تعلیم، کلچر انڈسٹری اور شخصی آزادی

Dr Shahid Siddiqui
ڈاکٹر شاہد صدیقی

تعلیم، کلچر انڈسٹری اور شخصی آزادی

از، ڈاکٹر شاہد صدیقی

تعلیم ایک پیچیدہ عمل ہے جو نہ صرف معاشرتی تبدیلیوں سے متاثر ہوتا ہے بلکہ معاشرے پر اپنے اثرات بھی چھوڑتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں تعلیمی سرگرمیوں، طریقہ ہائے تدریس، جائزہ اور پیمائش میں خاطر خواہ تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ تعلیم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بہت سے معاشرتی، معاشی، سماجی اور سیاسی اثرات نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایک تازہ ترین مظہر جس نے تعلیم کو متاثر کیا ہے وہ ہے نیو لبرل ازم (Neoliberalism)۔ یہ بنیادی طور پر ایک معاشی تصور ہے جس کے اجزاء میں کھلی منڈی، حکومت کی عدم مداخلت، لا متناہی منافع اور ملازمین کا استحصال شامل ہیں۔ کیونکہ نیو لبرل ازم کا اولین مقصد زیادہ سے زیادہ منافع ہے اس لیے تمام تر توجہ پراسس (process) کے بجائے پراڈکٹ (product) پررہتی ہے۔ نتیجتاً اقدار اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

نیو لبرل ازم کا براہِ راست اثر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظاموں پر ہوا۔ ٹیکنالوجی اور نیو لبرل ازم کے نتیجے میں سامنے آنے والی ثقافت کا تعلیم کے ساتھ گہر اتعلق ہے۔ تکنیکی ذرائع نے تعلیم کے ایک خاص برانڈ کوجنم دیا اور تعلیم کا مخصوص برانڈ (technical rationality) کی وکالت کرتاہے۔ کاروباری افراد اور صنعت کاروں کا بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ بننا بظاہر ایک خوش آئند عمل رہا۔ لیکن کیا یہ اتنا ہی خوش آئند عمل تھا؟ معروف ماہرِتعلیم ہل (Hill) کے مطابق ان صنعت کاروں کے پاس ایک تعلیمی منصوبہ بھی تھا اور تعلیم سے حاصل ہونے والے کاروباری مقاصد بھی۔

پاکستان میں نیو لبرل ازم کے اثرات گزشتہ دس سالوں میں زیادہ واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔ ایک قلیل مدت میں نجی تعلیمی اداروں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کی تعداد بہت کم تھی اور انہیں سماجی، فلاحی اداروں اور افراد کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان اداروں کا مقصد تعلیم عام کرنا تھا نہ کہ مالی فائدہ حاصل کرنا۔ لیکن گزشتہ دس سالوں میں نجی ادارے کاروباری مقاصد کے لیے بنائے جانے لگے ہیں۔

پاکستان میں چند ایک ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جن کا معیار بھی اعلیٰ ہے اور وہ مہنگے بھی ہیں۔ لیکن زیادہ ترنجی ادارے صرف پیسہ کمانے کی دوڑ میں بنائے گئے ہیں۔ تعلیم ایک بڑی صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے جس کی کثیر پیداوار ان اداروں سے کامیاب ہونے والے طلبہ ہیں۔ نیو لبرل ازم کے اس تعلیمی ماڈل میں اقدار اور اخلاقیات کی قطعاً اہمیت نہیں۔ کچھ نجی اداروں کا طرۂ امتیاز صرف ان کی ذیلی شاخوں کی تعداد ہے۔ یہ مخصوص صنعتی ماڈل ہے، جہاں معیار کا تعین ذیلی کارخانوں، پیداوار، کم خرچ اور زیادہ منافع کی بنا پر ہوتا ہے۔

اداروں کی زیادہ شاخیں ہونے سے اختیار اور مطابقت ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔ یکسانیت برقرار رکھنے کے لیے ان اداروں کے مرکزی دفاتر میں سبقی خاکے (lesson plans) اپنی تمام تر باریکیوں کے ساتھ تیار کیے جاتے ہیں اور تمام ذیلی شاخوں پر جوں کے توں پڑھائے جانے کے لیے بھیج دیے جاتے ہیں۔

مرکزی دفتر کے نمائندے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان سبقی خاکوں کو بغیر رد و بدل کے لاگو کیا جائے۔ اس قدر سخت پیروی اساتذہ کی تخلیقی سوچ کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ اس تمام کارگزاری کا اولین نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اساتذہ اپنی فکری صلاحیتیں استعمال نہیں کر سکتے، ان کی حیثیت ایک تکنیکی میکینک جیسی ہوتی ہے جس کی اپنی سوچ (reflection) کا تدریسی عمل میں دخل باقی نہیں رہتا۔

اساتذہ کے اس قدرمیکانکی کردار سے صرف یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اگلی نسل کو ایسا علم ہی منتقل کریں گے جو اس دور کی تکنیکی سوچ کے لیے معاون ثابت ہو۔ اس تکنیکی سوچ کے مطابق تعلیم کا مقصد اچھی نوکری ہے اور اچھی نوکری سے مراد ہے ایک منافع بخش نوکری۔ اسی لیے کمپیوٹر اور بزنس مینجمنٹ مقبول عام تعلیمی پروگرام ہیں۔ اس تکنیکی اورمیکانکی سوچ بچار میں فنی اور سماجی علوم کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ منافع بخش مضامین نہیں۔ اس تکنیکی سوچ کو بڑھاوا دینے کے لیے ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ذرائع ابلاغ ایک خاص طرح کے سماجی روابط کو پروان چڑھاتے ہیں۔

ایک زمانے میں سکول، معاشرہ اور اور گھر سماجی روابط کے اہم ذرائع مانے جاتے تھے۔ آج کل میڈیا سوچ اور بیانیہ بناتا اور بدلتا ہے، اور مخصوص رویوں اور متعصب تصورات کو پروان چڑھاتا ہے۔ اسی عمل ہی میں نظریات جنم لیتے ہیں اور نظریات کے ذریعے بتدریج ایک رائے عامہ قائم کی جاتی ہے۔

یہ رائے عامہ زبان زد عام تو ہو جاتی ہے لیکن افراد کی اپنی سوچ نہیں ہوتی، اور وہ یہ نہیں جانتے کہ مخصوص گروہ اپنی متعصبانہ سوچ کوکس طرح ایک خاص منصوبہ بندی سے ان کے ذہنوں میں اتار دیتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے اس عمل کو آسان اور تیز تر بنا دیا ہے اور زیادہ سے زیادہ افراد کے ذہنوں کو بھرپور طور پر متاثر کرنا ممکن ہو گیا ہے۔

جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ سکول اپنا وہ معاشرتی کردار ادا نہیں کر پائے جوانہیں کرنا تھا۔ اس کام کا بیڑہ ذرائع ابلاغ نے اٹھا لیا اور وہ ایک مخصوص طرز کی معلومات، تجزیات اور ثقافت کو پروان چڑھانے لگے۔ معروف ماہرینِ سماجیات ہورخیمر اور اڈورنو (Horkheimer & Adorno) نے اسے کلچر انڈسٹری کا نام دیا جو ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک خاص طرز کی ثقافت کو فروغ دے رہی ہے۔

پاکستان میں بھی اب یہ سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ عام انسان کی حیثیت ایک صارف کی ہے جو اس غلط فہمی میں رہتا ہے کہ وہ اپنی پسند اور نا پسند میں خود مختار ہے؛ در اصل ایسا نہیں۔ کھلی منڈیوں میں بھی یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ تمام مصنوعات انسانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بنائی اور بیچی جا رہی ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

اوڈورنو (Adorno) نے کلچرانڈسٹری کے بارے میں اپنی تحریر میں واضح کیا ہے کہ کلچرانڈسٹری میں صارف کو بادشاہ کے طورپر پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ صنعت کاری کے عمل میں فاعل نہیں مفعول کی حیثیت رکھتا ہے۔

سکولوں میں جس طرز کی تعلیم دی جا رہی ہے وہ بھی سوچ کی یکسانیت کو فروغ دیتی ہے اور ایک ایسی سوچ جو تکنیکی سوچ سے ہم آہنگ رہے۔ مارکوس (Marcuse) نے صنعتی ترقی حاصل کر لینے والے ممالک کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے اسے پُر آسائش، آرام دہ، قابل قبول، جمہوری غلامی قرار دیا ہے جو کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اسی ذہنی غلامی کا پرچار ترقی پذیر ممالک میں تعلیم کے ذریعہ ہو رہا ہے۔

تعلیمی اداروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج شخصی آزادی کا مقدمہ ہے۔ یہ آسان عمل نہیں۔ اس کے لیے مقاصد، حرکیات اور جائزہ و پیمائش کے طریق میں ایک جامع تبدیلی کی ضرورت ہو گی۔ ہمیں تعلیمی ادارے اور فیکٹری میں فرق کرنا سیکھنا ہو گا۔ پاکستان کے نجی ادارے کھلی منڈیوں کی مانند کام کر رہے ہیں۔ کئی حوالوں سے حکومتی دخل اندازی عوام کے مفاد میں بہتر ہو گی۔ جیسا کہ اساتذہ کے کام اور تنخواہ میں توازن اور ان کے استحصال کی روک تھام ۔

تعلیم اورانڈسٹری میں تعلق ہونا چاہیے لیکن تعلیمی اداروں کو محض کاروباری سوچ کے زیرِسایہ نہیں چلنا چاہیے۔ یہی سوچ ہمیں ایک بار پھرفنی اور سماجی علوم کی طرف راغب کرتی ہے جو بظاہر بہت کار آمد مضامین نہیں لگتے لیکن انسانی سوچ کی پروان کو بڑھانے کے لیے بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔

تعلیمی نظام کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہم جس ماڈل کے تحت یہ کام کر رہا ہے اسے مشہور ماہرِتعلیم فرارے (Freire) نے ”بینکاری نظام‘‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔ اگر ہمیں شخصی آزادی کے مقدمہ کے تحت تعلیم دینی ہے تو پھر اس ٹیکنالوجی کے ماتحت پنپنے والی سوچ کی جگہ تنقیدی سوچ کو دینی ہو گی۔ ایک تعلیمی نظام کی کامیابی یہ ہو گی کہ وہ آزاد سوچ رکھنے والی شہریت پروان چڑھائے جہاں ایک طرف فرسودہ تصورات پر اور دوسری طرف بے ہنگم ٹیکنالوجی کے استعمال میں پوشیدہ جدیدیت کے غلط العام نظریہ پر بھی سوال کیا جائے۔

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔