وہ مقامی کھیل اور رسمیں جو متروک ہو گئیں (حصہ اول)

مقامی کھیل اور رسمیں جو متروک ہو گئیں

وہ مقامی کھیل اور رسمیں جو متروک ہو گئیں (حصہ اول)

از، ذوالفقار علی

کسی بھی علاقے کے مقامی کھیل اس خطے کے سماجی اور ثقافتی میلان کو سمجھنے میں

تحریر: ذوالفقار علی

ایک اہم کڑی ہوتے ہیں۔ کھیلوں کی نوعیت سے ہم اُس علاقے کے عمومی رجحانات اور آپسی جُڑت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ عالمگیریت وجہ سے مقامیت اور اُس سے جُڑے سماجی، سیاسی، معاشی اور نفسیاتی بحرانوں نے انسان کو ایک ایسے المیے سے دوچار کیا جس کی وجہ سے وہ اجتماعی شعور جس کی جڑیں مقامی مٹی میں تھیں بڑی تیزی سے رو بہ زوال ہوتی گئیں اور انسان اپنے ارد گرد سے لا تعلق ہو کر ایسے تناظر کا حصہ بنتا چلا گیا جس کا پس منظر استعمار اور سرمائے کی مرضی اور سوچ سے جُڑا تھا۔

اس پیچیدگی نے مقامی سماج کی مختلف جہتوں اور رجحانات کو اس بُری طرح سے متاثر کیا کہ بیشتر لوگ اپنی ہی مٹی اور ماحول سے کٹتے چلے گئے۔ جس کی وجہ سے مقامی لوک دانش، ماحول سے آشنائی اور سماجی ڈھانچے بُری طرح متاثر ہوئے۔ عالمگیریت کی اس وبا نے لوگوں کو بہت ساری مُفت کی خوشیوں سے محروم کر کے اُن کو ایک ایسے مخمصے میں ڈال دیا جہاں اپنی اپنی شناخت کا بحران واضح انداز میں ابھر کر سامنے آیا۔

اس سارے قصے میں مقامی کھیل بھی اپنی اپنی موت مر گئے اور اُس کی جگہ ملٹی نیشنلز کے سپانسر شدہ کھیلوں نے لے لی۔ گُلی ڈندے کی جگہ کرکٹ نے لےلی، ڈاں کی جگہ ہاکی نے سنبھال لی اور پٹھو گرم کی جگہ بیس بال آگیا۔ ایسے بہت سارے مقامی کھیل جو مقامی خام مال کو استعمال کر کے آسانی سے کھیلے جا سکتے تھے اُن میں فیکٹریوں سے بنا ہوا میٹریل استعمال ہونے لگا جس کی وجہ سے وہ غریب لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں طبقاتی پہلو بھی در آیا۔ معاشی طور پر بہتر طبقہ اور لوگ ان کھیلوں میں استعمال ہونے والے میٹیریل کو خرید کر اپنی سُپرمیسی ثابت کرنے لگےاور جو طبقہ ان کھیلوں سے جُڑے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا وہ یا تو اُن سے دب کے رہنے لگا یا انھوں نے کھیلنا ہی چھوڑ دیا۔
اس رُجحان نے پھر امیر اور غریب کے سٹیٹس کو اُبھارا دیا اور آہستہ آہستہ کھیل غریبوں کی پہنچ سے نکل کر امیروں کا چونچلا بن گیا۔ گالف ، ٹینس ، چیس، ریسلنگ ، سکواش، جیپ ریلی، سائیکلنگ اور اس طرح کے بہت سے کھیل سٹیٹس سمبل بن گئے۔ میں اکثر اپنے بزرگوں سے پوچھتا ہوں کہ ہمارے علاقے میں مقامی طور پر اب کھیلوں کے حوالے سے اتنا قحط کیوں پڑ گیا ہے تو وہ کوئی جواب دینے کی بجائے اپنے اپنے وقت کے کھیل گنوانا شروع کر دیتے ہیں اور اُن کھیلوں کے نام لیتے ہوئے اُن کی آنکھوں اور لہجے میں جو تراوت ہوتی ہے وہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔

پچھلی رات میں اپنے گاؤں گیا ہوا تھا تو مجھے کچھ بزرگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ لوگ اپنے وقت کی سب سے زیادہ کس چیز کو  حسرت کے ساتھ یاد کرتے ہیں تو اُن کا جواب تھا کہ ہمارے وقت کے کھیل اور رسمیں بہت مزے مزے کے ہوتے تھے۔ جن کو آج بھی ہم یاد کر کے اپنے آپ کو جوان محسوس کرنے لگتے ہیں اور اُن کھیلوں سے جُڑی خوشیاں اور یاداشتیں ہم نے اپنے دل اور دماغ میں سمبھال کی رکھی ہوئی ہیں۔

میں نے پوچھا کچھ ایسے کھیل اور رسمیں جو اب ناپید ہو چلی ہیں اُن کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں۔ تو ایک بزرگ پہلے ہنسے اور پھر ٹھنڈی سانس لے کے چُپ ہو گئے۔ پھر کچھ توقف کے بعد گویا ہوئے، یار وہ کھیل اور رسمیں اب شاید پسماندگی کا استعارہ بن گئیں ہیں، تم لوگ اُن کے بارے میں جان کے کیا کرو گے۔ میں نے ضد کی کہ آپ ان باتوں کو چھوڑیں مجھے اپنے ماضی میں لے جائیں اور بتائیں کیا ہوتا تھا۔ انہوں نے مجھے بہت ساری باتیں بتائیں میں تفصیل میں نہیں جا سکتا مگر کچھ بہت دلچسپ کھیل اور رسمیں جو انہوں نے بتائیں وہ میں آپ سے شئیر کرتا ہوں۔

باہر دو باہونڑ (باہر جا کے حاجت پہ بیٹھنا)1

یہ بہت دلچسپ کہانی ہے۔ دیہات کی عورتیں سارا دن محنت مزدوری کرتی تھیں اور کرتی ہیں۔ بچوں کو پالنا، گھر کی صفائی کرنا، کھانے پکانے کی ذمہ داریاں نبھانا، کپڑے دھونا، مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا اور چارہ کاٹنا یہ سب کام عورتوں کے فرائض میں شامل ہوتا تھا اور اب بھی ہے۔ اس سارے کام کاج کے بعد وہ شام کو جب تھوڑی فری ہوتی تھیں تو طلوع غروب کے بعد انہوں نے اجتماعی حاجت ( واش روم) کیلئے بستی سے باہر مل کر جانا ہوتا تھا۔ اس کام کیلئے وقت اور جگہ بستی کے باہرباقاعدہ مختص ہوتی تھی۔ طلوع آفتاب کے بعد وہ اس جگہ پر اکٹھی ہوتی تھیں اور پھر حاجت روائی کے ساتھ ساتھ دن بھر کی خبریں اور کہانیاں بھی وہاں زیربحث لاتی تھیں اور دل کھول کر اپنا کتھارسز کرتی تھیں۔ یہ سرگرمی ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک چلتی تھی۔ اس سارے عمل کو غیرت اور واش روم کی دیواروں میں چُنوا دیا گیا۔ اب دیہات کی عورت اپنا کتھارسز مختلف اور منفی انداز میں نکالتی ہے۔

۲مُذکر مُذکر ملنڑ (مذکر کا مذکر سے ملنا)

یہ کتھارسز نکالنے کا مردوں کا ایک طریقہ ہوتا تھا۔ اس سوچ کے پیچھے مردوں کی جنسی طاقت کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنی انا کو جھنجھوڑنا شامل تھا۔ ہوتا یوں تھا جب ایک مرد دوسرے مرد کو جس کو وہ کئی دنوں سے نہ ملا ہو اور اُس کے ساتھ دیرینہ دوستی بھی ہو دور سے آتا ہوا دیکھتا تھا تو بائیں ہاتھ کو اپنی دایاں بازوں کی کہنی کے نیچے رکھ کر مُٹھی بند کر کے ایک خاص نشان بنا کر زور زور سے سینے پر مارتا تھا اور ساتھ ساتھ اونچی آواز میں گدھے کی آواز نکال کر اپنے دوست کا سواگت کرتا تھا اور یہ عمل دونوں طرف سے ہوتا تھا۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔