جبری شادیوں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، علامہ طاہر اشرفی 

forced marriages forced conversions in pakistan
forced marriages forced conversions in pakistan

جبری شادیوں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، علامہ طاہر اشرفی 

اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر اور چیئرمین پاکستان علماء کونسل علامہ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ اسلام میں جبری شادی اور جبری مذہب کی تبدیلی کی کوئی اجازت نہیں اور جبر کے ساتھ نکاح واقع ہی نہیں ہوتا۔ 

انھوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی ساتھ غیر انسانی اور ناروا سلوک کی وجہ سے بھارت اقلیتوں کے لیے کا جہنم بن چکا ہے۔ 

ان خیالات کا اظہار انھوں نے  اسلام آباد میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے زیرِ اہتمام نیشنل ڈائیلاگ سے خطاب میں کیا۔ تقریب سے  شیعہ علماء کونسل پاکستان کے نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کی سیرت چیئر کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمان، ڈائریکٹر پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن رومانہ بشیر، ہندو کیمونٹی کے رہ نما روہیت کمار ایڈووکیٹ اور ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان کے صدر سبوخ سید نے بھی خطاب کیا۔

حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ اسلام اور پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو یک ساں حقوق دیتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ کسی کو مذہبی منافرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں انتہا پسندانہ رحجانات میں بڑی حد تک تبدیلی آ چکی ہے، تاہم مکمل خاتمے میں وقت لگے گا۔ 

انھوں نے کہا پڑوسی ملک ہندوستان کی جانب سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر فیک اکاؤنٹس کی مدد سے ہر سال فرقہ وارانہ مواد ڈال کر آگ لگائی جاتی تھی، لیکن اس بار حکومت اور فوج نے ان اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا۔ 

حافظ طاہر محمود اشرقی نے کہا کہ ہندوستان جب محرم میں فرقہ واریت پھیلانے میں ناکام رہا تو اس نے پاک فوج اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ توڑنے کی سازشیں شروع کر دیں۔

حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ ہندوستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والے مقدس شخصیات کی توہین کے واقعات ایک سوچی سمجھی سازش ہیں۔ مودی سرکار اس طرح کے اقدامات سے خطے میں اشتعال انگیز فضا قائم کر کے پُر امن ماحول خراب کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بار بھارت کی اس نا پاک جسارت کو مسلم ممالک، عرب ممالک  سمیت یورپی ممالک کی جانب سے سختی کے ساتھ نا پسند کیا گیا ۔ انھوں نے کہا مودی سرکار مذاہب کی توہین کر کے انتہا پسند جتھوں کو مضبوط کر رہی ہے تا کہ وہ اپنے انتہا پسندانہ بیانیے کو تقویت فراہم کر سکے۔ 

حافظ طاہر محمود اشرفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کا آئین، قانون اقلیتی برادری کو مکمل حقوق دیتا ہے، تمام مکتبِ فکر اور مذاہب نے ہمیشہ اقلیتی برادری کے حقوق کی مسلمہ حقیقت کو نہ صرف تسلیم کیا بل کہ ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ مسلمانوں کو جمعہ سے، مسیحی برادری کو ان کی تقاریب سے روکا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت میں امام حسین علیہ السّلام کی یاد میں محرم الحرام میں کسی تقریب کی اجازت نہیں دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ محرم میں ایک طرف بھارتی قابض فوج کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہی تھی دوسری طرف اسرائیل فلسطین پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لئے کوئی ایسا کرے تو ہمیں اس کے سامنے کھڑا ہونا ہو گا۔ 

انھوں نے کہا کہ چند لوگ اپنے مفادات کی خاطر مذہب کا استعمال کرتے ہیں جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ “گزشتہ سال مجھے چھ مسیحیوں پر توہین رسالت کے مقدمے کے بارے علم ہوا تو ہم نے اس جھوٹے مقدمہ کو ختم کرایا۔ اب بہت حد تک بین الاقوامی دنیا سمیت بیرون ملک کے سفیروں پر واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان اقلیتی برادری کے حوالے سے محفوظ ملک ہے، انتہا پسندی کا مرض ختم کرنے میں ابھی بھی وقت لگے گا کیوں کہ یہ چالیس سالہ پرانا مرض ہے۔ پیغامِ پاکستان پر پندرہ ہزار علماء کے دست خط ہیں جو انسانیت کے لیے ہیں کہ جیو اور جینے دو۔ 

علامہ عارف حسین واحدی نے کہا کہ قوم کو متحد رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مکالمے کی جانب بڑھا جائے۔ قرآن مجید کا واضح فرمان ہے کہ آپس میں مت لڑو ورنہ تم تقسیم ہو گے۔ پاکستان کے خلاف اس وقت مختلف سازشیں ہیں۔ دستورِ پاکستان ہمارا مقدس اور متفقہ آئین ہے، جو بھی اس ملک میں بین المذاھب ہم آہنگی اور بین المسالک ہم آہنگی کو نقصان پہنچائے گا وہ ملک دشمنی کرے گا،اس طرح کے مذاکرے، مکالمے اور ملکی وحدت کے لیے ایسے تھنک ٹینک ضروری ہیں۔ 

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں تمام مکتبِ فکر اور طبقات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، اس وقت ملک کی جو صورت حال بنی ہوئی ہے اس کی بنیاد منفی سوچ ہےن جب حکم ران اور اپوزیشن ہی منفی سوچ کو دوام بخشیں گے تو عوام کدھر جائیں گے۔

علامہ اقبال یونی ورسٹی میں سیرت چیئر کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر صاحب زادہ ساجد الرحمان نے کہا کہ پاکستان میں ہمیں ایک ذمے دار شہری کا کردار ادا کرنا ہو گا اور ایسے عناصر پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو کسی طرف سے بھی معاشرے کو انتشار کی طرف لے کر جائے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام میں جبر کی شادی ہو ہی نہیں سکتی البتہ کوئی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرے تو اسے بھی روکا نہیں جانا چاہیے۔ 

رومانہ بشیر نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں مناظرے ہوتے ہیں لیکن مکالمے نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ ہم مناظروں میں نقطۂِ نظر میں جیتتے ہیں لیکن مکالموں میں انسانیت جیتتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مذاہب میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مذاہب میں بہت سے مشترکات ہیں ہمیں اس پر متحد ہونا ہو گا۔

روہت کمار ایڈووکیٹ نے کہا کہ بابائے قوم نے 11 اگست 1947 کو کہاتھا کہ آپ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ ہم نے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ہمیشہ ادا کیا ہے، ہمیں اپنے ملک کی اکثریتی برادری سے کوئی گلہ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں جو چند شر پسند یا انتہا پسند عناصر ہیں انھیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ انتہاء پسندی معاشرے کو کم زور کرتی ہے اسے جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔