اسلامی الہیاتی فکر: شخصی آزادی، عدل اور امکان علم

ایک روزن لکھاری
محمد ابو بکر

اسلامی الہیاتی فکر: شخصی آزادی، عدل اور امکان علم

محمد ابوبکر

اسلامی الہیاتی فکر کے محدود مطالعہ سے میں نے اب تک یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ باقی تمام گروہوں کی نسبت معتزلہ اور اہل تشیع میں تصور خدا کی بہترین توجیہہ کی گئی ہے۔ ان دونوں گروہوں کے نزدیک ذات باری اصول عدل پر قائم ہے جس سے مراد خدا کی بنیادی صفت عادل ہونا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مسلمانوں میں اکثر فلسفی یا تو انہی دو گروہوں سے تعلق رکھتے تھے یا پھر عقلی تصوف کے قائل تھے۔

معتزلہ نے خلافت بنی عباس میں ایک مختصر مدت کے لیے عروج پایا جس کے بعد ان کی بیخ کنی بھی کہیں زیادہ شدت سے کی گئی۔ جبکہ تشیع بالعموم سرکاری طور پر معتوب رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کا تصور عدل محکوم گروہوں کے لیے کشش کا سامان رہا ہے۔ معتزلہ کی بنیاد ہی قدری فرقے سے پڑی تھی جن کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے اعمال میں آزاد ہے، اور خدا عدل کی بنیاد پر ان اعمال کا اجر دے گا۔ آزادی کا یہ تصور بنی امیہ کے دور میں سیاسی جدوجہد کے لیے بھرپور معاون ثابت ہوا۔

اس کے متوازی اہل سنت کی الہیاتی فکر سب سے زیادہ اشعری اور غزالی سے متاثر ہوئی ہے اور یہاں ذات باری کا بنیادی اصول عدل کی بجائے قدرت ہے۔ یعنی خدا کی بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے۔ چاہے تو کسی کو ایک نیکی پر جنت بخش دے اور چاہے تو کسی کو ایک گناہ پر پکڑ آجائے۔ قدرت کا یہ تصور اشعری اور غزالی کی مابعدالطبیعات میں بھی نمایاں ہے۔

اول الذکر گروہوں کے نزدیک چونکہ خدا کی اولین صفت عدل ہے لہٰذا کائنات عدل کے اصول محکم پر قائم ہے۔ یہاں سے یہ گروہ فلسفہ یونان سے مل جاتے ہیں جن کے نزدیک کائنات چند بنیادی اصولوں کے ربط کی وجہ سے قائم ہے اور ان کا علم ممکن ہے کیونکہ انسان کا آزاد ہونا تب تک ممکن نہیں جب تک یہ نہ مان لیا جائے کہ انسان علم رکھتا ہے۔ تعلیل یعنی علت و معلول کا تصور ان میں سب سے اہم ہے۔

اشعری اور غزالی کے نزدیک چونکہ کائنات خدا کی قدرت کے بل پر قائم ہے لہٰذا کائنات میں مستحکم اصول صرف ذات باری کی قدرت ہے۔ وہ ہر واقعے کو اپنی قدرت سے پیدا کرتا اور فنا کرتا ہے۔ اشعری ایٹم ازم، جس کی ابتدا باقلانی سے ہوتی ہے، اس کے نزدیک ہر ایٹم چند صفات یا اعراض رکھتا ہے اور خدا ہر لمحہ ان اعراض کی تجدید کرتا رہتا ہے۔ جس وقت خدا چاہے وہ تجدید کی بجائے ایٹم کو فنا کردیتا ہے۔

چنانچہ واقعات کے درمیان علت و معلول کا کوئی تعلق نہیں ہے اور مظاہر کی تشریح صرف خدا کی قدرت کے اعتبار سے ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا نے ایسا چاہا سو ایسا ہوا۔ تعلیل کا یہ انکار غزالی نے پوری شدت سے پیش کیا۔ قدرت کا یہ تصور انسانی ارادے اور آزادی کی نفی کرتا ہے نیز انسانی علم کے امکان کو بھی رد کرتا ہے۔ چنانچہ اشعری و غزالی ہر دو نے فلسفہ و تعقلی علوم کی مذمت کی اور علم کا حقیقی ماخذ وحی یعنی آسمانی صحائف کو قرار دیا۔

تاریخی طور پر مسلمانوں میں طویل عرصے تک شخصی استبدادی حکومتیں قائم رہی ہیں جنہیں روایتی طور پر خلافتیں کہا جاتا ہے۔ بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانی ترک اس کی مثال ہیں۔ حکومت کا یہ تصور مسلم روایت کا اتنا اہم حصہ بن گیا کہ مختلف علاقوں میں قائم خاندانی بادشاہتیں بھی رسمی طور پر ہی سہی لیکن خلیفہ سے اقتدارکی سند ضرور لیتی تھیں۔ ان حکومتوں کے لیے اشعری و غزالی کی روایتی سُنی فکر ایک فطری اتحادی تھی جس کے ذریعے عامتہ الناس میں خدا کی قدرت کا تصور راسخ کیا گیا۔

بادشاہ یا خلیفہ زمین پر اس خدا کا نائب قرار دیا گیا۔ یہ فکر چونکہ آزاد علم کے امکان کو بھی رد کرتی تھی لہٰذا عوام کو مقدس صحائف کی من پسند تشریحات تک محدود رکھ کے ذاتی عقل کے استعمال کی ممانعت کی گئی۔ اس فکر نے فقہ کے مکاتب میں بھی زبردست اثر پیدا کیا اور سقوطِ بغداد کے بعد مسلم تہذیبی شعور اس حد تک عدم تحفظ کا شکار ہوا کہ فقہ میں مطلق اجتہاد کے امکان کی نفی کر دی گئی اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے دین کا ایسا ماڈل تیار کیا گیا جس میں مزید تبدیلی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

جدید دور میں مسلم اقوام پر یورپی تسلط ہونے تک یہ سارا نقشہ قائم تھا جو اس غیرملکی حکمرانی کے بعد کمزور پڑنا شروع ہوا۔ اس وقت ضرورت یہ تھی کہ قدریہ، معتزلہ اور تشیع کا اصول عدل دوبارہ تازہ کیا جاتا۔ برصغیر میں یہ کام کسی حد تک سرسید احمد خان نے کرنے کی کوشش کی تاہم روایتی فکر (جو یورپی تسلط کے بعد مزید عدم تحفظ کا شکار ہوچکی تھی) نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ سیاسی آزادی کی اس جدوجہد میں مسلم اقوام کے لیے ایک نیا چیلنج بھی پیدا ہوگیا کہ جدید یورپی ثقافت کے مدمقابل اپنے آپ کو کس طرح قائم رکھا جائے۔

روایتی فکر نے یہاں ماضی پرستی کا سہارا لیتے ہوئے سیاسی آزادی کو اس بات سے مشروط کیا کہ پہلے ہمیں خالص دین کی طرف پلٹ جانا چاہیے اور ان کے نزدیک خالص دین دراصل وہی اشعری و غزالی فکر تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم اقوام میں عامتہ الناس کو دوبارہ سے روایتی عُلَماء کا پابند بنا دیا گیا اور آج تک مسلم تہذیب اسی کے زیراثر ماضی کی طرف واپس پلٹنے کی نیت سے علما کی قیادت میں جدیدیت سے انکار کرتے ہوئے عالمی تنہائی کا شکار ہے۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ شخصی آزادی، عدل اور امکان علم کی وہ فکر تازہ کی جاتی جو کسی دور میں معتزلہ و تشیع نے پیش کی تھی۔ یاد رہے کہ جدیدیت کی ثقافتی اقدار میں بھی شخصی آزادی، انصاف اور علم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اگر ہم اپنے اسلاف کے ان تصورات کو تازہ کرتے تو شاید آج ہمارا یہ حال نہ ہوا ہوتا۔