آئین کی ندیا کا پانی اور جنگل کا بادشاہ

Yasser Chattha, the writer

آئین کی ندیا کا پانی اور جنگل کا بادشاہ

از، یاسر چٹھہ

یہ کوئی لگ بھگ آج سے 13 سال پہلے کہ بات ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری کے فرسٹ فلور پر ایک خاموش سا گوشہ ہوتا تھا۔ اس جگہ مکالمے نہیں، بَل کہ صرف مطالعے ہی ہوتے تھے۔ اگر چِہ لائبریری کے باقی گوشوں میں کئی دل والے اور دل*** بہت سارے علوم بھی چند ایک منٹوں سیکنڈوں کے اندر حاصل کر جاتے تھے۔ (خیر، یہ کیا بیچ میں آ گیا۔)

خاموش گوشے کے اندر بھی عشق ہوتا تھا، لیکن یہ نا کاروں کے عشق ہوتے تھے۔ اس گوشہ میں اکثر بیٹھنا ہوتا تھا۔

جو کچھ یہاں بیٹھ کر پڑھا، ان میں سے ایک کتاب کل پرسوں سے یاد آ رہی ہے۔ اس کتاب کا ٹائٹل اور فہرستی صفحہ کسی طالبِ کار و نا کار نے اڑس لیے تھے۔ صفحات کے header اور footer نہیں تھے۔ یہ کتاب ایسے ہی تھی جیسے کوئی معلوم وجود، نا معلوم ہونے کے بعد پھر سے معلوم کے علاقے میں آ گیا ہو۔

یہ نا معلوم کا حوالہ وہ ہے، جسے ہماری کچھ برسوں سے ارتقاء میں آئی مشترکہ لفظیات میں گُم شدہ فرد اور با زیاب فرد کے تناظر میں باتا چِیتا جاتا ہے۔

جس نا معلوم و شاخت گُم شیدہ کتاب کی اوپر بات کر رہا تھا اس کتاب کو ایسے ہی ایک دن بیچ میں سے فال نکالنے کے سے انداز پڑھنا شروع ہوا، اور تین چار دن تک وقفوں وقفوں سے پڑھتا گیا۔

زبان انگریزی تھی، لکھنے کا انداز مغربی تھا۔ لیکن اساسی نوحہ وقت کی قید سے مبرا تھا۔ تہذیب کی تاریخ تھی، جس میں فلسفہ، ادب، سماجیات، سیاسیات، دینیات سب رنگ تھے۔ عمومی رنگ سیاسیات و فلسفہ اور بشریات کا تھا۔

کل پرسوں مست طاقت کے ایک ستارہ بخشیدہ سفیر کا طویل بیان سنا۔ کچھ آئین کی بات تھی۔ (جانے کیوں بی بی زینب علیہ السلام دماغ کے پچھلے حصے سے آنکھوں میں اتر رہی ہیں، اور یزید کی تمکنت ماتھے پر پسینے کی صورت بہہ رہی ہے، بس ایسے ہی۔ ہم اور کہاں جائیں، ان کے سوا ہم نے سنا اور بِیتا کیا ہے…، اے میرے قاری میرے پاگل پن کو، میرے خبطِ جذبات کو اپنے اندر کا انسانی و ما بعد انسانی لمحہ عطا کرنا، شکریہ۔ دو بارہ آگے کو چلتے ہیں۔)

آئین کی بات یقیناً اچھی بات تھی، بہ شرطِ  کہ آج تک اپنے آپ کو اکہرے شعور کی گُھٹّی سے ہی سِینچا ہوتا۔

دو بارہ اس کتاب کی طرف آتا ہوں۔ کوئی بات ایسی تھی کہ پرانے قبلِ مسیح و موسیٰ کے عہد کسی بد مست طاقت کا سفیر قانون اور آئین کی حیثیت بتاتے کہہ رہا تھا:

قانون و آئین تو کم زور کے دفاع کے لیے، طاقت ور کو ضبط میں رکھنے کو بنے تھے۔

اب کیا ہے؟

اب یہ ہے کہ کم زور تو آئین و قانون کے تحت ملے انسانی حق زیرِ لب اور زَبرِ لب رکھ کر بات کر رہا ہے۔

لیکن طاقت ور کم زور کو بار بار درس دے رہا ہے کہ آئین و قانون کی حد میں رہو۔ ایک سانس سے موجود بشر کو نا موجود بشر کر دینے کے ملال اور غیر قانونی حربے کو جنگ اور حرص میں سب جائز باور کرتا ہے، لیکن بکری کو کہتا ہے تم آئین و قانون کی ندیا کا  پانی جُھوٹا کرتی ہو۔

بکری تم باز آ جاؤ… تو پھر اس آس پر اس وقت تک خیر مناتے ہیں کہ شاید جنگل کا بادشاہ ذہن بدل لے۔ لیکن بکری تو اپنے بیٹوں کے متعلق بھی خام خیالی میں صدیاں گزار چکی….آہ۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔