عمران خان جیسے لوگ نظام نہیں صرف حکومتیں پلٹ سکتے ہیں

عمران خان جیسے لوگ نظام نہیں صرف حکومتیں پلٹ سکتے ہیں

(فرخ سہیل گوئندی)

دھرنا، دھرنے پہ دھرنا، پانامہ اور پھر 10ارب روپے کی رشوت کا الزام، دھرنا۔ یہ عمران خان کی سیاست کا عنوان ہے۔ دو روز قبل انہوں نے فرمایا ہے کہ جب تک گاڈ فادر ہے، نظام نہیں بدلے گا۔ وہ نظام کا بدلنا ایک شخص کے بدلنے سے تعبیر کیے بیٹھے ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کو اتار کر وہاں شاہ محمود قریشی اور ان میں سے کسی کو بٹھا دینے سے نظام بدل جائے گا، تو وہ یہ دھوکا ہی دے رہے ہیں۔ یہ لوگ تو ہمیشہ ہی سے نظام کا ہی حصہ رہے ہیں۔ اُن کے ہمراہ جو لوگ ہوتے ہیں، وہ نظام کے تربیت یافتہ اور زیرسایہ پلے بڑھے ہیں۔

عمران خان نے شان دار کرکٹ کھیلی اور بے مثال خیراتی کام کیا۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ کرکٹ صرف انہوں نے ہی کھیلی۔ اُن سے پہلے اور بعد میں لاتعداد کھلاڑیوں نے شان دار کرکٹ کھیلی اور اسی طرح لاتعداد لوگوں نے خیراتی کاموں میں شان دار کردار ادا کرکے اپنا نام تاریخ میں رقم کروایا۔ عمران خان کی شخصیت ایک مشکل شخصیت ہے۔ ایسے لوگوں پراتنی جلدی درست رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔ بڑی فہم وفراست چاہیے ایسے لوگوں کے بارے میں۔ اُن کا دل مغرب کی زندگی میں دھڑکتا ہے اور روح مشرق میں۔ لوگ انہیں سادہ انسان سمجھتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ لوگ انہیں دوست گر سمجھتے ہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔ لوگ انہیں فراخ دل سمجھتے ہیں، یہ بھی درست نہیں۔ لوگ انہیں معصوم سمجھتے ہیں، یہ بھی نہیں ہے۔ لوگ انہیں سیاست کا دھنی سمجھتے ہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔ لوگ انہیں انقلابی سمجھتے ہیں، ایسا تو بالکل ہی نہیں ہے۔ ہاں وہ خوش نصیب انسان ہیں، سیاست میں تو بہت خوش نصیب۔

2008 کے بعد یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کر دئیے جانے کے بعد پاکستان ایک Leaderless Nation بن گیا۔ حکمرانی پر مسلط جنر

ایک روزن لکھاری
فرخ سہیل گوئندی، صاحب مضمون

ل پرویز مشرف کا اقتدار اپنے انجام کو پہنچتے پہنچتے سسکیاں لینے لگا۔ تو پاکستان میں اُن کو بھی موقع ملا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے کھانسنے کی جرأت بھی نہیں رکھتے تھے۔ تب ایک زرداری سب پر بھاری یک دم پھل پھول گئے۔ غم میں نڈھال بے نظیر بھٹو کے حامیوں نے اُن کو سسکیوں میں قبول کیا۔ حکومت بنی اور خوب چلی، پورے پانچ سال، لیکن پارٹی نہ چل سکی۔ سیاست کی سکرین پر جہاں چند ماہ قبل محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف سیاسی دوستی کے لیے رابطے کرتے آرہے تھے، دونوں ہی منظر سے غائب ہوئے۔ طاقت اور مقبولیت میں اُن کی لاٹری نکل آئی جنہوں نے لاٹری کے ٹکٹ بھی خود نہ خریدے تھے۔ نوازشریف اور اُن کے اہل خانہ کی آمد ملک میں بھی ہوئی اور سیاست واقتدار میں بھی۔ راستے بننے اور کھلنے لگے۔ مرکزی اور پنجاب حکومتوں اور اُن میں شامل پارٹیوں سے مایوسیوں نے سابق کھلاڑی کے تو راستے کھولے ہی اُن طاقتوں نے بھی اپنا Invisible کردار ادا کرنا شروع کردیا جو پاکستان میں Test Tube Leaders پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔عمران خان ایک مناسب انتخاب تھے، پرانا انتخاب تھے۔ اگر آپ 1995 سے 1997 تک کے اخبارات کی فائلیں دیکھیں تو آپ کو دو جوان سیاست میں پر تولتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان اور مرتضیٰ بھٹو۔ اور اگر آپ دونوں کا موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔

ایک جوان مرتضیٰ بھٹو، اپنی ہی پارٹی، حکومت اور خاندان پر کرپشن کے الزامات بھی لگا رہا ہے۔ مزدور، کسان اور محنت کش کی بات کرنے کے ساتھ امریکی سامراج کو للکار بھی رہا ہے۔ لوگوں کو اس کی جرأت پر حیرانی ہورہی ہے اور وہ جرأت اور مقبولیت میں آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ مگر پھر وہ قتل کردیا جاتا ہے۔ دوسرا جوان عمران خان، نپی تلی جرأت اور منتخب کردہ اشخاص پر تنقید۔ ذرا تصور کریں کہ اگر مرتضیٰ بھٹو زندہ ہوتے، پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر کون مقبول ہوتا، بغیر کسی Invisible طاقت کے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ اور افسوس مرتضیٰ بھٹو جلدی میں بھی تھے اور مہم جُو بھی، اسی لیے تو مارے گئے۔ راقم نے انہیں پس دیوارِ زنداں پیغام بھیجا، آہستہ چلیں، لمبا سفر کریں، مگر افسوس وہ سمجھ نہیں پائے۔

عمران خان ایک کھلاڑی کے طور پر مخصوص صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک ناکامی کے بعد دوبارہ کھیلنے کے لیے تیار ہوجانا، اسی لیے کبھی وہ جنرل مشرف کے چہیتے ہوئے اور کبھی مخالف، کبھی نوازشریف کا دایاں بازو بننے پر رضامند اور کبھی ہاتھ گریبان پر۔ اُن کی شخصیت کی یہ خوبی یا تضاد ہی اُن کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ جیسے وہ مشرق میں ہوں تو اُن سے بڑا مشرقی کوئی نہیں۔ مغرب میں ہوں تو مغربی۔ خواہشات اور جذبات بھی مغربی۔ میں نے عرض کی کہ مشکل شخصیت ہیں۔ ایسی شخصیات کا تجزیہ کرنا عام لوگوں کے بس میں نہیں۔ کالم نگاری نہیں تحقیق چاہیے ایسی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے۔ اُن کے بارے میں یہ بھی علم نہیں کہ اُن کا سیاسی نظریہ کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سوشلسٹ کہلاتے تھے، بے نظیر بھٹو سوشل ڈیموکریٹ، جماعت اسلامی کے لیڈران اسلامی انقلاب کے رہبر، لیکن عمران خان ایک لفظ میں اپنی سیاسی شناخت بتانے سے قاصر ہیں۔ کیا وہ سوشلسٹ ہیں، سوشل ڈیموکریٹ، اسلامسٹ، بنیاد پرست، کپیٹلسٹ، مارکسٹ یا لبرل؟ ایسی شخصیت کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکتا۔

ذرا غور کریں جب نیٹو افغانستان میں قبضہ جمائے بیٹھی تھی، عمران خان کہتے تھے نیٹو افغانستان سے نکل جائے۔ جب نیٹو نے ازخود نکلنے کا اعلان کیا تو خان صاحب نے کہا، ہم نیٹو کے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں گے۔ ایک قومی سیاسی رہنما جب اتنے غیرت مند ہونے کا اعلان کسی ایک قومیت کے دائرے میں رہ کر کرے تو پھر کیا اُسے قومی رہنما قرار دیا جا سکتا ہے۔ غیرت مند پٹھان۔ ہر انسان غیرت مند ہے، اس کی سرحدیں کسی قوم تک محدود نہیں۔ سندھی، پنجابی، بلوچی، کشمیری، کوئی بھی ہو، وہ غیرت مند ہے جو دوسروں کا احترام کرے، اپنا احترام کرنے یا کروانے والا غیرت مند قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ذرا غور کریں، اُن کی شخصیت پر، انتخابات میں شان دار کامیابی کے بعد امپائر کی انگلی کا انتظار کرتے رہے۔ کاش وہ عوام کے بازوؤں پر اعتماد کرتے۔ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے دس ارب روپے کی رشوت اور دھرنے کا اعلان کرتے تو بات تھی۔ جتنے سادہ نظر آتے ہیں ایسے لوگ، اتنے سادہ ہوتے نہیں۔ دوسری جماعتوں کی ناکامیاں اُن کی مقبولیت کا سبب ہیں۔

میرے ایک دوست جو عمران خان کے عزیز ہیں، مجھ سے بہت ناراض رہے کہ میں نے ایک کتاب جو عمران خان کی سوانح عمری ہے، اس کے فلیپ پر ایک جملہ لکھ دیا کہ وہ نرگسیت پسند ہیں۔ آج وہی دوست عمران خان کے اسی قدر مخالف ہیں جتنے حمایتی تھے۔ میرا تجزیہ کسی محرومی کا سبب نہیں، میں قلم مزدور ہوں، میری زندگی لفظوں کے گرد گھومتی ہے۔ لکھنے، پڑھنے، بولنے اور اشاعت کاری تک۔ قلم مزدور بھی ہوں اور اس سفر میں چڑھتی جوانی سے ہوں۔ میرا کوئی سیاسی دھڑا نہیں۔ وہ دھڑا نوازشریف کا ہو، آصف علی زرداری کا یا عمران خان کا۔ اس لیے کہ مجھے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہے ۔ میرا دھڑا خیالات، تجزیہ اور الفاظ ہیں۔ بس اتنی عرض ہے کہ عمران خان ایک خودپسند انسان ہیں، نرگسیت پسند شخصیت کے مالک۔ صرف اور صرف اپنے آپ سے محبت کرنے والے۔ اسی لیے تو دوست گر نہیں۔ جو دوست گر نہیں وہ عوام دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ انقلابی کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ نظام کیسے پلٹ سکتا ہے۔ جو کروڑوں ہاتھوں کی بجائے ایک امپائر کی انگلی کا منتظر ہو، وہ انقلابی نہیں کہلا سکتا۔ ایسے لوگ نظام نہیں پلٹتے، حکومتیں پلٹ سکتے ہیں۔ اپنے آپ سے محبت کرنے والے کروڑوں عوام سے بھلا کیسے محبت کرسکتے ہیں۔
بشکریہ مصنف اور روزنامہ نئی بات