کی خلاف  ورزی  لبرل سوچ کی خلاف ورزی ہے، لبرل سوچ کی اساس نہیں۔مثال کے طور پر کچھ مسلمان عورتوں کے حق حجاب پر قانونی پابندی لبرل سوچ کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن  کسی بھی عورت کے حق  حجاب کی پر امن مخالفت لبرل افراد کا حق ہے۔

6۔ صفاتی اعتبار سے یہ لغت لبرل کی تعریف یوں کرتی ہے:

ایک ایسا فرد جو تعلیم کے حوالے سے معلومات عامہ کے فروغ  اور  وسعت تخیل کو تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم پر ترجیح دے۔

ہم ذاتی طور پر تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو معلومات عامہ اور وسعت تخیل سے مربوط سمجھتے ہیں، اس لیے اس تعریف کے لبرل ہونے پر ہمیں تحفظات ہیں۔ یا شاید بات کو درست طریقے سے سمجھ نہیں سکے۔ لیکن خالق سے انکار اس تعریف سے بھی نہیں ہوتا۔ یعنی اگر پھول گاؤں کے رئیس  اپنی معلومات بڑھانے کے لیے جغرافیے کی کوئی  کتاب پسند کرتے ہیں،وہ جغرافیے کی کتاب پڑھنے سے وہ خالق کے منکر تو  نہیں ہوتے۔ یا  ہو جاتے  ہیں؟

7۔ قانون کے صیغے میں قوانین کا لغوی معانی کے بجائے اگر کوئی عام فہم معانی یا تعبیری معانی کی قائل ہے، ایسی فرد لبرل کہلائے گی۔

قوانین کی تفسیر کے بارے میں اس نوعیت کا اختلاف بھی الحاد کے زمرے میں نہیں آتا۔ مثال کے طور پر صحت وصفائی کی مناسب سہولیات کے حوالے سے  قانونی نکات پر  اختلاف الحاد کے زمرے میں نہیں آتا۔ اور نہ اس اختلاف کا مطلب خالق سے انکار ہے،

8۔ ایک سخی دل فرد

اس پر کیا کہیں۔ یعنی ہر کوئی یہ فرد ہو سکتا ہے ، پادری، ملحد، سائنسدان، قلی، سبزی فروش اور فلسفی بھی۔ ہم نے کوشش کی ہے لفظ لبرل  کو سمجھیں۔ ابھی لغت میں کچھ تعریفیں باقی ہیں۔ جہاں تک ہماری سمجھ میں آیا ہے ان تعریفوں کے مطابق کوئی بھی انسان لبرل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے مذہبی یا ملحد ہونےکی کوئی شرط نہیں ہے۔ ان تعریفوں کے مطابق نہ تو لفظ لبرل کی اساس الحاد ہے اور نہ ہی یہ تعریفیں خالق کا انکار کرتی ہیں۔تو پھر یہ کہنا کہ  لبرل خالق کے کو واہمہ یا گمان سمجھتے ہیں درست نہیں ہے۔

کچھ لبرل کہتے ہیں کہ کسی خالق کا  وجود ثابت نہیں ہے۔ اور ان کی  تعداد بھی دنیا میں بہت ہے۔ لیکن جب وہ ایک لبرل جمہوریت میں مذہبی آزادیوں کو آزار پہنچائیں گے، تو ان کو مذہب کے معاملے میں لبرل نہیں کہا سکتا۔ اسی طرح مذہبی لبرل لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، لیکن یہ افراد ملحدوں کی آزادیاں ختم کریں گے، تو الحاد کے معاملے میں وہ لبرل نہیں رہیں گے۔

ان تعریفوں کی اکثریت الحاد اور مذہب کے بارے میں ایک غیر جانبدارانہ رویہ اپنانے میں ہیں۔ لیکن یہ تو لبرل کے لغوی معانی ہیں۔ اس کے بعد ہم  ان کے مشورے کے مطابق لغات میں لبرل اور لبرل ازم کے معانی دیکھیں گے۔ وہاں پر شاید  معاملہ بالکل ہی مختلف ہو۔ شاید وہاں پر انھی معانی کو  ذرا  وضاحت سے بیان کیا  گیا  ہو۔ یا شاید کوئی ملی جلی صورت حال ہو۔


حوالہ جات

لونگ آکسفورڈ ڈکشنریز

سیلون، بدھ، 15 اکتوبر 2014

  برٹش براڈ کاسٹنگ سروس، برطانیہ، 12 نومبر 2012