چشمِ فیض کی التجا اور شعر و نغمہ کرونا پالیسی 

Naseer Ahmed, the writer

چشمِ فیض کی التجا اور شعر و نغمہ کرونا پالیسی 

از، نصیر احمد 

وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریصِ لذتِ آزار دیکھ کر

                                                        غالب

کووڈ انیس بیس کی بات ہو رہی ہے۔ اب آ ہی گیا ہے تو سینکڑوں پر رک کیوں گیا ہے؛ ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں کیوں نہیں؟ بڑی وبا بنا پھرتا ہے؟ ہم تو مائل بَہ کرم ہیں لیکن یہ بَچُّو تو تھک سے گئے ہیں۔ کچھ اس کنڈکٹر کی طرح ہے جو استاد کو تنگ گلی سے گاڑی نکالنے کی ہدایات دیتا ہے:

استاد آن دیو (آنے دو) آن دیو ،آن دیو، آن دیو

اور تھوڑی دیر بعد گاڑی دیوار سے ٹکرا جاتی ہے۔

بس قسمت اچھی ہی رہے اور کووڈ لذت آزار کے حریصوں سے کترا کے گزر جائے۔

ویسے گاڑی دیوار سے ٹکرا تو گئی ہے لیکن نقصان کم ہی ہو تو اچھا ہے۔

حکومت نے تو حدیقہ کیانی کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے پیار سوچ کر کرنے کی بے ہمتی نہیں کی اور زہر بھی دیکھ کر پینے کی ہمت نہیں کی۔ اور مومن عقل کوسوں پیچھے چھوڑتا مقامِ عشق پر ہنہنا رہا ہے۔ اور انقلابی بھی ‘بازو بھی بہت سر بھی بہت’ الاپتا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

شعر و نغمہ کے اثرات پالیسیوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی طرف توجہ دلا دیں تو شعر و نغمہ میں موجود تصورات کو گھٹ کر جپھیاں (پُر جوش معانقے) ڈالنے لگتے ہیں اور پالیسیوں سے والہانہ پیار جتانے لگتے ہیں۔

حکومت نے کہا کہ ایک دوسرے سے تھوڑا دور رہو کہیں  وبا نہ پھیل جائے

اور مولویوں نے او روروووووووو رو الا لالالالاکرتے ہوئے وہ معانقے کرنے شروع کر دیے کہ پپیاں جپھیاں (بوسے اور معانقے) بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔

میری خود سری کے خلاف ہے کسی چشمِ فیض کی التجا

تو مسیح دورِ رواں سہی،

میں مریضِ روح بَہ لَب سہی

کیسی کیسی حماقتوں سے شاعری گھمنڈ منسلک کر دیتی ہے۔