کمیونزم اور فیمنزم : دو سوال

Shadab Murtaza
شاداب مرتضٰی ، صاحبِ مضمون

کمیونزم اور فیمنزم : دو سوال

از، شاداب مرتضٰی

سوال 1: کیا مارکس ازم اور فیمنزم ایک دوسرے سے موافقت رکھتے ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں؟

یہ بات درست نہیں کہ مارکس ازم اور فیمنزم ایک دوسرے کے موافق و مددگار ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی تضاد نہیں۔ مارکس ازم کے مطابق عورت کے استحصال کا سبب نجی ملکیت سے جنم لینے والا طبقاتی نظام ہے۔ اس لیے طبقاتی نظام کے خاتمے کے بغیر عورت کے استحصال کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ ہمارے عہد میں عورت کی نجات کا تعلق سرمایہ دارانہ نجی ملکیتی طبقاتی نظام کے خاتمے سے ہے۔

موضوعی طور پر خود کو کمیونسٹ سمجھنے والے ایسے افراد جو فیمنزم کے حامی ہیں معروضی طور پر فیمنزم کو اختیار کر کے ہمارے عہد میں عورت کے استحصال کے سماجی نظام کو یعنی سرمایہ دارانہ نظام کو نظریاتی دفاعی مورچہ مہیا کرتے ہیں کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ نجی ملکیتی طبقاتی نظام کو عورت کے استحصال کا سبب قرار دینے کے بجائے پدرسری نظام کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں جس سے یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ پدرسری نظام کے خاتمے سے عورت کا استحصال ختم ہوجائے گا۔

وہ اس معاملے میں اس بنیادی ترین سوال کا جواب فراہم نہیں کرتے کہ کیا پدرسری نظام کے خاتمے سے سرمایہ دارانہ نجی ملکیتی طبقاتی نظام ختم ہو سکتا ہے؟ مارکس ازم کے مطابق نجی ملکیت پر مبنی طبقاتی نظام نے پدرسری نظام کو جنم دیا ہے نہ کہ پدرسری نظام نے نجی ملکیتی طبقاتی نظام کو۔ نجی ملکیتی طبقاتی نظام پدرسری نظام کا سبب ہے اور پدرسری نظام نجی ملکیتی نظام کی پیداوار ہے۔  اس لیے پدرسری نظام کے خاتمے سے نجی ملکیتی طبقاتی نظام ختم نہیں ہوگا بلکہ طبقاتی نظام کے خاتمے سے پدرسری نظام اور عورت کا استحصال ختم ہوگا۔

مارکسزم/کمیونزم کے بارے میں یہ محض ایک شدید غلط فہمی ہے کہ کمیونسٹوں کی جانب سے فیمنزم کی تنقید کا مطلب یہ ہے کہ کمیونسٹ عورت کے استحصال کو نظر انداز کرتے ہیں اور اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے بالکل برخلاف، کمیونسٹ عورت کے استحصال کو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن وہ اس کی وجہ پدرسری نظام کو نہیں بلکہ پدرسری نظام کو جنم دینے والے نجی ملکیتی طبقاتی نظام کو سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں مارکس اور اینگلز کا نکتہ نظر بالکل واضح ہے۔

اگر طبقاتی نظام موجود رہے لیکن  پدرسری نظام کو ختم کر کے مادرسری نظام رائج کر دیا جائے تب بھی نجی ملکیت کی موجودگی کے سبب نہ مزدور و محنت کش عوام کا استحصال جاری رہے گا بلکہ مزدور و محنت کش عورتوں کا استحصال بھی ختم نہیں ہوگا اگرچہ یہ ممکن ہے کہ استحصال کی بعض عمومی شکلوں کا خاتمہ ہوجائے۔ سرمایہ دار اگر مرد کے بجائے عورت ہو تب بھی مزدور طبقے کا استحصال بلاتخصیصِ صنف جاری رہے گا۔

مثلا ملٹی نیشنل کارپوریشنوں میں چیف ایگزیکیٹو کے طور پر کام کرنے والی خواتین اپنے ملازمین کے استحصال میں وہی کردار ادا کرتی ہیں جو کہ مرد چیف ایگزیکیٹو کرتے ہیں۔ روس یا برطانیہ میں بادشاہ کی موت کے بعد حکمران بننے والی ملکاؤں نے اپنی رعایا کے استحصال کو بادشاہوں کی طرح ہی جاری رکھا۔ غلامی کے عہد میں غلاموں کے مالکوں کی بیگمات غلاموں کے ساتھ خواہ وہ غلام عورت ہی کیوں نہ ہو وہی سلوک کرتی تھیں جو ان کے شوہر کیا کرتے تھے۔

انسان کی جسمانی صنف اسے از خود اچھا یا برا نہیں بناتی بلکہ اس کی طبقاتی حیثیت اس کے سماجی کردار کا تعین کرتی ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔

کمیونسٹوں کا نصب العین صرف عورت کے استحصال کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ کرنا ہے جس میں عورت کے استحصال کا خاتمہ بھی ایک جزو کے طور پر شامل ہے۔ عورت کے استحصال کا خاتمہ بھی معاشرے سے ہر قسم کے استحصال کے خاتمے سے مشروط ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ معاشرے میں انسان کے ہاتھوں انسان کا ہر قسم کا استحصال تو موجود رہے لیکن عورت کا استحصال ختم ہوجائے۔

مارکس ازم نظریے اور عمل (تھیوری اینڈ پریکٹس) کا مجموعہ ہے۔ عورت کا استحصال کیوں اور کیسے ہوتا ہے یہ معاملے کا نظریاتی پہلو ہے۔ اس استحصال کو ختم کیسے کیا جائے یہ معاملے کا عملی پہلو ہے۔ عملی پہلو کی حیثیت سے کمیونزم عورت کے استحصال کے خاتمے کو طبقاتی نظام کے خاتمے کے اقدامات  سے یعنی سوشلسٹ انقلاب سے مشروط سمجھتا ہے اور چونکہ کمیونزم مزدور طبقے کی آمریت کا نظریہ ہے اس لیے عورت کے استحصال کے خاتمے کے لیے یہ اس معاملے میں مزدور طبقے کی عورت کے کردار کو کلیدی اہمیت دیتا ہے۔

مارکسزم عورت کے استحصال کے سوال کو عمومی انداز سے نہیں لیتا۔ مارکسزم کے نزدیک عورت کی نجات کا سوال بھی انسانی استحصال سے جڑے دیگر سوالوں کی طرح ایک طبقاتی سوال ہے اس لیے یہ عورت کی نجات سے مراد تمام طبقوں کی عورت کی نجات نہیں لیتا اور نہ ہی یہ عورت کے استحصال کے خاتمے کی جدوجہد میں تمام طبقوں کی عورتوں کو عملی جدوجہد کا محور و مرکز بناتا ہے۔

مارکس ازم کے نزدیک عورت کی نجات کا سوال مزدور طبقے کی عورت کی نجات سے مشروط ہے اور اس لیے مزدور عورت عورت کے استحصال کے خاتمے کی نقیب ہے۔ چنانچہ کمیونسٹوں کا فرض ہے کہ عورت کے استحصال کے خاتمے کے لیے وہ اپنی توانائیوں کو مزدور عورتوں کی تنظیم کاری اور انقلابی تربیت پر مرکوز کریں تاکہ وہ مزدور مردوں کے ساتھ مل کر سرمایہ دارانہ نظام کو تہہ و بالا کرنے اور اس کی جگہ غیر طبقاتی نظام کے قیام یعنی سوشلزم کے قیام کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

مارکسزم/کمیونزم/سوشلزم کےذریعے عورت کے استحصال کے خاتمے کے لیے جو “کمیونسٹ” فیمنزم کے نظریات و تصورات سے کام لیتے ہیں اور اس سوال کو طبقاتی تقسیم سے ماورا اور عمومی طور پر پیش کرتے ہیں وہ ہنوز اب تک سرمایہ دار طبقے کی آئیڈیالوجی یعنی لبرل ازم کے نظریاتی سانچے سے اپنے ذہن کو آزاد نہیں کر سکے ہیں۔ فیمنسٹ تھیوری میں تین بنیادی خرابیاں ہیں۔ اول یہ کہ یہ اس تاریخی حقیقت کو تسلیم نہ کرنے پر بضد ہے کہ قدیم معاشرے میں جب تک نجی ملکیت کا وجود نہیں تھا تب تک عورت اور مرد کی نابرابری بھی وجود نہیں رکھتی تھی۔ دوسری یہ کہ عورت کا استحصال نجی ملکیت اور طبقاتی نظام کے آغاز کے ساتھ وجود میں آیا۔ اور تیسری یہ کہ طبقاتی نظام (سرمایہ دارانہ نظام) کو ختم کیے بغیر عورت کا استحصال ختم نہیں کیا جا سکتا۔

فیمنزم نسوانی صنفی تعصب اور تنگ نظری پر مبنی نکتہِ نظر ہے جس کا منطقی نتیجہ معروضی طور پر عورت اور مرد کے درمیان موجود سرمایہ دارانہ سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی تقسیم اور خلیج کی مزید وسعت کی صورت میں نکلتا ہے۔

سوال 2: کیا معاشرے میں عورت سب سے زیادہ مظلوم ہے؟

یہ بات درست نہیں کہ معاشرے میں عورت ہی سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہے۔ اس قسم کے دعوے بذاتِ خود ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں قائم کرتے ہوئے معاشرے کی طبقاتی تقسیم کی بنیادی حقیقت کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ معاشرے میں مزدور اور محنت کش طبقے کی عورت استحصال کا شکار ہے جبکہ سرمایہ دار طبقے کی عورت مزدور و محنت کش طبقے کے مردوں سے زیادہ خوشحال اور با اختیار ہے۔

یہ بات سمجھنے کے لیے فی زمانہ حکمران طبقوں کی عورتوں کے طرزِ زندگی پر نظر ڈالنا کافی ہوگا باالخصوص ان عورتوں کے کردار پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجائے گی جو سیاست اور حکومت میں شامل ہیں۔ یہ خواتین اپنے صنعتی یا زراعتی کاروباری اداروں میں یا ملک کی صنعتوں اور زرعی شعبوں میں کام کرنے والی عورتوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں بلکہ ان کے معاشی استحصال کو قائم اور رواں رکھتی ہیں کیونکہ اپنی برتر سماجی حیثیت کو قائم رکھنے کے لیے مزدور اور دیگر محنت کش عورتوں کا معاشی اور سماجی استحصال کرنا حکمران طبقوں کی عورتوں کی طبقاتی ضرورت ہے۔

چنانچہ “عورت مظلوم ہے”، قسم کے عمومی تجریدی دعوے لبرل سرمایہ دارانہ فیمنزم کی منطق کا لازمی نتیجہ ہیں جو اس بنیادی سماجی حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ سماج میں انسان طبقوں میں تقسیم ہیں۔ ان کی طبقاتی نظریاتی حقیقت پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ دعوے کسی ایسے شخص کی جانب سے کیے جائیں جو خود کو “کمیونسٹ” کہتا ہے یا کسی ایسی سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سامنے آئیں جو خود کو “کمیونسٹ” سمجھتی ہے۔ ایک کمیونسٹ کو یہ سوال اس طرح رکھنا چاہیے کہ “کیا تمام عورتیں ظلم کا شکار ہیں؟” یا “کس طبقے کی عورت ظلم کا شکار ہے؟” یا “کس طبقے کی عورت سب سے زیادہ مظلوم ہے؟”