حالتِ نزاع میں لکھی گئی کہانی: بوڑھا

Usman Ghani Raad

حالتِ نزاع میں لکھی گئی کہانی: بوڑھا

کہانی از، عثمان غنی رعدؔ

سورج میرا طواف کر رہا تھا حالاں کہ میری دسترس سے باہرتھا اور زمین بالکل ساکن تھی چُوں کہ میرے قدموں کے نیچے تھی۔

ہر سَمت سے جوتے برس رہے تھے۔ ایک سفید ریش نے تو بڑھ کر  میرے مُنھ پر تھوک دیا، اور باقیوں نے بھی اس کی سنت کو نبھانا چاہا۔ میری بائیں طرف سے ایک بھاری بھرکم با ریش محترم کہنے لگے، ”ارے لونڈے! تمھاری عمر ہی کیا ہے اور تم چلے ہو ہمیں دانائی سکھانے۔“

دوسری طرف سے آواز آئی، ”پچیس سال عمر ہے اس کی۔“

مَیں بالکل خاموش تھا کیوں کہ مجھے معلوم ہے، جوابِ جاہلاں خاموشی با شد۔

دائیں طرف سے ایک استادِ زمانہ بول، ”مجھے پڑھاتے ہوئے تقریباً پچیس سال ہو گئے ہیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے یہ چھوکرا تم سب سے خاموش نظروں سے شرمندگی کا اظہار کر رہا ہے، بے چارہ! علم جو نہیں رکھتا۔“

بھیڑ میں سے ایک نو جوان بولا، ”مگر پرو فیسر صاحب! ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔ یہ علمی گستاخ ہے۔ میری تعلیم اس سے زیادہ ہے مگر میں ایسے سوچ بھی نہیں سکتا، بھلا پھر یہ کم تعلیم والا ایسی باتیں کیوں کر کر سکتا ہے؟“

اس کے بعد بھیڑ میں شور مچ گیا: ”علمی گستاخ واجب القتل ہے۔ علمی گستاخ کو سرِ عام پھانسی دی جائے۔ یہ معاشرے کا نا سُور ہے۔“

مجھے معلوم تھا کہ علم کا توڑ صرف علم ہی ہوتا ہے، اور ان لوگوں کے پاس سِوائے شور و غوغا کے کچھ نہیں تھا۔ اب کوئی محنت کہاں کرتا ہے کہ علم والا مل سکے۔ سب تعلیم کے پیچھے بھاگتے ہیں، علم کون حاصل کرتا ہے؟  تعلیم کتابوں سے ملتی ہے جو علم کا مدفن ہے اور علم آنکھ سے جنم لیتا ہے۔ وہ آنکھ جو دیکھ سکتی ہےجس سے اندھوں پر فوقیت حاصل ہو۔ ورنہ آنکھیں تو ساری دیکھتی ہیں۔ مگر انہیں کیا معلوم کہ زندگی انہیں گزار رہی ہے، یا یہ زندگی گزار رہےہیں۔

ایک تنو مند شخص نے مجھے بالوں سے پکڑا اور بھیڑ میں سے گھسیٹتا ہوا چوراہے پہ لے گیا۔ جہاں لوگ مجھ سے پہلے ہی آ کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے اک نظر اٹھا کے جو بھیڑ پہ ڈالی تو میں نے بہت سے لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے آثار دیکھے، جس  سے میں سمجھ گیا کہ جانور اب بھی انسانوں پر قابض ہیں۔ سب کی آنکھوں میں مچلتی حسرت مجھے بتا رہی تھی کہ بہت دنوں سے انہوں نے کوئی تماشا نہیں دیکھا۔

مگر افسوس! آج بھی وہ تماشا نہ دیکھ سکے کیوں کہ تماشا تو میں دیکھ رہا تھا انسانیت کے زوال کا۔

مجھے چوراہے میں الیکٹرک پول کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اچانک کسی سمجھ دار نے پہلا وار کیا اور پھول نُما پتھر میرے سَر پہ لگا، جس سے خون بہنے لگا۔ جیسے یہ پتھر اس کے راستے میں رکاوٹ تھا۔ در اصل پتھر ہی رکاوٹیں بنتے ہیں مگر یہ پتھر لوگ کیا جانیں۔

پھر کیا تھا کہ جس کے ہاتھ میں جو آیا وہ میری طرف پھینکنے لگا۔ میں خوش تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کی معدودِ چند توجہ بھی میرے نام کر دی۔

اچانک بھیڑ میں خاموشی چھا گئی۔ میں سمجھا جیسے میری ہمت جواب دے گئی ہے اور میرے کان اب سننے کی استطاعت کھو چکے ہیں کہ اچانک ایک آواز ابھری:

”حضرت صاحب! یہ علمی گستاخ ہے، اتنی کم عمری میں ایسی بڑی بڑی باتیں کرتا ہے کہ سن کے کلیجہ دہل سا جاتا ہے اور ایمان کو خطرہ لا حق ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ خیال کو جذبے پہ فوقیت حاصل ہے۔ جذبہ صرف عمل تک محدود ہے اور خیال لا مکانی وسعتوں کا حامل ہے۔ جذبے کی غلطی معاف ہو سکتی ہے، مگر خیال کی نہیں کیوں کہ جذبہ اپنے عمل کے ذریعے جنت تک لے جا سکتا ہے اور خیال حضورؐ کی محبت میں کھو کر وصلِ خدا کا موجب بنتا ہے۔“

میرے بدن سے خون رِسنے کی وجہ سے وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید میں بے ہوش ہو گیا ہوں۔ مگر مجھے صحیح سنائی دے رہا تھا۔

حضرت صاحب تسبیح کو پھیرتے ہوئےبولے:

”ہمیں اس سے بات کرنے دو، یقیناً یہ ہماری باتوں کا جواب نہیں دے سکے گا پھر تم جیسے چاہو کرنا۔“

ساری بھیڑ متجسس تھی اور دِیدے پھاڑے ہَمہ تن گوش۔

”کم بخت! بتاؤ، علم کی حقیقت کیا ہے؟“

میں نے بَہ مشکل سر اٹھایا اور اتنا کہا:

”اتنے ستم سہہ کر بھی چپ ہوں، کیا یہ حقیقت کافی نہیں؟“

حضرت صاحب دو بارہ کرخت لہجے میں بولے، ”کیا مطلب؟“

”عاجزی!“ میں نے کہا تو حضرت صاحب طنزیہ لہجے میں بولے:

”عاجزی تو تسلیم و رضا کو کہتے ہیں اور تم کیا جانو کہ تسلیم و رضا کیا ہے؟“

”جناب! کشتگانِ خنجرِ تسلیم را کی شرح جا کے پڑھ لیجیے گا۔ اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو عراقیؔ کا یہ شعر ضرور کسی سے سمجھ لینا:

؎ نہ شود نصیبِ دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت

سرِ دوستاں سلامت، گر تُو خنجر آزمائی

حضرت صاحب تو برہم ہو گئے اور غصے سے دھاڑنے لگے:

”واقعی تم علمی گستاخ ہو۔ جو اب بھی بڑی بڑی باتیں کر رہے ہو جب کہ تم موت کے مُنھ میں کھڑے ہو۔“

میں نے پھر آہستگی سے سر اٹھا یا اور کہا:

”حضرت صاحب! اگر علم کا تعلق عمر سے ہوتا تو جہالت کا باپ علم کے سر چشمے سے زیادہ بڑا عالِم ہوتا، حالاں کہ معاملہ الٹ ہے۔“

”تم واقعی واجب القتل ہو۔ جو کم عمری میں اتنی بڑی بڑی علم کی باتیں کر کے علمی گستاخ ہوتے جا رہے ہو۔“

حضرت صاحب کے اس فرمان کے بعد میں گویا ہوا:

”علم ایک روشنی ہے اور روشنی کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا کیوں کہ روشنی اپنا رستہ خود بناتی ہے۔ روشنی ہی پیدا کر کے اندھیروں کا سینہ چیرا جا سکتا ہے، جس سے منزل تلاشی جا سکتی ہے۔ جب کہ روشنی کا نہ ہونا اندھیروں کی سلطنت ہے۔ اندھیرے ظلمات کا پرچار اور سئیا ت کی تکرارِ بے جا ہیں۔ جس سے فقط انا کی گندگی اور حُبِّ جاہ کی بُو پیدا ہوتی ہے جو کم علموں کے ذہنوں کو مزید پراگندہ کر دیتی ہے۔”

اس کے بعد حضرت صاحب نے نہایت سختی سے ایک تھپڑ میرے مُنھ پہ مارا اور اونچی آواز میں چلائے:

”مارو گستاخ کو!“

بس پھر کیا تھا کہ بد ترین جانور حضرت صاحب کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے میری زندگی کو اَمر کرنے لگے۔

میں نے حالتِ نزع میں دیکھا کہ سورج سے پانی گر رہا تھا اور زمین تھر تھر کانپنے لگی جس سے شعلے ابل رہے تھے۔


عثمان غنی رعدؔ، شعبۂِ اردو، نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجِز، اسلام آباد میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔