ہمارے اینکر، ہمارے حوالدار

ایک روزن لکھاری
محمد حنیف

ہمارے اینکر، ہمارے حوالدار

(محمد حنیف)

جیسے جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی ہمارے زندگی کا جزو لاینفک بنی ہے آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ صحافی کا کردار بھی نئے روپ لے رہا ہے۔ پہلے صحافی کا کام خبر دینا ہوتا تھا، اُس آدمی کو تلاش کرنا ہوتا تھا جو کتے کو کاٹتا تھا۔ کبھی کبھی عوام الناس کو سمجھانے کے لیے یہ بھی بتانا پڑتا تھا کہ آدمی کہاں سے آیا تھا، کتے کی رنگت کیسی تھی، اور کیا دونوں کے درمیان ماضی کے مراسم تو نہیں تھے۔

آج کا صحافی تجزیہ نگار بھی ہے، قصیدہ خواں بھی، خطبہ بھی دے دیتا ہے، مرثیہ بھی پڑھ لیتا ہے، اپنی بات سمجھانے کے لیے رونا پڑے تو رو لیتا ہے، گانا پڑے تو گا لیتا ہے، کبھی کبھی تو اپنی خبر اور اپنے تجزیے کو سچا ثابت کرنے کے لیے کیمرے کے سامنے ہاتھ اُٹھا کر دعا بھی مانگ لیتا ہے۔

پیٹ پالنے کے لیے یہ سارے روپ بہروپ بھرتے ہوئے صحافی کو کبھی کبھی میراثی بھی بننا پڑتا ہے (کچھ دانشوروں کو شاید میراثی کہلانا پسند نہ آئے لیکن راقم کا بچپن بزرگ میراثیوں کے ساتھ گزرا ہے اور ہم نے تو یہی سیکھا ہے کہ وُہ میراث والے ہیں جو کبھی کبھی طاقتور پھنے خانوں کی ہوا نکالنے کے لیے کوئی رمز بھری بات کرتے تھے جسے آج کل جُگت کہتے ہیں)۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ صحافیوں کا میراث پن کی طرف رجحان ایک خوش آئند بات ہے۔ ہمارے گھمبیر مباحث میں کبھی کوئی ہلکی پھلکی جگت لگا کر لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلا دے تو اِسے کار ثواب ہی سمجھنا چاہیے۔ لیکن ایک جہاندیدہ میراثی کی طرح صحافی بھائیوں کو بھی اپنی حدود کا بخوبی عِلم ہوتا ہے اِس لیے کچھ کرداروں، کچھ اداروں اور کچھ افکار کی بات کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ لے دے کر بچتے ہیں سیاستدان تو کوئی بھی اچھا سیاستدان اپنا کارٹون دیکھ کر بھی خوش ہی ہوتا ہے کہ کِسی نے اِس قابل تو سمجھا۔

میراثی جب باقی سب کو چھوڑ کر اپنے جیسے دوسرے میراثی کو جگت کرنے لگے تو غالباً اُسے بھانڈ کہا جاتا ہے یہ ایک کم تر مقام ہے لیکن ہے یہ بھی ہمارے سماجی اور ثقافتی ماحول کی ایک جہت۔

اِسی طرح آج کل صحافی بھی دوسرے صحافیوں کو نشانے پر رکھتے ہیں اور ایک مقبول عام اصلاح یہ چلی ہے کہ جِس صحافی یا اینکر کی بات سے اختلاف ہو، جو ہماری نظر میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو (اسٹیبلشمنٹ کو جگت لگانا تو دور کی بات ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں آیا اُسے کِس نام سے پکاریں) اُسے حوالدار صحافی یا حوالدار اینکر کہہ دیا جاتا ہے۔

مُراد یہ ہوتی ہے کہ دیکھو ہم افسر ہیں یہ کمتر ہیں۔ یہ حکم کا غلام ہے، ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں، یہ شاہ کا وفادار ہے ہم باغی ہیں۔ یہ کم عقل ہیں ہم عقل کل ہیں۔

میں نے اینکر تو صرف ٹی وی پر ہی دیکھے ہیں لیکن زندگی میں درجنوں حوالداروں سے واسطہ پڑا ہے، اور میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ مہنگے سے مہنگا سب سے اچھے سوٹ والا اور سب سے بہترین دماغ والا اینکر بھی وہ نہیں کر سکتا جو ہمارے حوالدار کرتے ہیں اور کمزور سے کمزور حوالدار بھی کبھی وہ نہیں کرے گا جو ہمارے صحافی بھائیوں اور اینکروں کو روز کرنا پڑتا ہے۔

حوالدار کبھی سُرخی پاؤڈر نہیں لگاتا۔

جب حوالدار کو بتایا جائے کہ ملک و قوم کو خطرہ ہے تو وہ مورچہ مضبوط کرے گا یہ نہیں سوچے گا کہ اب ریٹنگ کیسے بڑھائی جائے۔

سرحد یا مورچہ دور کی بات ہے اگر کِسی اینکر کو بندوق دے کر کراچی میں ہی کِسی چیک پوسٹ پر کھڑا کر دیا جائے تو شام تک اپنے ہی پگھلتے ہوئے خضاب میں رنگا جائے گا۔

پاکستان کی فوج کی اصل طاقت ڈیفنس سوسائٹیوں یا دور تک مار کرنے والے میزائلوں سے نہیں اِس کی اصل طاقت اُن حوالداروں میں ہے جو قلیل تنخواہ میں سخت ترین ڈیوٹی کرتے ہیں کبھی اُف نہیں کرتے اور ریٹائرڈ ہونے کے بعد خاموشی سے گاؤں لوٹ جاتے ہیں یا شہر میں کِسی سکیورٹی گارڈ کی نوکری کر لیتے ہیں۔

ہمارے جنرل اپنے کارنامے ہمیں دِن رات سُناتے نہیں تھکتے کسی حوالدار کے منہ سے کبھی سُنا ہے کہ میرا اِس قوم پر بڑا احسان ہے؟

پاکستان میں کِسی ایسے افسر سے پوچھ لیں جو کِسی طرح کی بھی جنگ کا حصہ رہا ہو وہ آپ کو بتائے گا کہ ہماری پوری ملٹری سٹریٹیجی کو آسان نام دینا ہو تو وُہ حوالدار ہی ہو گا۔

دوران جنگ اگر حوالدار کا ساتھی یا افسر یا جوان زخمی ہو جائے تو وُہ پیٹھ پر لاد کر پیدل چلے گا تا کہ اُس کی جان بچائی جا سکے۔

میرے صحافی بھائی ایسے ہیں کہ اگر ہمارے کِسی ساتھی پر برا وقت آیا ہو تو ہم اُس کی پیٹھ میں خنجر گھونپیں گے اور پھر کیمرے میں دیکھ کر کہیں گے ‘کیسا دیا؟’


بشکریہ مصنف اور بی بی سی اردو