ایڈورڈ منچ کا دی سکرین

edvard munch norwegian painter aikrozan
ایڈورڈ منچ

ایڈورڈ منچ کا دی سکرین

از، فرحت ابنِ اسرائیل

ایڈورڈ مَنچ سِنہ 1863 میں، ناروے کے شَہر کرِسٹیانیا (حالیہ اوسلو Oslo) میں پَیدا ہُوئے۔ مَنچ کا بچپن غُربت اور بیماریوں کے درمیان کٹا۔ اُن کی ماں اور ایک بہن ایک بیماری کے سَبب چَل بَسیں۔ اُن کے والِد اور دادا، اَضمحلال (depression) کے مریض تھے۔ اُن کا ایک بھائی پھیپھڑوں کے نمونیے سے فَوت ہوئے اور بعد میں ایک بہن ’سکِٹژوفرینیا‘ (Schizophrenia) کا شِکار ہُوئیں۔ مَنچ خود بھی کافی بیمار رہے، اور بیماری کے انھی دَورانیوں میں سے کسی ایک کے دَوران، بستر پر پڑے رہنے کی اَذِیَّت سے چُھٹکارا پانے کی خاطِر مُصوری (painting) شروع کی۔

بعد میں جب مَنچ نے با قاعدہ مُصَور بننے کا اِرادہ ظاہِر کیا تو اُن کے والِد نے،جو کٹر عیسائی تھے، اُن کے اِس خَیال کی مخالفت کی اور اُنھیں بتایا کہ ہمارے عقیدے میں مُصَوِّری کی مُمانِعَت ہے اور یہ بھی کہ مَنچ کی ماں اور بہن کی وفات ہمارے اَیسے ہی گُناہوں کا نتیجہ ہے۔ مَنچ کے اس صُعوبَت زَدہ بچپن نے بَلوغت میں اُن کا پیچھا نہ چھوڑا اور بعد میں اُن کے کام پر بھی اَثَر اَنداز ہوتا رہا۔

اُن دِنوں (1914-1863) یورپ کے شَہروں میں صَنعتوں کے فَروغ (Industrialization) کے سبب ذرائع معاش میں بدلاؤ کے سبب مُسابَقَت، ذہنی تناؤ، معاشی عدمِ مُساوات، مستقبل کے حوالے سے خدشات، بیماریاں، سیاسی عدمِ استِحکام اور شَہر کاری (urbanisation) کے سَبب خاندانوں کی تقسیم اور بنیاد پرستی جَیسے عناصِر کا دور دورہ تھا۔ امیر امیر تر ہو رہا تھا اور غریب غریب تَر اور اِسی لیے کرِسٹیانیا میں کھانا، کمانا اور گُذر بسر مشکل ہو چکا تھا۔

ایڈوردڈ مَنچ Edvard Munch کا اَوّلین کام حقیقت پَسندی (Realism) پر مشتمل تھا۔ بعد 1884 میں، اَنارکسٹ قلم کار ’ہانس اِیگر‘ (Hans Eæger) کے بوہیمین سرکل میں شامِل ہو گئے۔ جہاں ہانس اِیگر کے خَیالات نے مَنچ کو مذہب کو خَیر باد کہنے اور حقیقت پَسندوں کے بورژوا فنی اور اَخلاقی اُصولوں کو توڑ کر، اپنے ہی خالِص نفسیاتی اور جذباتی طَرز کو قائم کرنے پر اُکسایا۔ اُس وقت پیرس آرٹ کا قبلہ و کَعبہ تھا۔ لہٰذا سنہ 1885 میں تأثریت (Impressionism) کا اِنقلابی کام دیکھنے کے لیے پیرس گئے۔

ذاتی اُسلُوب (style) کی تلاش کے حوالے سے پیرس میں قِیام مُفید اور تجرِباتی حوالے سے زَرخیز رہا۔ سنہ 1889 دوبارہ پیرس گئے تو اُس وقت ایفِل ٹاور بن چکا تھا اور وان گوخ نے ستاروں بَھری رات Starry Night کو مکمل کیا تھا۔

مَنچ کو وان گوخ کے جذباتی اور معنی خیز برَش وَرک نے کافی متأثر کیا اور اُنھوں نے پال گوگین کے اَثرات بھی خاصے گہرے جذب کیے۔

edvard munch
ایڈورڈ منچ

سنہ 1892 میں جرمنی کے ایک آرٹ آرگنائزر نے منچ کے کام کی نمائش کی۔ یہاں پر نارویجن مُصَوِّر کے کام کو غَیر مکمل، خشک اور گَنوارو سَمجھا گَیا۔ ہفتے کے اندر ہی نمائش کو لَپیٹ لیا گَیا۔

پیرس ہی میں سویڈش ادیب آگسٹ سٹرِنڈ بَرگ سے دوستی کا رِشتہ اُستوار ہُوا اور اس کے بعد مَنچ کتابوں اور اَدَب میں اپنے لیے اِنسپَریشن ڈھوننے لگے۔ سنہ 1890 میں ’زندگی، مَحبّت اور مَرگ‘ کے خَیالات پر مشتمل Frieze of Life کے عنوان سے بائیس فَن پارے بنائے، جن میں The Scream بھی شامل ہے۔

 اِس فن پارے کا مرکزی کِردار، ایک پُل پر کَھڑا، چیخ مارتا ہُوا کھوپڑی نُما صورت کا حامل ہے۔ مرکزی کِردار کے پیچھے، تھوڑے فاصلے پر، دو اور لوگ دِکھائی دے رہے ہیں۔ پسِ منظر میں کھیت اور اُن کے اُوپر تیز سُرخ اور زَرد رنگوں پر مشتمل آسمان ہے۔

 تصویر میں ذہنی صدمے اور فریبِ نظر کے تجربے سے متأثر ہو کر کسی خوف زدہ مرکزی کِردار کو دکھایا گیا ہے، جو بَہ یَک وقت نُطفہ یا جَنین کی یاد دلاتا ہے، جو اپنے آس پاس کے گہرے اداس رنگوں میں مدغم ہو رہا ہے بلَ کہ انسان کے وجودی اَحوال کے ماحول کے ساتھ اِدغام کو بھی پیش کرتی ہے۔

ایڈوررڈ مَنچ 22 جنوری، 1893 کو اِس تخلیق بارے اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں:

ایک شام مَیں اپنے دوستوں کے ہم راہ راستے پر جا رہا تھا۔ … سورج غُروب ہو رہا تھا کہ اچانک آسمان خون رنگ سُرخ ہو گَیا۔ میرے دوست چلتے رہے، لیکن مَیں وہیں کَھڑا، خوف و دِہشَت سے کانپتا رہا۔ اور تَب میں نے فِطرت کی نا ختم ہونے والی وُسعتوں کے پار جانے والی چیخ سنی۔ مجھےواضِح طور پر (فطرت ہی کی) چیخ سنائی دی۔ مَیں نے اِس تصویر کو پینٹ کیا، بادلوں کو حقیقی خون کے طور پر پینٹ کیا… اِس طرح یہ The Scream بنی۔

چیخ (The Scream) در اصل انسانی نفسیات اور فِطرت کے باہمی تعلُّق کو بیان کرتی ہے۔ یہ شَہروں کے اَندر اجنبِیّت (alienation) اور ہُجوم میں غیر معمولی تَنہائی کو بیان کرتی ہے۔ تصویر کا مَرکزی کِردار مَنچ خود نہیں، بَل کہ یہ فِطرت ہی کی تَجسیم ہے اور خود یہ کِردار ہی فِطرت ہے۔

the scream Edvard Munch
the scream دی سکریم

یہ تصویر تین حِصّوں پر مشتمل ہے: پُل، کھیت اور آسمان

مرکزی کِردار خم کھایا ہُوا ہے، جِس کی وجہ سے وہ اپنے پسِ منظر کے کھیتوں اور آسمان کے اُفقی رنگوں کے ساتھ گُھلا مِلا اور ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ تصویر میں موجود باقی دو کِردار (مَنچ کی ڈائری کے مطابِق، اُن کے دوست) مرکزی کِردار کی نِسبت سیدھے یا عُمودی ہیں، جو مرکزی کردار سے تھوڑے فاصلے پر مصروفِ گُفت گو ہیں۔ مرکزی کِردار کے ساتھ اُن کا طبیعی فاصلہ در اصل جذباتی دُوری کی عَلامَت ہے۔

اِس طرح یہ دونوں کِردار، مرکزی کِردار کے مقابلے میں فراموش گاری (obliviousness) کی عَلامت ٹھہرتے ہیں ۔ اگر تصویر سے اِن دو کِرداروں کو نِکال دیا جائے، تو تصویر میں تنگ جگہوں کا مریضانہ خَوف اور اَجنَبِیّت کے گہرے احساسات غائب ہو کر، تصویر میں موجود معنویت کے پَھیلاؤ میں کمی کا باعِث بَن جاتے ہیں؛ گہرے احساسات غائب ہو کر، تصویر میں موجود معنویت کے پَھیلاؤ میں کمی کا باعث بن جاتے ہیں۔

 آئل، ٹیمپرا اور پَیسٹل سے بنائی گئی اِس تصویر کو دو وُجوہ کے سبب سَستے کارڈ بورڈ پر بنایا گیا ہے: ایک تو یہ کہ وہ قیمتی مواد استعمال نہیں کر سکتے تھے، دوسرا یہ کہ تصویری سطحات کا بصری لَمس (texture) کا احساس اُن کے کام اَہم حِصّہ تھا۔ اِس فن پارے کا مرکزی دِہشَت زَدہ کِردار، اِس فن پارے کا حِصّہ بننے سے پہلے اور بعد میں، مَنچ کی بَنائی گئی چند اور تصاویر میں بھی جلوہ گر رہا ہے جِن میں Evening on Karl Johan Street (1892) اور Anxiety (1894) اَہم ہیں۔

آرٹ کے حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تصویر مَنچ کا اپنا فن کارانہ پورٹریٹ ہے، جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1889 میں فرانس میں ہونے والے عالمی میلے میں نُمائش کے لیے پیش کی گئی، فرعون کی ایک ممّی سے ماخوذ ہے، جِس میں مَنچ نے بھی شرکت کی تھی۔ تاہم بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ اِس تصویر کا ماخذ، مَنچ کی بڑی بہن صوفیہ کی مَوت ہے۔

ایڈورڈ مَنچ Edvard Munch نے اِسی خیال اور کِرداروں پر مبنی اِس تصویر کو چار بار بنایا؛ یعنی دو تصاویر کو سنہ 1893 اور باقی دو تصاویر کو سنہ 1895 اور 1910 میں بنایا۔ 2012 میں، نیویارک کے ’ساؤتھ بی‘ نیلام گھر میں 1895 والی تصویر پر بارہ منٹ کی بولی میں، یہ تصویر پَچَھتّر مِلین پاؤنڈ (ایک سو بیس مِلین ڈالر) میں فَروخت ہوئی۔