تانیثیت کی چوتھی لہر : حقائق و امکانات

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

تانیثیت کی چوتھی لہر : حقائق و امکانات

(اصغر بشیر)

۹۰ کی دہائی سے شروع ہونے والی تانیثیت کی تیسری لہر میں پوسٹ کولونیل اورپوسٹ ماڈرن  سوچ نے دخل اندازی کر کے  تانیثی بیانیوں کو مختلف پہلوؤں سے اثر انداز کرنے کی کوشش کی  جس کے نتیجے میں مختلف تصورات جیسے جینڈر، جسم، متضاد جنسیت اور آفاقی نسوانیت اس دور میں آکر عدم توازن کا شکار ہوگئے۔ متعین کردہ نسوانی اقدار کے خلاف بغاوتوں کا سلسلہ اسی لہر میں ٹوٹنا شروع ہوا  جب نوجوان فیمنسٹوں نے لپ اسٹک اور اونچی ایڑی کا استعمال شروع کرکے اپنے آپ کو دوسرے دور کے بیانیوں سے جدا کر لیا۔ اس کے بجائے انہوں نے خود کو ایک خود مختار شخصیت کے طور پر متعارف کروایا جو کسی کی وضاحت کے بجائے اپنا موضوع خود تھی۔انہوں نے  صنفی امتیاز کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے متبادل  بیانیے عورت کے بجائے مرد مرکز اصطلاحات دینے کی کوشش کی۔ انٹرنیٹ کے فروغ سے ایک طرف اس جدوجہد کو نئے محاذ ملے تو دوسری طرف اپنے مافی الضمیر کو کھل کر مباحثوں کا حصہ بنانے کا موقع ملا۔ اسی کے ساتھ ’’صرف عورتوں کے لیے ‘‘ جیسے مخصوص مقامات کے آغاز سے عورت کو اپنے صلاحیتوں کو نکھارنے اور منوانے کا موقع ملا۔

تانیثیت کی تیسری لہر اپنے آپ کو فیمنسٹ کہلانے سے اجتناب کرتی ہے  اور ایسی کسی بھی شناخت کو رد کرتی ہے جو ان کے سامنے امکانات کو محدود کر دے۔ یہ جنسیت، جینڈر اور شناخت کے تمام زمروں کو رد کرتے ہوئے اپنے آپ کو گلوبل اور کثیر سماجی ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔   یہ حقیقت کے متعین ساختوں اور طاقت کے تعلقات کے بجائے اس کو متحرک، وقتی اور علاقائی حیثیتو ں میں دیکھتی ہے۔ یوں تانیثیت کی تیسری لہر حدود کو توڑتی ہے۔

تانیثیت کی دوسری لہر کا دور کبھی ختم نہیں ہوا بلکہ تیسری لہر کے ساتھ ہی عوامی فورم پر دوسری لہر اور اس کے مقاصد پر گفتگو ختم ہوگئی۔ لیکن تدریسی اداروں، عورتوں کے مراکز اور جینڈر سٹڈیز میں آج بھی انہیں مسائل کو زیر بحث لایا جا رہا ہے جو ماضی میں دوسری لہر کا نقطہ نظر رہے ہیں۔ یوں ان اداروں سے مخصوص ذہنی رجحان رکھنے والے کثیر طلباء ڈگری لینے کے بعد معاشرتی زندگی کا ایک حصہ بن چکے ہیں اور اپنے تئیں اسی لائن پر کام کر رہے ہیں جو تانیثیت کی دوسری لہر کے مقاصد میں شامل ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عوامی فورم پر بحث کے خاتمے سے ان اداروں سے کارکنوں کے بجائے مفکر پیدا ہوئے ہیں۔  

تیسری لہر کی کامیابی اور ناکامی کا ذکر صرف اسی صور ت میں کیا جا سکتا ہے جب اس کے مقاصد واضح ہوں گے۔ تیسری لہر کے مقاصد کا ذکر کرنا اس لحاظ سے مشکل ہے کہ اس لہر کی بنیادی خصوصیت مشترکہ معیاری مقاصد کی نفی تھا۔ یہ اجتماعی تحریک کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور ایسے تشخص سے اجتناب کرتی ہے جو عوامی شکایات کو ایک گروہ کے طور پر محسوس کرتے ہیں۔ تیسری لہر مرد وعورت کے مساوی حقوق کے لیے کوشش کرتی ہے  اور اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ معاشرہ ان کی فراہمی یقینی بنا رہا ہے۔ تیسری لہر  نے دوسری لہر کے مقاصد کو اسی طرح نظرانداز کیا ہے جس طرح بچے حد سے زیادہ آزادی کی خواہش میں والدین کو دور دھکیلتے ہیں۔ تیسری لہر اگرچہ برابری کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہے لیکن یہ اس کے لیے مخصوص نظریہ استعمال نہیں کرتی۔ اس لہر کا نعرہ  یہ ہے “We Don’t need Feminism anymore.”  اب وقت بدل رہا ہے اورتبدیلی کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔

تانیثیت کی تیسری لہر کے جواب میں چوتھی لہر کے امکانات اس لیے روشن ہیں کہ تیسری لہر حد سے زیادہ روشن خیال اور پر امید تصورات کی حامل نظر آتی ہے۔ آج تانیثیت تدریس گاہوں سے نکل کر واپس پبلک ڈسکورس کا حصہ بن رہی ہے۔ تانیثیت کے ابتدائی ادوار میں عورتوں کو جن مسائل کا سامنا تھا ا ٓج انہیں مسائل کو پھر سے علاقائی اور بین الاقوامی معیار پر قابلِ غور سمجھ کر پریس اور مین سٹریم میڈیا میں جگہ دی جارہی ہے۔ مختلف مسائل جیسے جنسی طور پر ہراساں کرنا، عورتوں پر تشدد، ریپ، غیر مساوی تنخواہ، نسوانی جسمانی ساخت کی یکسانیت اور عورتوں کی سیاست اور کاروبار میں برائے نام نمائندگی ان مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کا عورتوں کو آج بھی سامنا ہے۔ آج تانیثیت کے مباحث اور عورتوں کے مسائل کو ماضی کی طرح چند مخصوص دانشوروں کا کام نہیں سمجھا  جاتا کہ وہ سماجی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان مسائل کو بھی اجاگر کریں۔

تانیثیت کی چوتھی لہر کی امید رکھنے والے دراصل لفظ تانیثیت / فیمنزم سے کچھ پریشان نظر آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس اصطلاح کے ساتھ جہاں پر انتہاپسندی کے معنی جڑے ہوئے ہیں وہیں پر یہ جنسی ثنائی تخالف اور ’’صرف عورتوں کے لیے ‘‘ کے تناظر کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ چوتھی لہر کے لیے تانیثیت کی اصطلاح ایک طرف اپنے مافی الضمیر کو پروان چڑھانے میں رکاوٹ ہوگی تو دوسری طرف سامعین کی اکثریت تک اس کے لیے پیغام پہنچانا بہت مشکل ہوگا۔ حقیقی صورت حال اس کے برعکس ہے۔ آج تانیثیت کو شہرت حاصل ہے  اور اس کو قبولیت کا درجہ دیا جا رہا ہے کہ آج معاشرے میں انسانی کرداروں کو جنسیایا گیا ہے (gendered)  اس لیے آج تانیثیت صرف عورت کی علمبردار نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر اس میدان میں عمل کوشاں ہے جہاں پر سماجی کرداروں کو جنسیا کر مخصوص معنی دیے جاتے ہیں۔؎

تانیثیت کی چوتھی لہر کے مبلغین صرف دوسری لہر کی مبلغین کی نواسیوں پر ہی مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ تیسری لہر کے دوران سیکھے جانے والے مختلف تناظروں کو بھی گفتگو کا حصہ بناتی ہیں۔ یہ عورتوں کے استبداد کو سمجھنے کے لیے حاشیے پر موجود مختلف گروہوں کے نقطہ انقطاع کو زیر بحث لاتا ہے۔  اس طرح تانیثیت وسیع تر شعور کا حصہ بن کر نسل پرستی، طبقات پرستی،  سنی تعصب(ageism)اہلیت پرستی(ableism)، جنسی کشش (Sexual Orientation) کے خلاف جدوجہد میں شریک ہوتی ہے۔ تانیثیت کی تیسری لہر نے انسانی جسم کو جنسیت سے آزادی دلوا کر ایک انسان کو بطور انسان قبول کیے جانے  کی آزادی دلوائی ہے۔ اس سلسلہ میں انٹرنیٹ اپنا کردار مزید بہتر بنا کر پیش کر سکتا ہے اور اس جنسی بنیادوں پر معیاریت پسندی کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ تانیثیت کی چوتھی لہر ایک طرح سے حاشیہ بردار گروہوں کی اجتماعی  کاوشوں سے بننے والی کوئی مخصوص صورت حال ہو سکتی ہے جس میں تمام گروہ متحد ہو کر متفقہ مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں گے۔    تانیثیت کی چوتھی لہر کی خوبصورتی یہ ہو گی کہ  تمام گروہوں کا متمع نظر ایک ہوگا اور تحریک کے محرک ایک ہی تصورکے مختلف پہلوؤں کو پیش کر رہے ہوں گے۔

اس مقام پر ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ تانیثیت کس کروٹ تغیر کا شکار ہو گی۔ تانیثیت کی چوتھی لہر کس صورت اپنا اثر دکھائے گی اور اس کی سمت کیا ہوگی؟  اب تانیثیت صرف ایک آئیڈیالوجی  نہیں رہی ہے بلکہ اس کی تاریخ مختلف ٹینشنز، پوائنٹس اور کاونٹر پوائنٹس سے بھرپور ہے۔ سیاسی، سماجی، اور دانشورانہ تانیثی رجحانات ہمیشہ سے اتھل پتھل کا شکار رہے ہیں، یہ اس چیز کی علامت ہے کہ ابھی ارتقائی کشمکش جاری ہے۔