دفاتر میں صنفی تعصب زدہ زبان

دفاتر میں صنفی تعصب زدہ زبان
دفاتر میں صنفی تعصب زدہ زبان
(بی بی سی اردو)

دفتر تصویر کے کاپی رائٹ Alamy

قدیم زمانے کا رویہ، مثلاً کسی عورت کو ‘ہنی’ یا ‘بےبی’ کہنا اس قدر فیشن سے باہر ہو چکا ہے جتنا غاروں پر تصاویر۔ خاص طور پر دفاتر میں اس قسم کی صنفی تعصب پر مبنی زبان ناقابلِ قبول ہو گئی ہے۔

لیکن اس بات کے سائنسی اور زبانی کلامی شواہد بڑھتے جا رہے ہیں کہ صنفی تعصب پر مبنی زبان اور رویے اب بھی دفاتر میں عام ہیں۔

صنفی تعصب پر مبنی الفاظ ہر وقت استعمال میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ لیتے وقت خواتین کو زیادہ تر مبہم فیڈبیک ملتی ہے، مثلاً ‘آپ کا یہ سال بہت زبردست گزرا۔’

یا پھر اس فیڈ بیک کی نوعیت صنفی تعصب پر مبنی ہوتی ہے، مثال کے طور پر بولنے کے انداز پر ضرورت سے زیادہ تبصرہ، جب کہ اس کے مقابلے پر مردوں کو ان کی کارکردگی کے بارے میں زیادہ واضح فیڈ بیک ملتی ہے۔

مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ فرق ای میلز میں اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ سادہ سا فقرہ ‘گیراج میں دو مرد’ (two guys in a garage) بھی صنفی نقطۂ نظر سامنے لے کر آتا ہے، جس سے یہ زیرِ سطح پیغام ملتا ہے کہ کون کس جگہ فٹ ہوتا ہے۔

زبان اور صنف کو علیحدہ کرنا آسان نہیں، کیوں کہ ان دونوں کے درمیان طویل عرصے سے تعلق قائم ہے۔ یہ دونوں متعدد مختلف طریقوں سے آپس میں آمیز ہوتے ہیں جن میں سے کچھ واضح اور کچھ غیر واضح ہوتے ہیں۔

مستقل رویے

بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن پر صنفی تعصب کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ فیس بک کی ایگزیکٹیو ڈیب لیو نے اسی قسم کے الفاظ اکٹھے کرنا شروع کیے۔ ان میں کچھ تو پرانے مزاج کے تھے، مثلاً جنٹل مینز ایگریمنٹ۔ یہ اصطلاح 1920 کی دہائی سے عام ہے، تاہم اور بھی پرانی لگتی ہے۔

کچھ اصطلاحات کھیلوں سے متعلق تھیں، مثلاً مین آن مین ڈیفینس اور کوارٹر بیک۔ دوسری 1940 کے زمانے کے سپر ہیروز جیسے الفاظ بھی عام ہیں، جیسے وِنگ مین، سٹرا مین، مڈل مین، رائٹ ہینڈ مین، اور پوسٹر بوائے۔ لیو نے بہت سی زنانہ اصلاحات بھی تلاش کیں جو زیادہ تر منفی نوعیت کی ہیں۔ ان میں پرما ڈونا، ڈراما کوین، مین گرل، ڈیبی ڈاور، اور نیگیٹو نینسی وغیرہ شامل ہیں۔

پیاز تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images 
کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے اندر تہہ در تہہ معنی چھپے ہوتے ہیں

دوسری اصطلاحات اور فقرے صنف سے متعلق نہیں تھے، لیکن پھر بھی وہ صنفی ذہنیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثلاً کلےمین انسٹی ٹیوٹ فار جینڈر ریسرچ نے قیادت کے بارے میں بات کرنے کے دو طریقے دریافت کیے ہیں جو جائے ملازمت پر استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں ملازمت کے اشتہاروں سے لے کر کارکردگی کا جائزہ شامل ہیں۔ ان میں فاعلی اور گروہی دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں۔

گروہی زبان کا زیادہ تر استعمال عورتوں پر ہوتا ہے۔ اس سے عورتوں سے وابستہ مخصوص تصورات ذہن میں آتے ہیں، مثال کے طور پر زیادہ ہمدرد ہونا، زیادہ مددگار ہونا وغیرہ۔ فاعلی زبان کا زیادہ تر استعمال مردوں پر کیا جاتا ہے، اور یہ کام نمٹانے، قیادت سنبھالنے اور خودمختار ہونے سے متعلق ہوتی ہے۔

کلےمین میں ریسرچ ایسوسی ایٹ جواین وینر فاعلی حالت کو ‘میں کی زبان’، اور گروہی حالت کو ‘ہم کی زبان’ قرار دیتی ہیں۔ اگرچہ بہت سے مرد اور عورتیں ان سٹریو ٹائپ میں فٹ نہیں ہوتے، لیکن یہ صنفی فریم جائے ملازمت پر ملازمین، خصوصاً عورتوں کے گرد دیواریں بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح سے مردانہ زبان کھیلوں، جنگ، اور مشینوں وغیرہ سے حاصل کی جاتی ہے، اور اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دفاتر دراصل مردوں کی جولان گاہ ہیں۔

تہہ در تہہ

بعض الفاظ کے گرد پیاز کی گانٹھ کی مانند پرتیں ہوتی ہیں جنھیں کھولتے کھولتے ماہرینِ لسانیات کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک لفظ guy ہے۔ اس کا واحد ہمیشہ مذکر ہوتا ہے لیکن جمع guys مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ تو کیا دفاتر میں یہ لفظ استعمال کرنا درست ہے؟ شاید folks زیادہ بہتر لفظ ہے جسے براک اوباما بھی اکثر برتتے تھے۔

آج کے دور کی صنف زدہ زبان اگرچہ پرانے زمانے سے کہیں بہتر ہے لیکن پھر بھی اس کے اندر کئی خطرناکیاں چھپی ہیں۔ مثال کے طور پر عورتوں کے لیے آج بھی ہوسٹس، سٹیورڈس اور ویٹرس جیسے الفاظ معمول کا درجہ رکھتے ہیں، اگرچہ انھیں کسی قدر دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پرانے زمانے میں جو الفاظ عام ہیں انھیں آج پاگل پن تسلیم کیا جاتا ہے۔ مثلاً 15ویں صدی میں کوئی عورت کتاب لکھتی تو اسے آتھرس کہتے۔ 18ویں صدی قاتل عورت کو assassinatress کہا جاتا تھا۔ اسی طرح کے مضحکہ خیز کی چند مثالیں: cousiness, fornicatress, greengroceress, inventress, murdermongress, pythoness, revengeress

براک اوباما تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images 
سابق امریکی صدر براک اوباما محتاط زبان استعمال کرتے تھے

اس طرح کا ایک رججان ساز لفظ ‘لیڈی’ ہے۔ اوکسفرڈ انگلش ڈکشنری میں جو مثالیں دی گئی ہیں ان میں ’لیڈی ہاؤس کیپر،‘ ’لیڈی نرس‘ اور ’لیڈی کُک‘ وغیرہ شامل ہیں۔ مشہور انگریزی ادیبوں کے ہاں ایسی مثالیں عام مل جاتی ہیں جنھیں صنفی تعصب پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔

آپ ماضی میں جھانک کر کہہ سکتے ہیں کہ اب ہم آتھرس اور انوینٹرس جیسے الفاظ سے پرہیز کرتے ہیں اور ہم نے اس ضمن میں خاصی ترقی کی ہے۔ تاہم آنی والی نسلیں آج استعمال ہونے والے پوسٹر بوائے اور two guys in a garage جیسے کو اسی طرح تعصبانہ سمجھیں گی۔