شاہراہ ابریشم کاحقیقی پس منظر اور آثار قدیمہ کے حاصلات

(قاری جاوید اقبال)

تصویر کائنات کے رنگوں کا جو جمالیاتی پہلو ہے وہ رب کائنات کا نہ صرف یہ کہ تخلیقی بلکہ اختراعی ہنر ہے جو کہ کارگاہِ حیات کے گلستان میں مختلف رنگوں میں بکھرا ہوا ہے۔ کائنات میں منتشر تخلیقی عکسوں میں نمایاں عکس انسانی تمدن ہے یہ کار ساز بندہ نواز کی عطاؤں میں سے ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ بنی نوع انسان ایک غبار بے ثبات ہونے کے باوجود اپنے رب کے یزدانی تخلیقی ہنر میں شریک کار رہا ہے۔ یہ نائب یزداں تمدنی اور تہذیبی صورتوں کی ایجادات میں شروع ہی سے مصروف و مشغول ہوگیا۔ جمادات کی دنیا کے مہیب و بلند و بالا پہاڑوں کے سینوں کو چیر پھاڑ کر ایسی ایسی شاہراہیں تعمیر کیں کہ جن پر انسانی آبادیوں نے اپنے ڈیرے بسا کر بربریت و حیوانیت سے تمدن کے انقلابی دریچے میں قدم رکھا چونکہ دست تہذیب ، تمدن کے دامن سے وابستہ ہے اس لیے جہاں تمدن ہو وہاں تہذیب اور تہذیبی ارتقا کی صبا ء انگیز فضا بھی موجود رہی ہے۔ شاہراہِ ابریشم کا وجود انسانی تخلیقی ہنر کا ایک ادنیٰ سا منظر ہے۔ معروف حیثیت میں اباسین یعنی دریائے سندھ جسے آریاؤں نے سندھو کہا ، چین والوں نے اسے چام لوہو کہا فارس کے دارایوش اعظم نے اسے ”بدو”کا نام دیا، سکندر اعظم مقدونی نے اس دریا کی عظمت کو محسوس کرتے ہوئے یونانی زبان کے تلفظ میں اسے ”سندوس” کہا، لاطینی میں اسے ”سندس” کہا گیا، عربوں نے اس دریا کے جلال و جمال کی آمیزش کو محسوس کرتے ہوئے اسے ”بحرالذھب” کے نام سے پکارا یعنی سونا اگلنے والا دریا۔ دیگر مسلمان مؤرخین و جغرافیہ دانوں نے اس کے پانی کی نیلی رنگت کا پیش نظر رکھتے ہوئے اسے ”نیلاب” کہا، لداخ کے باشندوں نے اسے ”سانگ پو” کہا تبت کے لوگوں نے اسے ”سنگ” کہا جبکہ کئی لوگوں نے اسے ”سدرہ یا سوہدرہ” بھی کہنا شروع کر دیا ۔ غرضیکہ اس دریا کو جس جس قوم و وطن کے لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں جو بھی نام دیا اس کی قدامت و عظمت اور بساط و شوکت کے اظہار میں کوئی بخل نہ برتا اور یہ دریا متعدد دانشوروں اور شعراء کے ادبی مجموعوں کی بھی زینت بنتا رہا۔ پشتو زبان کے اس اباسین یعنی دریاؤں کے باپ کی سطح ساحل پر بنائی جانے والی شاہراہ کبھی دریا کے دائیں اور کبھی بائیں ساحل پر ایک فنکار رقاصہ کی طرح یوں رقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ دریا کی کہیں تو تیز اور کہیں مدہم ہو جانے والی لہروں اور موجوں کی ترتیب کے ساتھ محورِ رقصاں دکھائی دیتی ہے اور یوں یہ شاہراہ بشام سے لیکر چین کے علاقے میں داخل ہو کر پاکستان اور چین کی لازوال دوستی کی علامت بن گئی ہے اور جو خصوصیت کے ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا کے لیے فخرومسرت کا باعث ہے۔
شاہراہ ابریشم کے ضمن میں بیان کردہ یہ چند سطریں موضوع کے بارے میں ایک علامتی حوالہ تو ہو سکتا ہے جبکہ اس سلسلے میں حقیقت تک رسائی کے لیے طرز بیان کو حقیقت پسندانہ رُخ درکار ہے۔

اوروں کا ہے کلام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

جیسا کہ شروع میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی خطے میں تمدنی حالات پیدا کرنے کے لیے جو ایجادات یا نت نئی تخلیقات کی ناگزیر حالت کے پیش نظر کارخانہ قدرت میں بنی نوع انسان نے جب تک اپنے فرضِ منصبی کو پہچان کر خدائی اختراعات پر اپنے تخلیقی ہنر کو روبکار نہیں رکھا اس وقت تک معاشرے میں تمدن و تہذیب اور علم و فکر کی توقع خیال عبث رہی ہے۔ ایک آرکیالوجسٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ وہ آیات ربانی کا عملی شارح بن کر آثار و اعلامِ ماضی کی تشریح میں کائنات میں خدائی مقاصد کی بامعنی سعی کرتا ہے۔ سطح گیتی میں بہت سی ایسی نشانیوں کا تذکرہ پروردگارِ عالم اپنی کتابِ حکمت میں محض لفاظی کے طور پر نہیں کرتا بلکہ اس کے تذکرہ میں اہل فکرو ہنر کے لیے جو سامان عبرت پوشیدہ ہوتا ہے اس پر سے پردہ کشائی جس طریقے سے ایک ماہرِ آثار قدیمہ کرتا ہے۔اس سے نظر و حکمت اور دریافتوں کی نئی نئی شاہراہیں کھلتی ہیں۔ جیسا کہ پروردگارِ عالم نے زمانہ ماضی کے نشانات کے بارے میں اپنی الہامی کلام میں مختلف پیرائے میں اظہار کیا ہے۔(ترجمہ) ہم نے گزرے ہوئے با اجلال وسطوت لوگوں کو قصہ پارینہ کے طور پر آنے والوں کے لیے مثال بنا دیا ہے۔

بلاشبہ آج کے ترقی پذیر یا ترقی یافتہ معاشروں میں تعمیری و فنی ایجادات کو دیکھ کر آدمی ششدو تو ہو جاتا ہے مگر جب کتابِ حق کی طرف توجہ کی جائے تو زمانہ ماضی میں جو تعمیرات ہوئی ہیں ان کے نشانات کی طرف پروردگارِ عالم توجہ مبذول کرواتا ہے توآدمی دو چند طرح سے حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال دے کر اصل حقیقت کی طرف رجوع کرونگا۔ قرآن مجید کی سورہ سباء میں قوم سباء کی شان و شوکت کے بارے میں ارشاد ربانی ہے۔(ترجمہ) قوم سبا کے لیے ان کے اپنے وطن میں قدرت کی نشانی موجود تھی یعنی تین سو مربع میل تک باغ ہی باغ تھے جو ان کے دائیں اور بائیں جانب تھے اور ان سے کہہ دیا گیا کہ خوب کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو، رہنے کو پاکیزہ شہر ہے اور رب معاف کرنے والا ہے۔
چونکہ قوم سبا نے اس خوشحالی اور طیب زندگی پر ناشکری کی تو ان کی دوسری عبرت مندانہ حالت کا تذکرہ یوں ہوا ہے۔
(ترجمہ) ناشکری کر کے ، انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیاتو ہم نے بھی ان کو حقیقت سے افسانہ بنا کر رکھ دیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے!
اس قسم کی متعدد نشانیوں کا تذکرہ موجود ہے۔
بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ ابریشم کی صنعت میں چین کی سبقت کا معاملہ کیا ہے؟ اور یہ کہ حقیقتاً شاہراہِ ابریشم کے حقیقی خطوط کونسے ہیں۔ میرے ایک نہایت ہی قریبی ریسرچر دوست صادق مسعود صاحب نے اس بارے میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کی ہے۔ چنانچہ میرے ذوقِ تحقیق نے مجھے ان تک رسائی کا موقع دیا اور میں نے ان سے بہت کچھ پایا۔ سلک یعنی ریشم اس کی تجارتی سرگرمی چین سے شروع ہوئی اور دنیا کے مختلف حصوں تک چین کا یہ ریشم پہنچے لکا تو چین کے ساتھ تجارتی رابطے دنیا کے دور دراز کے ممالک کے ساتھ ہونے لگے۔ اس مقصد کے لیے قدیم ناپختہ راستوں پر جو قافلے، گھوڑوں، اونٹوں ، خچروں اور گدھوں کے ذریعے چلنے لگے تو ان راستوں کو شاہراہِ ابریشم کہاجانے لگا (سلک روٹ) ”تکلہ مکان” جو کہ ناقابل عبور صحرا تھا یہ تجارتی قافلے اس حصے کو بھی عبور کرتے۔ اکثر قافلے مشرقی ترکستان سے ہو کر چین جاتے تھے۔ چین کا خطہ ”سنکیانک” جہاں مسلم اکثریت ہے یہ لوگ زیادہ تر ریشم کی صنعت سے وابستہ تھے اور ان کے (ژینگ جان) ساتھ دور دراز کے لوگوں کے رابطے ہوتے تھے جس کی وجہ سے اسلامی قدریں بھی پھیلتی گئیں یہاں سے ریشم کی خریداری ہوئی اور پھر سمرقند، خوقند، بلخ اور بخارہ اور وسطی ایشیاء کے دوسرے حصوں سے ہو کر یہ ریشم ایران پہنچنے لگا خاص کر ایران کے شہروں تبریز اور اصفہان تک یہ ریشمی قافلے جاتے۔ سمرقند سے جو دوسرا راستہ نکلتا وہ ترکی کی طرف کھلتا تھا قونیہ اور استنبول تک قافلے پہنچنے لگے۔ ازبکستان جو پہلے ہی سے صنعتی اور تمدنی شہر تھا، وہاں ریشم سے مختلف پارچہ جات تیار ہونے لگے۔ اس صنعت نے مزید ترقی کی تو پھر چین سے ریشمی قافلے جرمنی اور اٹلی تک پہنچنے لگے اور پھر وہاں سے ہو کر سپین تک اس صنعت نے ترقی کی جو کہ آخری حد تھی۔ جہاں جہاں یہ ریشمی قافلے پہنچنے لگے ان راستوں پر تمدن پھیلنے لگا اور تمدنی زندگی سے لوگوں میں تہذیبی رجحانات پیدا ہونے لگے۔ ریشم سے ہر علاقے میں مختلف قیمتی پارچہ جات کے علاوہ دیگر اشیا بھی بننے لگیں جس سے ہنر وفن نے ترقی کی اور شاہراہ ابریشم کہا جانے لگا چونکہ یہ ہنر و کسب چین کے ساتھ مخصوص تھا اس لیے چین کی طرف سے جس خطے کے ساتھ بھی مواصلاتی رابطہ ہوا وہ بھی ابریشم کے نام سے منسوب ہوا۔ موجودہ شمالی علاقہ جات میں سے گزارے جانے والی دریائے سندھ کے ساحل کے ساتھ ساتھ چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے جو سڑک تعمیر کی ہے اسے بھی اس علاقے کو فن وصنعت کے ساتھ جوڑ کر شاہراہ ابریشم کہا جانے لگا۔ غرضیکہ ابریشم یا ریشم کی صنعت و فروخت جو کہ چین کے ساتھ مخصوص رہی ہے یہ صنعت جہاں پہنچتی رہی وہاں وہاں ہنر و کسب کے نئے نئے در کھلتے رہے جس سے تمدنی اور تہذیبی ارتقا ہوتا رہا ۔ ایک تلخ حقیقت جس کا اظہار ضروری ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ شاہراہ ابریشم پر ہمارے علاقہ کوہستان کی جو حدود ہیں وہاں تک تا دم حال تمدنی اور تہذیبی حالت کا فقدان المیہ سے کم بات نہیں حالانکہ ان کے مقابلے میں ترکستان کے وہ علاقے جو کہ بربریت اور بہمیت کی ایک علامت سمجھے جاتے تھے ان تجارتی سرگرمیوں نے ان میں بھی تہذیبی اور تمدنی انقلاب بپا کیا ہے۔ آج جبکہ شاہراہ ابریشم سے متعلق بڑے بڑے اہل دماغ یہاں موجود ہیں اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں کوئی متفقہ لا ئحہ عمل مرتب کرینگے خاص کر اس کوہستانی علاقے کی ہمسائیگی میں ہزارہ یونیورسٹی کا قیام اور پھر خصوصیت کے ساتھ یونیورسٹی کے شعبہ آثارِ قدیمہ کے لیے یہ ایک چیلنج ہے جس کے قبول کرنے سے اس علاقے میں تنویر تمدن و تہذیب کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ اپنے اس عندیے کا اظہار میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بنی نوع انسان نے اپنے منصبِ نیابت کے فرض کی تکمیل خدائی تخلیق میں شرکت کر کے اس طرح کی کہ اقبال جسے یوں بیان کرتے ہیں:
توشب آفریدی چراغ آفریدم
سیال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان وکہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
اے پروردگار تو نے رات کا اندھیرا بنایا تو میں نے اندھیرے میں روشنی پیدا کرنے کے لیے چراغ بنا دیا۔ اے پروردگار تو نے مٹی کی تخلیق کی تو میں نے مٹی کو کیچڑ میں بدل کرکے اسے پیالہ بنایا۔ تو نے بیابان، بھدے پہاڑ اور چٹیل میدان بنائے میں نے ان سے آبادیاں، گلستان اور باغیچے بنا دئیے۔
من آنم کہ ازسنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
وہ میں ہوں کہ تیرے نو کیلے اور کھردرے پتھر کو تراش و خراش کر کے اسے آئینہ بنا دیا۔ اور وہ میں ہی ہوں کہ جس نے تیرے زہر دار پودوں کو کشید کر کے انہیں تریاق بنا دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زمانہ قبل از تاریخ کے اہل فارس کے بادشاہ کیومرث کے پوتے افروال نے انسانی آبادیوں میں شاہراہوں اور قلعوں کی تعمیرات کی داغ بیل ڈالی جسے اس کے جانشین ہو شنگ پیشدادنے درجہ کمال تک پہنچا کر باقاعدہ طور پر ملکوں اور قوموں کے ساتھ مواصلاتی رابطوں کا ذریعہ بنا دیا جس سے انسانی تمدن و تہذیب کی کونپلیں شجرِ گلستانِ حیات میں پھوٹنے لگیں۔ ہم نتیجتاً یہ کہہ سکتے ہیں یہ کہ اس تاریخ ماضیہ کے ماتھے پر اس قسم کی شان و شکوہ کی حامل تہذیبیں منقش تو ہیں مگر اجڑے اور ویران دبستانوں میں سامانِ عبرت کی نشان دہی کر رہی ہیں