ملیر کے پرندے : چل اُڑ جا رے پنچھی یہ دیس ہوا بیگانہ

ملیر کے پرندے

ملیر کے پرندے : چل اُڑ جا پنچھی یہ دیس ہوا بیگانہ : چل اُڑ جا رے پنچھی یہ دیس ہوا بیگانہ

از، عومر درویش

ہمارے ارد گرد ایک خوب صورت دنیا بستی  ہے۔ بہت کم لوگوں کا اس طرف  البتہ دھیان جاتا ہے۔ ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہم اس خوب صورت دنیا کو تباہ ہوتے ہوئے محسوس نہیں کر رہے۔ اگرکوئی ہمیں کبھی کبھار قدرت کی اس خوب صورت دنیا کو دکھاتا ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ حقیقت میں یہ دینا کتنی خوب صورت ہے۔ اور اس کو کس بے دردی سے تباہ کیا جارہا کبھی بھی سوال نہیں کیا۔

اور ہم لوگ ہمیشہ ان عالی شان مقامات اور نئی ہاؤسنگ اسکیم کا سنتے ہیں، خوش ہوتے ہیں۔ صرف خواہش کرتے ہیں کہ ہمارا بھی ایک گھر یہاں ہونا چاہیے جب اس طرح کی ہاؤسنگ اسکیم کہیں بھی تعمیر ہو رہی ہو تو یہ ضرور سمجھ جائیے کہ اس ہاؤسنگ اسکیم کی تعمیر سے ایک ایسی دنیا اپنی آشیانوں سے بے دخل کیے جار ہی ہے اور اس خوب صورت دنیا کو تباہ کیا جارہا ہے۔ اور ہاں ان سوالوں کا جواب بھی خود ڈھونڈ لیں کہ ان ہاؤسیگ اسکیموں کو  کہاں تعمیر ہونا ہے؟ کس بنیاد پر ہونا چاہیے؟  آیا یہ ہاؤسنگ اسکیم جہاں تعمیر ہورہی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے تعمیر ہونے سے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا اس کا ماحولیاتی سروے ہوا ہے؟ اگر ہوا ہے تو کیوں عوام کو نہیں دکھایا گیا ہے؟

اس خوب صورت دنیا کو جو لوگ اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں وہ الگ الگ انداز میں دیکھتے ہیں اور اس کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرتے ہیں اور تاریخ بن جاتی ہے کہ شاید کل اس خوب صورت دنیا کو یہ بے حس لوگ تباہ کردیں اور ایسا ہوا بھی ہے۔ کیوں کہ انسان نے اپنی خوشی کے لیے اس دینا کی خوب صورتی کو تباہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک تو جلدی سمجھ گئے مگر ہمارے جیسے ملک میں تباہی مچی ہوئی ہے۔

کراچی کو تو پوری دنیا جانتی ہے پاکستان میں بھی لاکھوں لوگ ایسے ہوں گے وہ کراچی کو صرف ایک کنکریٹ کا جنگل سمجھتے ہوں گے۔ مگر کراچی کا ایک علاقہ ایسا بھی ہے جسے ملیر کہا جا تا ہے (ملیر اب ضلع ہے) سرسبز ہونے کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ جس کی اپنی ایک الگ شناخت ہے ( مگر راؤ انوار کی وجہ سے سارا پاکستان ملیر کے نام سے واقف ہوگیا ہے۔)

ملیر جوسیکڑوں پرندوں اور جنگلی جانوروں کا دیس ہے اتنا خوب صورت تھا کہ گورے نے بھی اس کی خوبصوتی اور دل کشی کی  وجہ سے اس علاقے کو گرین بیلٹ  کا نام دیا اور اس کے لیے ایسے قانون بنائے گئے کہ اس علاقے میں نہ انڈسریز بنانا جاہیں نہ ہاؤسنگ اسکیمیں(وائلڈلائف پروٹیکشن ایریا) مگر اس کو دیسی حکمرانوں میں  بھی ہمت نہ رہی کہ ان قانون کو بدل دیا جائے۔ مگر ایک مرد مجاہد آگیا جسے زرداری کے نام سے جانتے ہیں جس نے قانون کی دھجیاں اُڑا دیں اور ایسا ہوا کہ وائلڈ لائف کے علاقے جن کو وفاق تک کو بھی بیچھنے کے اختیارات نہیں وہ ایک بلڈر کو فروخت کردیے گئے (بلکہ قبضے کیے گئے۔)

45000 ہزار ایکڑ مطلب پورا ایک نیا شہر اور ان 45000 ہزار ایکڑ میں پرند چرند اور جنگلی حیوانات کی پوری ایک خوب صورت دنیا آباد تھی۔ جہاں شکار پر پابندی بھی ہو جہاں ہزاروں کی تعداد میں پرندے ہر سال ہجرت کر کے آتے ہیں اور ان چرند پرند کی  دنیا اور  جنگلات کو ایک سال کے اندر ملیا میٹ کردیا جائے اور ہماری اس خوب صورت دنیا کو تباہ و برباد کردیا گیا مگر ابھی وقت ہے ان غیر قانونی بستیوں کو روکنے کا۔ بحریہ ٹاؤن کراچی 45000 ہزار ایکڑ ڈی ایچ اے کراچی 25000 ہزار ایکڑ یہ دو ہاؤسنگ اسکیمیں وہاں تعمیر ہور رہیں جو کھیتر نشنل پارک اور وائلڈ لائف پروٹیکشں ایریا کہلاتے ہیں۔ جن کے لیے قانون بھی موجود ہیں۔

ابھی حال ہی میں مقامی وائلڈ فوٹوگرافروں نے ملیر کے مختلف علاقوں کی پرندوں کی فوٹوگرافی شروع کردی ہے۔ صرف کاٹھور( ہزار دو ہزار ایکڑ ڈی ایچ اے  پانچ چھ ہزار ایکڑ بحریہ نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے) کے علاقے میں ابھی تک 170 اقسام کے پرندے ریکارڈ کیے گئے ہیں، اور اس کے علاوہ  لنگھیجی، ہدر واہ  اور  بھولاڑی (ان علاقوں کے 70 فیصد علاقے بحریہ کے قبضے میں ہیں ان کے باقی ماندہ علاقوں میں بھی 200 کے قریب پرندوں کی اقسام ریکارڈ کی گئی ہیں۔

یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو حال ہی میں مقامی وائلڈ لائف فوٹوگرافروں نے ریکارڈ کیے ہیں۔ یہ آدھی تباہی کے بعد ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اگر نہیں روکا گیا تو ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ باقی بچے پرندے کہیں کوچ کر کے چلے جائیں گے اور ملیر محض تاریخ کے پنوں میں رہ جائے گا اور یہی لکھا ہوگا کہ ملیر بھی ایک زمانے میں سرسبز ہو شاداب تھا اور یہ بھی کسی زمانے میں وائلڈ لائف ہوا کرتا تھا جنگلات اور زراعت تھی۔

میں حیران ہوں سپریم  کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے 300 سے زائد اسٹے آرڈرز کے باوجود بھی پچھلے 3 سالوں سے تعمیراتی کام رُکا نہیں اور اس تعمیراتی کام میں مزید تیزی آگئی ہے۔ کیا سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ ملک ریاض پر عدالت کی توہین کا مقدمہ درج نہیں کر سکتا۔ نیب کی تحقیق کہاں تک پہنچی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سپریم کورٹ اور نیب کے فائلوں میں بھی ملک ریاض نے پہیے لگا دیے؟