خواتین لکھاریوں کی تحریروں میں فیمنائی کلچر

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

خواتین لکھاریوں کی تحریروں میں فیمنائی کلچر

(اصغر بشیر)

ورجینیا وولف کی ’’اے روم آف ونس اون (۱۹۲۹ء)‘‘ اور سیمون ڈی بوار  کی ’’دی سیکنڈ سیکس (۱۹۴۹ء)‘‘ سے شروع ہونے والی تانیثی آگہی ۱۹۶۰ء کی دہائی تک  تانیثی تنقید کا روپ اختیار کر چکی تھی۔آج تانیثیت ساختیات، پس ساختیات، مارکسیت اور تحلیل نفسی  جیسے ادبی نظریات کے ملاپ سے کثیر تناظری ہونے کے ساتھ ساتھ متنوع پیراڈائم کی حامل ہو چکی ہے۔ تانیثی تنقید مروجہ نظام ِ اقدارو روایات اور مرد مرکز تنقیدی نظریات کی مخالفت کرتے ہوئے ان کی بالادستی کو مسترد کرتی ہے۔ یہ جنس(Gender) کوایک  فطری عمل سمجھنے کے بجائےاس کے  سماجی تعمیر(Cultural Construct)  ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ آج تانیثی تنقید اس امر پر زور دیتی ہے کہ نسوانی تجربہ، نسوانی ادراک اور اس پر استبداد کا از سرنو تجزیہ ضروری ہے کہ صرف اسی ذریعہ سے عورت کی موجودہ معاشرے میں تصدیق کی جا سکتی ہے۔

تانیثیت کی موجودہ متنوع  اشکال کے باوجود ایک مکمل تنقیدی تھیوری کے طور پر باقی رہے گی کیونکہ عورت لکھاریوں نے زبان کو آزادی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ تانیثی  تھیوری کے لیے بنیادی مواد بیٹی فرائیڈن کی کتاب ’’دی فیمنن میسٹیک‘‘  اور سیمون دی بوار کی کتاب ’’دی سیکنڈ سیکس‘‘ نے مہیا کیا اور اسی کی بنیاد پر عورتوں کے حقوق کی تنظیموں نے کام کیا ۔ ان تحریروں نے ایک طرف عورتوں کو دانشورانہ فریم ورک فراہم کیا تو دوسری طرف ان کے سیاسی مقاصد کو وحدانیت عطا کی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی عورتوں کی تحریروں نےبھی عورتوں کو تانیثی فکر پروان چڑھانے میں اس طرح مدد کی کہ وہ زبان میں ایسے تاثرات کو پروان چڑھانے کے قابل ہو گئے جن میں عورت اپنے تجربات و جذبات و خیالات کو بیان کر سکتی تھی۔ عورتوں کی تحریک نے لسانی بنیادوں پر جنسی تفریق کی مثالوں کو اپنی تحریروں کے ذریعہ اجاگر کیا۔ مثال کے طور پر آج بھی مرد سے مرد و عورت دونوں کو مراد لیا جاتا ہے۔

حالیہ ادبی تنقید میں تانیثیت  بنیادی رجحان کی صورت  حال رکھتی ہے۔ تنقید کے دوسرے دبستانوں کے مقابلے میں تانیثی تنقید نے تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ اگر چہ تانیثیت کی مختلف جہات کے آپسی اختلاف کے باعث اس کی کوئی ایک تعریف کرنا اور اس پر سب کا متفق ہونا  مشکل امر ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ تانیثیت  تنقیدی ڈسکورس  کا ایسا ذریعہ ہے جو ادبی فن پاروں کی تفہیم و تشریح ثقافتی بنیادوں پر متعین کردہ جنسی عدم توازن کی   بنیاد پر کرتا ہے۔ تانیثیت زندگی کے تمام شعبوں میں مردانہ استبداد   اور غالبیت  کی تاریخ پر ارتکاز کرتے ہوئے اس کی وضاحت کرتی ہے۔ آج عورتیں زیادہ تنوع کے ساتھ لکھ رہی ہیں۔ آج نسوانی تحریریں لسانی، سنی (age)، نسلی، علاقائی، طبقاتی اور ثقافتی پس منظر کے ساتھ منظر عام پر آرہی ہیں۔ ماضی میں تانیثی لکھاریوں کے تجربے اور اعلیٰ  تعلیم ان کو بہتر ونٹیج پوائنٹ(Vintage Point) مہیا کر رہی ہے۔

آج  کے ہم عصر ادبی پاروں میں تانیثی سوچ کا جائزہ لینے  اور عورتوں کے روایتی اور جدید سماجی اور معاشرتی مسائل پر گفتگو  کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انفرادی تانیثی رجحانات کا جائزہ لیا جائے کیونکہ یہی تانیثی رجحانات مخصوص مقام پر جا کر ظاہری اختلاف کے باوجود متفرق ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے ابتدائی ضروری پہلو یہ ہے کہ مخصوص لکھاری کا پس منظر اور اس کے ادبی کارناموں کا تاریخی سماجی اور معاشرتی پہلوؤں کے حوالے سے تانیثی تحریک میں تجزیہ کیا جائے۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ ایک عورت لکھاری اپنی تحریروں میں تانیثی شناخت اور تانیثیت کو کس انداز سے پیش کرتی ہے۔ کس طرح ان کے موضوعاتی  ادبی فن پارے ، ان کی تکنیک، اور نسوانی لکھاریوں کی تحریک جدید دنیا کو عورتوں کے مسائل  سمجھنے  کے لیے پیش کرتی ہے۔

مختلف ادباء کے حوالے سے مختلف تانیثی فکر اور پدرسری نظام کے خلاف احتجاج کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طورپر ادا جعفری کے تانیثی بیانیے میں جنسیت ، احتجاج، تنقید، اور منفی نقطہ نظر   غائب ہے۔ جب کہ کشور ناہید کے ادبی فن پاروں میں  ان پہلوؤں کی طرف واضح حوالے میسر آتے ہیں۔ ادا جعفری اپنے فیمنسٹ ہونے کے بلندو بانگ دعوے نہیں کرتی بلکہ ملتجیانہ انداز میں پاکستانی عورتوں کی قابلِ رحم حالت کو پیش کرتی ہے۔اس کے برعکس کشور ناہید اپنے آپ کو عالمی تانیثی فکر کے تسلسل کے طور پر دیکھتی ہے اور زمان و مکان کی حدیں پار کرتے ہوئے عالمی تانیثی فکر کے شانہ بشانہ تانیثی جدوجہد کا حصہ بنتی ہے۔ ان دونوں  لکھاریوں کے درمیان ظاہری اختلاف نظر آتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ گہرے فکری معیار پر جا کر دونوں کی سوچ ایک ہو جاتی ہے۔ انہی بنیادوں پر خواتین لکھاریوں کی تحریروں میں فیمنائی کلچر کو پیش کیا جا سکتا ہے۔