ریاست کے وجود کو سوال اُٹھانے سے نہیں دبانے سے خطرات لاحق ہوتے ہیں

مصنف کی تصویر
ذوالفقار علی

 

(ذوالفقار علی)

سر زمین خدا داد کی تاریخ بھی ایسے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں “محب وطن” اور ” غدار وطن” کے دلدوز قصے دو نسلوں سے ڈسکس ہو رہے ہیں۔ مگر ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ کون محب وطن ہے اور کون غدار وطن ہے۔ دونوں اطراف کے مائنڈ سیٹ ایک دوسرے سے عداوت رکھتے ہیں۔ بد گمانی اور نفرت کی یاداشتوں میں سمائے ہوئے خیالات اب اس نہج پر پہنچ چُکے ہیں جہاں پر مُکالمہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں سوسائٹی کے مختلف طبقات میں عدم برداشت اور الزام تراشی کے رجحانات بڑی تیزی سے پنپ رہے ہیں جس کی وجہ شدت پسند نظریات میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ریاستی اور سماجی ادارے بے اثر ہو رہے ہیں اور یہ مُلک افرا تفری کی طرف بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے جہاں انارکی کے بیج پروان چڑھ سکتے ہیں اور اس فصل کو کاٹتے کاٹتے بہت وقت لگے گا۔ کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں مختلف طبقہ فکر اور نظریات کے لوگ اپنی اپنی سوچ کو حتمی سمجھتے ہیں اور اُس کو سوسائیٹی کے باقی ماندہ طبقات پر زور زبردستی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
صاحبو ہماری سوسائٹی لال دائروں میں قید ہوتی جا رہی ہے جسکے بہت خوفناک نتائج نکل رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں عام لوگوں کو مزید مسائل اور مُشکلات کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ سوسائٹی کی نمود و نمائش میں اثر انداز ہونے والے عوامل بہت گنجلک شکل اختیار کر چُکے ہیں اور کوئی ادارہ یا فرد اب اس قابل نہیں رہا جس پے سب کو اعتبار رہا ہو۔جس کی وجہ سے سوسائیٹی کی نبض پے ہاتھ رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ اس بد گُمانی کو کیسے اپنے اپنے مقاصد اور ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا ہے۔
سوسائٹی کی اس تقسیم کے پیچھے مختلف عناصر کارفرما ہیں جن کو مُختلف لابیوں سے مبینہ طور پر جوڑ کر پروپیگنڈہ مہم چلائی جاتی ہے۔ مختلف گروہ آج کل ایک دوسرے کوکئی لابیوں سے مُنسلک کرکے زہر اُگلتے ہیں جس کے باعث دن بدن سماجی تقسیم گہری ہوتی جا رہی ہے۔
مثال کے طور پر ان لابیوں میں سرگرم عناصر ایک دوسرے کو یہودی لابی، ایرانی لابی، سعودی لابی ، انڈین لابی، لادین لابی اور موم بتی مارکہ لابی کے القابات سے نوازتی رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام آدمی کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کس لابی کا حصہ ہے یا حصہ بنے۔ یہ رجحان اپنے آپ میں منفی عمل ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے بہت بُرے طریقے سے کمزور کر رہا ہے جس کا اثر بچے کُھچے سماجی اداروں پر بھی منفی طور پر پڑ رہا ہے۔ اس اثر کی لپیٹ میں سیاسی پارٹیاں اور بیورو کریسی میں اہم اداروں کے افراد بھی آ چُکے ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے شخصیات ، ادارے اور ریاست اپنے اپنے کردار میں متنازعہ سمجھے جانے لگے ہیں جو ہمارے سماج کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
کسی بھی تنازعے کے حل کیلئے مثبت مکالمہ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے مگر یہ مُکالمہ اُس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہو سکتا جب تک اعتبار کا رشتہ اُستوار نہ کیا جا سکے۔ اب یہاں پر سوال یہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ اعتبار کس پہ کیا جائے۔ یہ مشکل مرحلہ اُس وقت تک عبور نہیں کیا جا سکتا جب تک ریاست کی سطح پر کُچھ بُنیادی اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے۔
ان اقدامات میں بُنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، ریاست کا بطور سیکولر کردار، اقتدار میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنانا، چھوٹے صوبوں اور کمزور قوموں کے مسائل کوتسلیم کرنا اور اُن کے تدارک کیلئے لائحہ عمل تیار کرنا، گورننس کے نظام کو بہتر کر کے عام لوگوں کی وسائل اور سہولیات تک رسائی دینا، لوگوں کیلئے بہتر معاشی پروگرام تشکیل دینا اور ریاستی اداروں کی آپسی کشمکش کی روک تھام کیلئے قانون کی عمل داری کو ہر سطح پر لاگو کروا کر ریاست کی رٹ کو بحال کرنا۔
اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یقین جانئے ہمارے مسائل اور شدت اختیار کرتے جائیں گے اور پھر ایسے ایسے سوالات اُٹھیں گے جو اس ریاست کو بُنیادوں کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ جس کا آئے روز ہم تذکرہ سُنتے رہتے ہیں۔ یہ بُنیادی سوالات پہلے بھی اُٹھائے جاتے رہے مگر ریاست بروقت اُن کا جواب نہیں دے پائی بلکہ اُن سوالات کا مُناسب حل ڈھونڈنے کی بجائے اُن کو طاقت کے زور پر دبا دیا گیا جس کا خمیازہ ہمیں بُھگتنا پڑا کبھی مُلک کی تقسیم کی صورت میں، کبھی صوبوں کی آپسی کشمکش کی صورت میں، کبھی مقامی سطح پر اُبھرنے والی آزادی کی تحریکوں کی صورت میں، کبھی آمریت کو خوش آمدید کہنے کی صورت میں، کبھی تشدد پرمبنی رجحانات کو پنپنے کی صورت میں، کبھی مذہبی تحریکوں کی پُر تشدد کاروایئوں کی صورت میں، کبھی فرقہ کی بُنیاد پر قتل وغارت کی صورت میں، کبھی بُنیاد پرستی کی صورت میں۔
جب مسائل بڑھ جاتے ہیں اور سوالوں کے جواب نہیں مل پاتے تو پھر آپریشنز کرنے پڑتے ہیں اب تک ہماری ریاست کو کتنے آپریشنز کرنے پڑے جیسے ” فئیر پلے” آپریشن جبرالٹر ، کارگل، راہ حق، زلزلہ، بلائیک تھنڈر سٹارم، راہ راست، شیر دل، راہ نجات، آپریشن کوہ سفید، ضرب عضب، یا کراچی آپریشن مگر ہمیں ملا کیا۔ کچھ کامیابیاں ضرور ملیں اور ہمارے سپاہیوں نے قُربانیاں بھی دیں مگر کوئی پائدار حل نہیں ڈھونڈا جا سکا۔
اب ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ریاست کو لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے مختصر حکمت عملی اور طویل المدت حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے۔ ورنہ لوگوں کی اچھی اور بُری آوازوں کو دبایا نہیں جا سکے گا زندہ لوگ سوال کریں گے اور سوال اُٹھائے جائیں گے۔ یقین مانیں موجودہ صورتحال میں سوال اُٹھانے سے ڈر لگتا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ ہم ریاست کے ساتھ مل کر ان سوالوں کے جواب ڈھونڈیں اور تنازعات کو پُرامن طور پر حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ورنہ مایوسی اس حد تک پھیلتی جا رہی ہے جس میں پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے لوگ سوال کر رہےہیں کہ اس ریاست نے ہمیں دیا کیا ہے۔
اُمید ہے میری اس بات کو مثبت طریقے سے لیا جائے گا مثبت اور تعمیری مُکالمے کی صورت ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے درپیش سوالات کا جواب ڈھونڈا جائے تاکہ وطن سے بے لوث محبت کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نفرتوں کی آگ کمزوروں اور طاقتوروں دونوں طبقات کو جلا کر بُھسم کر دے گی کیونکہ یہی تاریخ کا سبق ہے!

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔