خرد نامہ شریف

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

خرد نامہ شریف

از، ملک تنویر احمد

جمہوریت لفظ جمہور یعنی عوام کی رائے پر منحصر حکومتی بندوبست ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی رہنما عوام کی رائے کو متاثر کر کے اقتدار کی راہداریوں میں قدم رنجہ فرماتے ہیں لیکن پاکستانی عوام کیونکہ اتنی باشعور نہیں ہے اس لیے یہاں فوجی آمر جمہوری حکومتوں کو تلپٹ کر کے ایک ایک عشرے تک اقتدار پر قابض ہو کر سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ میں نے بھی جب سیاسی میدان میں قدم رکھنے کا سوچا تو ایک فوجی آمر امیر المومنین کے روپ میں ملک و قوم کو اپنی اسلامائزیشن کے نعرے سے بہلا رہے تھے۔

والد صاحب مرحوم و مغفور اس وقت کی فوجی حکومت سے کافی راہ و رسم بڑھا چکے تھے اور اس حکومت کی تائید و حمایت بھی کھلے عام کرتے تھے۔والد صاحب نے فوجی حکومت کے کرتا دھرتاؤں سے مجھے سیاسی میدان میں اتارنے کی گفت و شنید کی تو مجھے فوراً سند قبولیت مل گئی۔ اگرچہ درسی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ کسی بھی شخص کو سیاسی میدان میں قدم جمانے کے لیے جمہور یعنی عوام کی تائید و حمایت درکار ہوتی ہے اور عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر وہ اقتدار میں آتاہے۔ تاہم مجھ پر قسمت کی دیوی مہربان رہی کہ مجھے عوامی اجتماعات میں جا کر عوام کو اپنے سیاسی نظریے سے متاثر کیے بغیر ہی ایک ایسی سیڑھی میسر آگئی کہ جس نے جھٹ سے مجھے اقتدار کے محل میں پہنچا دیا۔

فوجی آمر صاحب مجھ پر خاص مہربان تھے اور ان کے دست شفقت تلے میں اقتدار کی منزلیں پھلانگتا رہا۔ ان صاحب کی پدرانہ شفقت ہی تھی کہ وہ مجھے اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے اور ایک بار تو جناب والا! نے کھلے اجتماع میں مجھے اپنی روحانی اولاد قرار د ے ڈالا۔ اپنے بارے میں جناب والا! کے شفقت بھرے جذبات سے میں کچھ یوں مغلوب ہوا کہ میں نے بھی جھٹ سے بول دیا کہ میں آپ کے مشن کو آخری دم تک بڑھاتا رہوں گا۔میں جناب والا! کے دست شفقت تلے ترقی و کامرانی کے جھنڈے گاڑ ہی رہا تھا کہ ان کا پیغام اجل آن پہنچا۔ ان کی حادثاتی موت نے ان کے عزیز و اقربا کو تو دکھ سے نڈھال کیا ہی لیکن مجھ پر تو گویا غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔

ان کی ناگہانی موت نے میرے سر سے گویا سائبان ہی چھین لیاتھا۔ مجھ پر برسنے والی ان کی نوازشات کی جب بھی یاد آتی تو میرے دل سے جنت مکانی کے لیے مغفرت و عافیت کی دعا ہی نکلتی۔جناب والا! کی موت کے بعد اگرچہ اس وقت کی عسکری قیادت نے مجھے ہر طرح سے اطمینا ن و تسلی دلائی کہ ان کے مرحوم سپہ سالار کی موت کے بعد بھی وہ ان کی آنکھوں کا تارا بنے رہیں گے۔ اس سے میرے دل میں گونہ تسلی ہوتی مگر ’’وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘‘۔ان دنوں ایک سابقہ جمہوری رہنما جو میرے مرحوم مربی و محسن جناب والاکے ہاتھوں سولی لٹک گئے تھے ان کی دختر نیک اختر نے ملک کے کونے کونے میں سیاسی جلسوں کے ذریعے اپنے والد کے عدالتی قتل اور عوام کے حق حکمرانی کے تحفظ کی مہم چلائی ہوئی تھی۔

جب ان محترمہ کو عوامی انتخابات میں کامیابی نصیب ہوئی تو مجھ پر منکشف ہوا کہ عوام نام کی کوئی مخلوق بھی اس ملک میں بستی ہے اور جن کے کندھوں پر چڑھ کر آپ اقتدار حاصل کر سکتے ہیں تاہم اس وقت کے عسکری سرخیلوں نے مجھے تسلی دی کہ ان محترمہ کا اقتدار ایک عارضی شے ہے جب کہ اصل اقتدار ان کے پاس ہے۔ میرے دل میں اٹھنے والوں خدشات کے سامنے گویا پل سابندھ گیا ہو اور پھر جب ان محترمہ کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا کہ میرا ایقان مزید پختہ ہو گیا کہ میرے خیر خواہ صحیح فرما رہے تھے۔ اب کی بار انتخابات ہوئے تو مجھے کامیابی نصیب ہوئی اس کامیابی میں اس وقت کے عسکری سرخیلوں نے کس طرح میری راہ ہموار کی وہ صیغہ راز میں ہی رہتی لیکن خدا غارت کرے اس بنک اسکینڈل جس کے سبب وہ سارا پلان افشاء ہو گیا جس کے سبب مجھے اقتدار نصیب ہوا۔

اگرچہ میرا اقتدار بھی عارضی ثابت ہوا جب مجھے بھی مدت سے پہلے خارجِ اقتدار کر دیا گیا اور محترمہ کو دوبارہ اقتدار ملا لیکن میری امیدیں اس ادارے سے نہ ٹوٹیں اور میری امید پھر ثمر آور ہوئی جب مجھے پہلے سے زیادہ اکثریت سے اقتدار دیا گیا۔ اب اقتدار کے ذریعے میں ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا کہ میر ے مرحوم جناب والا! کے ادارے سے میر ے تنازعات نے جنم لیا جو پھر اقتدار سے میری بے دخلی پر منتج ہوا۔

اب تو مجھ پر ایسا کڑا وقت آیا کہ مجھے اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کے لالے پڑ گئے اور میں نے کچھ بیرونی دوستوں کے طفیل بیرون ملک جائے عافیت ڈھونڈی۔اس جلاوطنی کے دوران مجھ پر منکشف ہوا کہ عوام کے ووٹ کی طاقت کی بجائے میں جن قوتوں پر تکیہ کرتا رہا وہ کام نکل جانے کے بعد دودھ میں سے مکھی کی طرح بندے کو باہر نکال پھینکتی ہیں۔ میں نے اپنے ماضی سے توبہ تائب کی اور اپنی حریف محترمہ سے سیاسی تعلقات استوار کرنے کی ٹھانی جس میں مجھے آخر کار کامیابی نصیب ہوئی۔

ہم دونوں نے ایام جلاوطنی میں عوام کی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہونے والی جمہوریت کی پاسداری و حفاظت کے عہد و پیمان کیے۔ایام جلاوطنی ختم ہوئے مجھے اور محترمہ کو وطن واپسی کی اجازت ملی۔محترمہ عوام کے حق حکمرانی کے لیے اس وقت کے فوجی آمر سے ٹکرا گئیں اور پھر انہیں ایک سازش کے تحت صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ ان کی المناک موت نے مجھ پر بہت گہرا اثر چھوڑااور میں نے تہیہ کیا کہ میں محترمہ سے کیے گئے اپنے عہد کو ہر صورت نبھاؤں گا۔

محترمہ کے سیاسی وارث اقتدار میں آئے تو شروع شروع میں میں نے اس عہد کو نبھانے کی کوشش کی لیکن پھر کچھ ’’بہی خواہوں‘‘ نے مشورہ دیا کہ اگر آپ کو اقتدار میں دوبارہ آنا ہے تو محترمہ کے سیاسی وارثوں سے مفاہمت کی بجائے ان کی ٹانگیں کھینچنے کا کارنامہ انجام دیں۔ انسان غلطی کا پتلا ہے میں بہکاوے میں آگیا اور اس وقت کی جمہوری حکومت کے خلا ف خفیہ قوتوں کا کچھ ایسا آلہ کار بنا کہ محترمہ سے کیے گئے سارے عہد و پیمان ہو ا ہو گئے میں ان کے خلاف عدالتوں میں گیااورغیر مرئی قوتوں کے اشارے پر انہیں ملک و وقوم کے مستقبل کے لیے خطرہ قرار دیا۔

تاہم محترمہ کے سیاسی وارث نے حکومت کی مدت پوری کر کے ہی اقتدار میرے حوالے کیا جب مجھے انتخابات میں کامیابی نصیب ہوئی۔ اقتدار کے پہلے سال کے بعد ہی مجھے خطرات کا احساس ہو ا جب میرا ایک نیا سیاسی مخالف مجھ پر پوری شدت سے حملہ آور ہوا۔ دھرنے، احتجاج اور طوفان بد تمیزی کے بعد جب مجھے خارج اقتدار نہ کیا جا سکا تو مجھ پر کرپشن کے الزامات کے تحت عدالت میں کیس چلا۔ مجھے الزامات کے ثابت ہونے سے پہلے ایک کمزور مقدمے میں اقتدار سے نکال دیا گیا۔

اب مجھے احساس ہوا کہ عوا م کے حق حکمرانی کو روند کر جب غیر مرئی قوتیں کسی کو اقتدار سے باہر کرتی ہیں تو پھر کیسا شدید احساس درد رگ و پے میں دوڑتا ہے۔میں ماضی کے غلطیوں پر نادم ہوں اور اس کا برملا اظہار کرنا چاہتا ہوں لیکن ایک نامعلوم سی جھجک میرے آڑے آجاتی ہے۔اس لیے’’ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں ، توڑ دیتاہوں۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے‘‘۔