جوش ملیح آبادی __ ایسے شاعر جو ہر دور میں متنازع رہے یا بنائے گئے!

Afzal Razvi the writer

جوش ملیح آبادی __ ایسے شاعر جو ہر دور میں متنازع رہے یا بنائے گئے!

از، افضل رَضوی

لیلائے سخن کو آنکھ بھرکر دیکھو

قاموس و لگات سے گزر کر دیکھو

الفاظ کے سر پر نہیں اڑتے معنی

الفاظ کے سینے میں اتر کر دیکھو

بیسویں صدی کی تیسری دھائی میں جو معروف شاعر منظر عام پر آئے، اُن میں ایک نام جوش ملیح آبادی کا ہے۔ وہ اپنے خالص اُسلوب کے باعث اپنے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ جوش کی جوانی کا زمانہ بر صغیر پاک و ہند کی سیاسی ابتری کا زمانہ تھا۔

اس زمانے میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ ایک طرف تو وعدے وعید کیے جارہے تھے، تو دوسری طرف انھیں کچلنے کی سازشیں بھی جاری تھیں۔ شاعر چوں کہ معاشرے سے متاثر ہوتا ہے لہٰذا معاشرے کے تغیر و تبدل کا بلا واسطہ یا بالواسطہ اثر قبول کرتا ہے اور پھر اسی خاصیت کے سبب معاشرے کا عکاس بھی بن جاتا ہے۔

اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو گزشتہ صدی میں شاعری بھی ایک نئے انداز میں ہمارے سامنے آئی اس کا سبب وہ حالات و واقعات ہیں جن سے اس کا سامنا ہوا۔ ان حالات میں شاعر جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے تو انھیں تنگ دامانی کا احساس ہوتا؛ چناں چہ انہوں نے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے غزل کے مقابلے میں نظم کے دامن کو وسیع پاتے ہوئے اس میں طبع آزمائی کی۔

جوش ملیح آبادی کا شمار میں بھی ان شعراء میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا اور بعد میں نظم کی طرف مائل ہوئے۔ نظم کی طرف مائل ہونا ان کی طبعی مناسبت کا تقاضا تھا۔ ان کی شاعری جدید میلانات و رجحانات سے معمور ہے اور عصری تقاضوں کی عکاس بھی۔

بغاوت اور انقلاب ان کے مضامین ہیں۔ ان کی نظمیں دورِ شباب کی لغزشوں کی حکایات سناتی ہیں۔ شاعرِ شباب، شاعرِ انقلاب، شاعرِ رومان اور مصوّرِ فطرت شبیر حسین خان جوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں قصبہ کنول ہار ضلع ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔

جوش کو شاعری ورثے میں ملی تھی ان کے پردادا نواب فقیر محمد استاد ناسخ کے شاگرد تھے۔ جوش کے اساتذہ میں مرزا محمد ہادی رسوا بھی شامل ہیں۔ سینئر کیمبرج تک تعلیم حاصل کی، باقی علمی استعداد مطالعے سے حاصل کی۔


متعلقہ تحریر:

اچھا ہوا جوش صاحب مر گئے  از، نصیر احمد


جوش کے والد بشیر احمد خاں بشیر بھی شاعر تھے اور دادا نواب احمد خاں کا بھی شاعری سے تعلق تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پردادا نواب فقیر محمد خاں صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ ان کے خاندان میں خواتین شاعرات بھی موجو د تھیں۔ جوش کی دادی بیگم نواب محمد احمد خاں، مرزا غالب کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس طرح جوش کو شاعری ورثے میں ملی تھی؛ لیکن جوش صرف شاعر نہیں تھے، ایک ہشت پہلو شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت کا ہشت پہلو ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں شعر اور نثر دونوں پرکامل عبور تھا۔

شاعری کی تو اوجِ کمال تک پہنچے اور نثر لکھی تو ادبی حلقوں میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ جہاں تک ان کی شعری استِعداد کا تعلق ہے تو یہ چوں کہ وراثت میں ملا تھا اس لیے بچپن میں ہی شعر موزوں ہونے لگے تھے اور انہوں نے 9 سال کی عمر میں پہلا شعر کہا:

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے

یہ میرا فنِ خاندانی ہے

جوش عنفوانِ شباب میں فارغ البال تھے۔ لیکن 1916ء میں والد کے انتقال کے بعد فارغ البالی ختم ہو گئی اور ذمے داریوں کا بوجھ کاندھوں پر آ پڑا۔

یہی وجہ ہے کہ 1916ء سے 1920ء کی شاعری میں تلخی، زندگی سے اکتاہٹ، دنیا کی بے ثباتی اور صوفیانہ خیالات ملتے ہیں۔ انھی مضامیں اور خیالات پر مشتمل ان کا پہلا مجموعۂِ کلام روحِ ادب 1920ء میں شائع ہوا۔

اس مجموعے کے بعد 1936ء تک آتے آتے ان کی شاعری میں عشقیہ مضامین کے ساتھ ساتھ بغاوت کے عُنصر نے بھی جگہ بنالی نیز ہم عصروں کا اثر بھی ان کی شاعری میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

چناں چِہ اس دورانیے میں انھوں نے جو کلام جمع کیا وہ شعلہ و شبنم کے نام سے 1936ء میں منصۂِ شہود پر آیا جب کہ تیسرا مجموعۂِ کلام نقش و نگار 1944ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا؛ تاہم جوشؔ کی زندگی کی بہترین شاعری پر مشتمل ان کا ضخیم شعری مجموعہ محراب و مضراب ان کے انتقال کے گیارہ سال بعد 1993ء میں قارئین تک پہنچ سکا۔

مجموعے کی تاخیر پر تبصرہ کرتے ہوئے جوش کی پوتی تبسم اخلاق لکھتی ہیں:

حضرت جوش ہر دور میں متنازِع شخصیت بنے رہے یا بنائے جاتے رہے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو وہ مارشل لاء کا زمانہ تھا۔ اس دور میں لوگ ان کا نام زبان پر لاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ مبادا ان کو بھی نوکری سے برطرف ہونا پڑے۔

تبسم اخلاق کے بیان سے اتفاق کر نا پڑتا ہے کیوں کہ ان کے انتقال سے دس گیارہ سال پہلے ان کی خود نوشت یادوں کی برات 1972 ء میں کراچی سے شائع ہوئی تھی اور ان کا انتقال 22 فروری 1982ء کو ہوا۔

یوں ایک طرح سے وہ دس برسوں تک تنازعات میں گھرے رہے اور اس کے باعث انہیں بے حد دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کے عتاب کا شکار بھی ہوئے؛ لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جوش جہاں ایک عظیم شاعر تھے وہیں وہ صاحبِ طرز نثر نگار بھی تھے۔

شاعری میں جوش ایک ایسے شاعر ہیں جن کے بے شمار مجموعہ ہائے کلام منصۂِ شہود پر آئے۔ ان میں روحِ ادب، آوازہ حق، شاعر کی راتیں، جوش کے سو شعر، نقش و نگار، شعلہ و شبنم، پیغمبر اسلام، فکر و نشاط، جنوں و حکمت، حرف و حکایت، حسین اور انقلاب، آیات و نغمات، عرش و فرش، رامش و رنگ، سنبل و سلاسل، سیف و سبو، سرور و خروش، سموم و سبا، طلوع فکر، موجد و مفکر، قطرہ قلزم، نوادر جوش، الہام و افکار، نجوم و جواہر، جوش کے مرثیے، عروس ادب (حصہ اول و دوم)، عرفانیات جوش، محراب و مضراب، دیوان جوش وغیرہ۔

علاوہ ازیں نثر میں بھی ان کے کمالِ فن کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے نثری مجموعوں میں:

مقالات جوش، اوراق زریں، جذبات فطرت، اشارات، مقالات جوش، مکالماتِ جوش اور یادوں کی برات (خود نوشت سوانح) شامل ہیں۔

محراب و مضراب کی شاعری 1955ء سے1971ء تک کے زمانے پر محیط ہے۔ اس کے کل آٹھ ابواب بنائے گئے ہیں جن میں مختلف مضامین بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے چیدہ چیدہ، پیغام ِ بے داری، زندگی کی بے ثباتی، اپنی نا قدری کا شکوہ، وحدتِ انسانی، انانیت، بغاوت، حمد وبنعت اور ہیئت کے تجربات وغیرہ ہیں۔

محراب و مضراب کے بابِ اول کی نظم پیچ و تاب میں جوش نے اپنے اس مجموعۂِ کلام کا عنوان خود تجویز کر دیا ہے، کہتے ہیں:

سرِ گردوں، ”فتوحِ“ انبیا کے نصب ہیں خیمے

سرِ گیتی، شکستِ منبر و محراب ہے، ساقی

اٹھاتا ہوں نظر، تو دشت و دریا جھنجھناتے

یہ میری لرزشِ مژگاں نہیں مضراب ہے ساقی

 جوش مسلمانان بر صغیر کی کاہلی اور سستی پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اُدھر تلاطم یورپ سے دل ہے زیر و زَبر

اِدھر غنودگئِ ایشیا پہ، عقل ہے دنگ

کلامِ جوش میں جا بَہ جا زندگی کی بے ثباتی کا تذکرہ ملتا ہے۔ روحِ ادب کے متضاد محراب و مضراب مین وہ حیات کے اور خواہاں نہیں بل کہ شعلہ و شبنم کے مضامین کی طرح دنیا سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی یہ رباعی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔

دل نقدِ حیات کھو رہا ہے اے جوش

بیڑا اپنا ڈبو رہا ہے اے جوش

ہونے ہی پہ ہے پاک، حسابِ مہ و سال

کھاتا، اب بند ہو رہا ہے،اے جوش

جوش کے ہاں زندگی کی بے ثباتی کا پہلو یک لخت پیدا نہیں ہوا۔ جوش زندگی کو جس رنگ ڈھنگ سے دیکھتے تھے، جب اسے اس طرح گزار نہیں سکے تو ان کے اندر ایک ایسی ضد پیدا ہو گئی جو انھیں لحظہ لحظہ وادئِ موت کی طرف لے گئی اور پھر وہ اس وادی میں یوں اتر گئے جیسے سورج سرِ شام دور سمندروں میں اتر جاتا ہے۔

جوش تقسیم کے بعد بھارت سے ترکِ سکونت کر کے 1956ء میں جب پاکستان آئے تو اپنے ساتھ یادوں کی ایک بیاض لائے اور پھر وہ سلسلہ چل نکلا کہ جس کا انجام قید و بند کی صعوبتیں اور حکام کی طعن و تشنیع نکلا۔

یارِ زنداں فیض احمد فیضؔ کی طرح جوش ملیح آبادی کو بھی کئی بار اپنے خاندان کی جدائی سہنا پڑی۔ وہ جس سر زمین کے لیے مہاجر ہوئے، اس سر زمین کی بستیاں ان پر تنگ کر دی گیئں۔

ردِ عمل کے طو رپر ایک ایسے جوش ہمارے سامنے آئے کہ جن کے ساتھ بغاوت کا نام لازم و ملزوم ہو گیا۔ ان کے احساسات کسی بغاوت کا لبادہ اوڑھ کر یوں گویا ہوتے ہیں۔

اس دورِ قیل و قال میں لایا گیا ہوں میں

وہموں کی ناگنوں سے ڈسایا گیا ہوں

ممنوع ہے درآمد فکر و نظر جہاں

اس ملک نا کساں میں بسایا گیا ہوں میں

اس جرم میں کہ داعئِ تطہیر عقل ہوں

تشنیع کا نشانہ بنایا گیا ہوں میں

ایوانِ آگہی میں جلاتا ہوں کیوں چراغ

صرف اس بنا پہ جوش بجھایا گیا ہوں میں

جوشؔ ملیح آبادی کی شاعری میں بغاوت کے ساتھ ساتھ انقلاب کا عُنصر بھی نمایاں ہے۔ دیکھیے درج ذیل شعر میں اس کا کس اعلان کرتے ہیں۔

کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

جوشؔ کا یہ لب و لہجہ وقت کے ساتھ ساتھ تیز اور تیکھا ہوتا چلا گیا۔ پہلے وہ بغاوت کی آگ میں خود جلتے تھے بعد میں انھوں نے اپنے ہم مسلکوں کو بھی اس راہِ پُر خار پر چلنے کی تلقین کی۔

وہ ان لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں جو آزادی کے لیے آواز بلند تو کرتے ہیں مگر سامنے نہیں آتے، وہ ایسے لوگوں کو پیغام دیتے ہیں:

جو سورما ہو تو چنگیز خاں سے ٹکر لو

فقط مذمتِ چنگیز خاں سے کیا ہو گا

سنو، سنو کہ یہ گردُوں سے آ رہی ہے صدا

کہ ذوالفقار سے بولو، زباں سے کیا ہو گا

اور پھر ان لوگوں کو جو انھیں نشانۂِ طنز بناتے ہیں، مخاطب کر کے کہتے ہیں:

بَہ آسانی بچا سکتا ہوں خود کو طنزِ یاراں سے

مگر میں کیا کروں، مجھ سے ریا کاری نہیں ہوتی

نہ چھیڑ اے جوش سازِ حق کہ دلالانِ باطل کو

وہ شے اچھی نہیں لگتی، جو بازاری نہیں ہوتی

اور نظم چند سوال میں کہتے ہیں:

ہر ایک سانس پہ بیٹھے ہیں کیوں یہ سویرے

ہر ایک سمت پہ سدِ سکندری کیا ہے

اسی طرح نظم شش و پنج میں باغیانہ انداز ملاحظہ کیجیے۔

رباب چھیڑ، مگر یہ بھی سوچ لے مطرب

رباب میں بھی جو گونجی فغاں تو کیا ہو گا