روتے ہوئے ’’شام‘‘ کا دُکھ کون سنے گا!

فارینہ الماس Farina Almas
فارینہ الماس

(فارینہ الماس)
کچھ ایسی دینی کہانیاں بھی ہیں جوکم عمری میں ہی ہمارے علم کا حصہ بن جاتی ہیں جیسا کہ بچپن سے ہی ہر مسلمان بچہ ،جو نسبتاً ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولتا ہے اس کے لئے سب سے ذیادہ دلچسپ یہ مذہبی پیش گوئیاں ہوتی ہیں جو اسے ایک کہانی کی صورت سنائی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ قربِ قیامت میں حضرت امام مہدی حجاز مقدس سے ہجرت فرما کر ملک شام کی مقدس سر زمین پر قیام اور مسلمانوں کی قیادت کریں گے۔حضرت عیسیٰؑ کا نزول بھی اسی علاقہ یعنی دمشق کے مشرق سے ہو گا ۔ کافروں اور مومنوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہو گی۔پھر مومنین ،کافروں کو چن چن کر ماریں گے اور یہ جنگ جیت جائیں گے ۔ایسا ہو گا یا نہیں یا یہ کب ہوگا یہ تو معلوم نہیں لیکن آج واقعتاً ملک شام گھمسان کے میدان کا منظر ہی پیش کر رہا ہے۔ لفظ شام جسے عربی میں سوریا اور انگلش میں سریا کہا جاتا ہے سریانی زبان کا لفظ ہے جو حضرت نوح ؑ کے بیٹے سام بن نوح سے منسوب کیا جاتا ہے ۔حضرت نوحؑ کے بعد حضرت سامؑ اسی علاقے میں آباد ہوئے تھے۔پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کی سرپرستی میں یہ ایک متحد خطہ تھا جس میں شام ،اردن ،لبنان اور فلسطین شامل تھے۔بعد ازاں انگریزوں کی پالیسیوں سے انہیں تقسیم کر دیا گیا ۔لیکن تاریخ میں اس کے حوالے متحدہ خطے کے طور پر ہی ملتے ہیں۔اس خطے کی فضیلت کا سبب یہاں بہت سے انبیاء اور رسل کا مبعوث فرمایا جانا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ ،حضرت لوطؑ ،حضرت داؤدؑ ،حضرت سلیمان ،حضرت اسحاقؑ ،حضرت یحییٰ ؑ اور دوسرے کئی انبیاء کے لئے اس سرزمین نے مسکن اور مدفن کا درجہ پایا ۔اسی لئے اسے عیسائیوں،مسلمانوں اور یہودیوں میں یکساں اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بہت سے جید علماء اور فقہین و محدثین کا تعلق بھی اس سرزمیں سے تھا۔اسلام کی آمد کے بعد اس خطے نے اسلام کا استقبال بہت گرمجوشی سے کیا اور بہت جلد اپنی زبان بھی سریانی سے بدل کر عربی اپنا لی۔ملک شام کی فضیلت اور اہمیت پر متعدد احادیث موجود ہیں اور قرآن پاک میں بھی اس کے حوالے موجود ہیں ۔قیامت کی بڑی اور واضح نشانیوں کا ظہور اسی مقدس سرزمین سے ہوگا ۔دجال،یاجوج ،ماجوج جیسے فتنے اسی سرزمین پر ختم کئے جائیں گے۔یہ وہ سرزمین ہے جہاں ابو عبیدہ بن الجراحؓکے لشکر کے ہاتھوں یرموک کو فیصلہ کن شکست ہوئی۔جہاں سیزر ہر یکولیس اپنا یہ تاریخی جملہ کہتے ہوئے رخصت ہوا کہ
’’سلام اے ارض شام ! اب کبھی تجھ سے ملاقات ممکن نہیں ‘‘
حضرت عبداللّہ بن حوالہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہو جائیں گے ۔ایک لشکر شام میں ہوگا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔‘‘ ابن حوالہ نے فرمایا ’’یا رسول اللّہ اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں ۔؟‘‘آپؐ نے فرمایا ’’تم سرزمین شام کو سکونت کے لئے اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام اللّہ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔اللّہ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘‘ایک اور جگہ آپؐ فرماتے ہیں’’جب بھی شام میں فتنے ابھریں گے وہاں ایمان میں اضافہ ہو گا‘‘ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’میری امت میں ایک جماعت حق کے لئے لڑتی رہے گی اور قیامت تک حق انہیں کے ساتھ رہے گا ‘‘ نبیؐاکرم نے اپنے ہاتھ سے ملک شام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا ’’ شام والو ! تمہارے لئے خیر اور بہتری ہو۔شام والو! تمہارے لئے خیر اور بہتری ہو‘‘
شام کے شہر حمص میں خالد بن ولیدؓ،حضرت بلال حبشیؓ،سیدنا ابوذرغفاریؓ جیسی محترم شخصیات کے مزارات ہیں ۔یہاں کربلا کے شہدا بھی دفن ہیں۔یہ صدیوں سے اسلام کا گہوارہ ہے۔اس کا دارالحکومت دمشق دنیا کا قدیم ترین دارالحکومت ہے ۔جو ہزاروں سال سے مسلسل آباد رہا۔جس کے جاہ و جلال سے قیصرو کسرٰی لرز ہ بد اندام ہو جایا کرتے تھے۔صدیوں تک یہ ملک آرٹ اور ثقافت کا خوبصورت امتزاج نظر آتا رہا جہاں قدیم تاریخی عمارتیں اور مقامات دنیا کی مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے ملاپ کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی رہیں۔قدیم اسلامی تہذیب و تمدن کے اثرات کبھی یہاں سے مٹ نہ سکے۔اس کی قدیم ترین مسجد ،مسجد اموی مسلمانوں ،عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔لیکن اس خطہ ارضی کی قسمت میں تاریخ کا وہ انمٹ دکھ بھی لکھا گیا جب اس کے بازاروں میں شہداےء کرب و بلا کے سر مبارک طشتریوں میں رکھ کر جلوس کی شکل میں لائے گئے۔یہیں یذید کا دربار لگایا گیا۔اس طرح اس کی فضا میں مسلمانوں کی باہمی منافرتوں کی ہوا کچھ ایسی چلی کہ وقتی طور پر تھم توگئی لیکن اپنا اثر زائل نہ کر سکی۔
موجودہ دور کا شام 1946ء میں فرانس سے آزاد ہوا۔اس کی آبادی دو کروڑ ہے ۔جن میں اکثریت عربوں کی ہے۔سنی کل آبادی کا 80فیصد جب کہ شیعہ 20فیصد حصہ ہیں۔موجودہ صدی میں شام انسانیت اور انسانوں کے ایک بہت بڑے قبرستان کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ تقریباً پانچ سال کی خانہ جنگی میں چار لاکھ پچاس ہزار بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اب تک تقریباً پانچ لاکھ انسان اپنے ہی جیسوں کے ہاتھوں دئے گہرے گھاؤ کھا کر منوں مٹی تلے دفن ہو چکے ہیں۔اور ہزاروں شہری زخموں سے چور ہو چکے ہیں ۔ شام کی کل آبادی کا 43 فیصد حصہ ہجرت کے آزار سہہ چکا ہے۔اڑہائی ہزار لوگ دربدری کے اس عزاب سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار بیٹھے۔ملک شام کے اس حالیہ بحران نے دس لاکھ سے ذیادہ لوگوں کو غذائی قلت کا شکار بنایا ۔ہر گھر اجڑے ہوئے بھولے بسرے چمن کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ شام کے اس حالیہ بحران کی جڑیں آج کے حادثات تک ہی پھیلی ہوئی نہیں بلکہ اس موجودہ جنگ و جدل کی جڑیں ماضی میں پیوستہ ہیں ۔باہمی منافرتوں اور رنجشوں کا بیج بہت پہلے بو دیا گیا تھا۔ہبہ الدباغ کی خود نوشت ’’خمس دقائق و حسب میں دستا ویزی ثبوت فراہم کئے گئے ہیں کہ اس سلسلے کا آغاز دراصل آج سے چالیس سال پہلے ہی ہو چکا تھا جب 1970ء میں حافظ الا سد نے شام کی بعثی انقلابی حکومت کے سربراہ کواقتدار سے ہٹا کر خود حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔اس نے اپنے وفاداروں سے مل کر اپنا اقتدار مستحکم کیا اور روس سے اپنی دوستی کو بڑھایا۔اپنے دور حکومت کے دوران اس نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ مخالفین کو قتل کروایا جس میں چالیس ہزار علماء کرام بھی شامل تھے۔عوام کی اچھی خاصی تعداد کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا ۔اس نے ایک ایسی سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی جو مذہب سے وابستہ افراد کو کچلنے کے لئے کام کرنے لگی۔اس کے دور حکومت میں ہر نوجوان کے لئے تقریباً دو سال فوج کی تربیت لینا ضروری تھا۔اور ان دو سالوں میں انہیں بے دین بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی۔جس کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جاتے۔اسرائیل سے قربت پیدا کی گئی ۔اسی کے دور حکومت میں جولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں چلی گئیں۔آج بھی شام کی فوج کے نچلے درجے میں اکثریت سیکولر فوجیوں کی ہے جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور جو مسلمانوں کو شہید کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔اس نے مغربی کلچر اور اشتراکیت کو فروغ دیا۔اس دوران عوام میں حکومت مخالف جذبات کو بھی پنپنے کا بھرپور موقع میسر آیا اور ایسے جذبات کی بیخ کنی کے لئے حکومت نے اپنی طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا ۔1982ء میں حمص کے مسلمان نصیری مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ان پر ٹینکوں سے حملہ کیا گیا ۔حافظ الاسد 2000ء میں جان لیوا بیماری سے لڑتے ہوئے ملک عدم سدھار گیا تو بشارالاسد نے پیرس سے آ کر حکومت سنبھال لی۔ 2011ء میں جب مصر میں کامیاب انقلاب آیا اور حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا گیا تو شام میں بھی انقلاب نے سر اٹھایا لیکن ان باغیوں پر حکومت نے ٹینک چڑھا دیئے۔مظالم کا اصل آغاز ’’درعا‘‘ میں ایک سکول کے بچوں کے واقعے سے ہوا ۔جب وہاں ایک اسکول کی دیوار پر لکھے حکومت مخالف نعروں کے ردعمل کے طور پر بشار الاسد کی انٹیلی جنس کے کارندے سکول کے معصوم بچوں کو اٹھا کر لے گئے اور جب قبائلی افراد نے انہیں بچوں کو چھوڑنے کی درخواست کی تو انہیں کہا گیا’’ ان بچوں کو اب بھول جاؤ اور نئے بچے پیدا کرواور اگر نہیں کر سکتے تو اپنی بیویوں کو ایک رات کے لئے ہمارے پاس بھیجو‘‘ان الفاظ سے قبائلی لوگوں کی غیرت کو للکارہ گیا تھا سو یہ تنازعہ آگ کی طرح پھیل گیا۔قبائلیوں کے ردعمل کے بعد فوج نے حمص،درعا اور ادلب میں خون کی ہولی کھیلی۔توپوں اور میزائلوں سے شہریوں کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا۔بشار الاسد نے انسانی حقوق اور عوامی آذادیء رائے کو صلب کر کے رکھ دیا۔امریکہ نے اس کے خلاف پابندیاں لگانے کا قدم اٹھایا۔اس طرح بشار الاسد کی امریکہ میں موجود جائیداد کو ضبط کر نے کے علاوہ دیگر پابندیاں لگا دیں۔یورپی یونین نے بھی شامی حکومت کے اپنے ہی عوام کے لئے ظلم و ستم کا رویہ اپنانے کے ردعمل میں اس پر پابندیاں لگا دیں ۔۔اس دوران شام کے اندر جمہوریت کے نظام کے حصول کے لئے عوام کی گروپ بندی ہونے لگی ۔ایک طرف امریکہ حکومت کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا جب کہ دوسری طرف چائنہ اور روس کی طرف سے اسے سپورٹ کیا جانے لگا۔ ایران،روس اور حزب اللّہ نے شامی حکومت کو بھرپور مدد فراہم کی۔
ان ممالک کی مداخلت سے اب شام کی خانہ جنگی محض ایک خانہ جنگی نہیں رہی بلکہ یہ روس اور ایران کے لئے پاور گیم بن چکی ہے جسے کھیلنے کے لئے وہ بشارالاسد کی ہر ممکنہ مدد کر رہے ہیں۔ 2013ء میں بشارالاسد مخالفین پر کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کر چکا ہے جو کہ سراسر ایک جرم اور سنگین ظلم کی مثال ہے۔بشارالاسد اپنے اس جرم کی دنیا کو یہ تاویلیں پیش کرتا رہا کہ اگر اس کی حکومت ناکام ہو گئی تو شام پر اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہو جائے گی جو کہ خود عالمی امن کے لئے بھی ایک شدید خطرہ کا باعث ہو گی ۔شام کی حالیہ صورت حال کا سب سے ذیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے ۔ان بیرونی طاقتوں کی ملی بھگت سے ہی متعدد عسکری تنظیمیں ان کے اجرتی قاتلوں کی شکل میں شام میں موجود ہیں ۔خود داعش بھی ایسے ہی اجرتی قاتلوں کی ایک شکل ہے جنہیں ان کے مقابلے کے لئیے تیار کر کے شام میں داخل کیا گیا،اس نے مقامی نوجوانوں کو اپنی تنظیم میں شامل کر کے شیعہ آبادی کو بے دردی سے قتل کیا۔ان کے غیر انسانی اقدامات جیسے ذبح کرنا ،آنکھیں نکال دینا ،ذندہ جلانا اور ان ظالمانہ افعال کی ویڈیو بنا کر دہشت پھیلانا ہیں۔جنہیں دیکھتے ہوئے شاید ہی کوئی انہیں مسلمان تو کیا انسان بھی سمجھتا ہو ۔یہ لوگ مسلکً وہابی مانے جاتے ہیں۔شام میں تباہی و بربادی کی رہی سہی کسر اسی ’’اسلامک اسٹیٹ ‘‘ یا دوسرے لفظوں میں داعش نے پوری کر دی ہے ۔رہی سہی قدیمی عمارات اور عجائب گھروں کی توڑ پھوڑ اور قیمتی نوادرات کی فروخت سے انہوں نے پیسہ بنایا لیکن شام کی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو کبھی نہ پورے ہونے والا نقصان پہنچا دیا۔کہا جا رہا ہے کہ یہ قدیمی سامان ذیادہ تر اسرائیل کے بازاروں میں دکھائی دیتا ہے۔
الغرض یہاں سنی،وہابی ،شیعہ کے نام پر وہ خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کا شکار بے گناہ اور نہتے شہری ہو رہے ہیں۔اس قتل و غارت گری نے شام کو ایک مقتل گاہ بنا کر رکھ دیا ہے جہاں روز انسان بے دردی سے قتل ہوتے ہیں ،جہاں روز صبح و شام کربلا کا میدان سجایا جاتا ہے اور معصوم ،بے گناہوں کے سر حالات کی ستم گار طشتریوں میں دھرے جاتے ہیں ۔ہر ماہ اوسطاً چار سے پانچ ہزار لوگ مارے جارہے ہیں۔ہزاروں ڈاکٹر بھی قتل ہو چکے ہیں ۔ہر ہسپتال اجڑ کر رہ گیا ہے۔ حلب کے تازہ واقعات میں مرنے والوں کی زیادہ تر تعداد معصوم بچوں پر مشتمل ہے ۔اور زخموں سے چور بھی ذیادہ تر بچے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ہسپتالوں میں آپریشن کے لئے یا زخموں کو سینے کے لئے انستھیزیا کے انجکشن بھی دستیاب نہیں ۔ان معصوم بچوں کی کتنی دلسوز آہیں اور تکلیف بھری چیخیں ہوں گی وہ جو کھلے زخموں کو سینے کے دوران ابھرتی ہوں گی ،جنہیں سن کر ان کی ماؤں کے کلیجے پھٹ جاتے ہوں گے ۔ایسے کئی مناظر بھی کیمرے کی آنکھ ہمیں دکھاتی ہے جس میں بے بس و بے کس مائیں اپنے بچوں کے لاشے اٹھائے بین کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
شامی حکومت اقوام متحدہ تک کو متاثرہ علاقوں میں غذائی امداد پہنچانے سے روک دیتی ہے تاکہ محصورین کے حوصلے پست کئے جاسکیں اور عالمی برادری پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔دس لاکھ سے ذیادہ شامی بھوک اور افلاس میں مبتلا ہیں۔لوگ گھاس پھوس کھا کر خود کو ذندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سنا ہے کہ آفت زدہ علاقوں میں بلی، کتے،خرگوش اور پرندے تو کیا درختوں کے پتے بھی ختم ہو چکے ہیں۔عالمی ادارے کہتے ہیں کہ ہمیں غذا پہنچانے سے روکا جا رہا ہے کمال کی بات ہے کہ ضرورت پڑنے پر آپ طیاروں سے گولہ بارود تو انسانی آبادی پر اتار سکتے ہیں لیکن روٹی نہیں۔ انتہائی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ تصادم عالم اسلام کی بے حسی اور بے مروتی کا شکار ہو چکا ہے ۔اسلامی ممالک عدم یک جہتی کا تو بری طرح شکار ہیں ہی ،ان کے اندر انسانیت کا احساس بھی مر چکا ہے ۔وہ اپنے اندرونی مسائل کی گھمبیرتا میں بھی اس قدر الجھ کر رہ گئے ہیں کہ خود اپنی مدد کے بھی قابل نہیں رہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے حالات کو اپنی طاقت بنا کر دوسرے ممالک اپنے مفادات کی گیم کھیلنے لگتے ہیں۔کوئی طاقتور بننے کے لئے اور کوئی دوسرے کی طاقت چھیننے کے لئے لاشوں کی سیاست کر رہا ہے لیکن ان کی مدد کو کوئی آواز نہیں ابھرتی۔ شامی عوام حافظ الاسد کے لبرل یا غیر مذہبی کردار سے کہیں زیادہ اس کی طویل اور بے ثمر حکمت عملیوں سے بے زار ہو چکے تھے ۔اس نے ایک طویل دور حکومت کے دوران سیاسی و معاشی ترقی کے لئے کوئی پالیسی نہ اپنائی اور جب سسٹم ڈلیور نہ کر رہا ہو تو عوام کی سسٹم اور حکومت سے نفرت کو جواز مل جاتا ہے اسی لئے اس سے چھٹکارے کے بعد پھر سے ایک طویل مدت کے لئے اس کے بیٹے کو برداشت کرنا عوام کے بس کی بات نہ رہی تھی۔دوسری طرف حافظ الاسد نے ایک خاص فرقے کو سپورٹ کر نے کے ساتھ ساتھ ملک کے اکثریتی فرقے پر ظلم و ستم ڈھا کر گروہی و نسلی تعصب کو بھی ہوا دی اور ملک کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا جس کا خمیازہ آج معصوم اور بے قصور سویلینز کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ شام میں تصادم کی صورت حال کا خاتمہ اب آسان نہیں رہا کیونکہ اس خاتمے کے ساتھ ساتھ مزید کچھ ایسے عوامل بھی ہیں جن پر سوچے بغیر شام اپنے بحران سے نہیں نکل سکتا مثلاً،وہ مہاجرین جو مہاجرت کے عذاب کا ٹنے پر مجبور ہیں انہیں اس دربدری سے چھٹکارہ چاہئے اس کے لئے انہیں شام میں پر امن ماحول درکار ہے تاکہ وہ پھر سے اپنے ملک میں آباد ہو کر کاروبار زندگی نئے سرے سے چلا سکیں۔
دوم ،شام میں ان چار پانچ سالوں میں بشارالاسد کے ظالمانہ اقدامات سے انتہا پسندی نے اپنی جڑیں جس قدر مضبوط کر لی ہیں ان سے نپٹنا بھی قدرے دشوار ہو گا لیکن ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔اور سب سے اہم شام کے شہری وقت کی جن ستم ضریفیوں کا ان چند سالوں میں شکار ہو چکے ہیں انہیں زندگی کی طرف دوبارہ لانے کے لئے انہیں نفسیاتی و جذباتی اور معاشی مدد کی ضرورت ہو گی۔لیکن یہ سب تو اس وقت ممکن ہو پائے گا جب شام کو امن نصیب ہو گا۔ عالمی طاقتوں کو اس کے لئے سب سے پہلے بشارالاسد کو رضاکارانہ طور پر حکومت سے علیحدہ ہونے پر مجبور کرنا ہو گا ۔شام کی دوسری اہم ضرورت جمہوری نظام ہے جو ان مسائل سے نپٹنے کا اہل ہو ۔ان سب اقدامات سے کہیں ذیادہ یہ بات اہم ہے کہ آج مسلمانوں کو جس قدر ایک مشترکہ ثقافت اور شناخت کی ضرورت ہے شاید ماضی میں بھی اتنی نہ تھی کیونکہ اب گروہ بندیوں اور نسلی تفریق اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے جو عالم اسلام کو کھوکھلا کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ اپنی جہالت،تفرقات ،اپنے مسائل اور تضادات کے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ بیرونی دنیا ہمیں ہمارے مسائل سے نپٹنے میں مددگار بنے گی تو یہ محض ہماری خام خیالی ہے ۔کیونکہ ان کے لئے سب سے اہم خود ان کے مفادات اور سلامتی ہے۔ان کے امن اور سلامتی کو ان کے خیال میں سب سے زیادہ خطرہ اسلامی انتہا پسند تنظیموں سے ہے ۔اس وقت شام میں بھی ان کی دلچسپی محض انتہا پسندوں کی بیخ کنی ہے ۔جلتے ہوئے اور سسکتے ہوئے انسان نہیں ۔اپنے اسی مفاد کے لئے امریکہ اور روس اس محاذ پر ایک ہو رہے ہیں ۔اور اگر انہیں خود کو لاحق خطرہ ٹلتا ہوا محسوس نہ ہوا تو لازماً اسی اتحاد کو وہ شام پر بمباری کے لئے استعمال کریں گے اور سب کچھ نیست و نابود کر دیں گے ۔کیونکہ وہ پہلے بھی عراق کی اپنی ایک ’’ غلط فہمی ‘‘ کی وجہ سے اینٹ سے اینٹ بجا چکے ہیں۔اور انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ مسئلے کا یہ حل شام میں اترتی دکھ کی کالی رات کو اور کتنا خون آشام بنا دے گا۔۔۔۔