جبر کی شکست

(منشا فریدی)

چار سو خوفناک آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ گُھٹن اور حبس زدہ ماحول ہے۔ اطراف میں بندوقیں تانے خطر ناک چہرے ہیں۔ زباں بندی کے احکام ایک مدت سے صادر ہو چکے ہیں۔ فکر مقید ہے۔ سوچ مصلوب ہو رہی ہے۔ شعور کا قتل عام برسر عام ہو رہاہے۔ ریاست خان ببانگ دہل جبر اور تشدد کا مرتکب ہورہا ہے۔ منصفوں کے چہرے مہلک مناظر پیش کر ہے ہیں۔ انصاف معدوم ہو چکا ہے۔ تاریکی ترک وطن پر مجبور کر ہی ہے لیکن کیا کریں؟ ہجرت نہایت ہی تلخ ہے۔ دھرتی ماں کی جدائی نا ممکن ہے۔

ریاست خان کا جبر اور اس کے مسلح جتھوں اور تزویراتی اثاثہ جات کی دھمکیاں اور اذیتیں سب مل کر بھی ہمیں اور ہمارا شعور قتل نہیں کر سکتے ۔ ایسی حرکتوں سے ان کا امیج تو بہتر نہیں ہو گا۔ شہادت پاکر سلجھی سوچ عالم گیر شہرت حاصل کر لے گی۔ خواہ ہم پر کوڑے برسیں یا ہمیں ان کاؤنٹر کر دیا جائے۔ جبری اغواء کا عمل بھی افکار پر بندشیں عائد نہیں کر سکتا۔ ان کا اپنا کردار اور بھدا چہرہ کسی نے ملاحظہ کیا؟

یہاں بھائی زاہد گشکوری کا یہ فیس بک سٹیٹس نظام کہن کا منھ چڑارہا ہے کہ بے چارے تلور کی قربانی پانامہ سکینڈل کے لیے، کالے بکرے کی پی آئی اے کے لیے، پرویز رشید کی ڈان لیکس کے لیے لیکن کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کے تناظر میں کس کی قربانی ہو؟ سر راہے زاہد بھائی کا سٹیٹس بطور حوالہ دینا دل کو اضطراب سے نکالنے میں کچھ مدد گار ثابت ہوا۔ یہ نظام جو محض سرمایہ دارانہ ، جاگیر دارانہ اور اجارہ دارانہ ہے، تنقید برائے اصلاح کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کر دیتا ہے۔اس ظلم پر اس سسٹم کے حواری اپنی عیاشی کو ترجیح دیتے ہوئے خاموش رہتے ہیں۔ ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا۔

تحقیق کے میدان میں سرگرم خاتون صحافی زینت شہزادی تا حال بازیاب نہ ہوئی اور پھر دانشور، بلاگر اور سوشل میڈیا کے ذریعے تنقید برائے اصلاح کرنے والے ایکٹیوسٹ پروفیسر سلمان حیدر اور صحافی وقاص گورایہ کی اسلام آباد اورلاہور جیسے شہروں سے جبری گم شدگی و اغواء ارباب حل و عقد کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے۔
اور اب راقم الحروف کی چند منظوم سطور :
فکر لاحق ہے اک زمانے کو
جس میں عالم ہی مضطرب ہے سب
خون ناحق ہوا غریبوں کا
میرا منصف بھی ٹھہرا جاہل سا
جس نے ظلمت کدے میں دنیا کے
دار بخشی ہمیشہ صادق کو
ظلم اور جبر کی حفاظت کی
تمام عنوان بد عناصر نے
واضح انداز میں کرپشن کی
اور پایا تحفظ ایسے میں
جب بھی طاقت کو دی سلامی بس
چڑھتے سورج کی پوجا رائج ہے
اور یہی ہے اصول سرکاری
لوگ ایسے نظام سے نالاں
جس میں شہری رہیں اپاہج سب
فکر لاحق ہے اک زمانے کو
مشق جاری ہے کیوں رلانے کی
عہد اس کا تھا ہم وطن سارے
کھلکھلائیں گے اب چمن سارے
مثل جنت وطن بنائیں گے
دودھ کی نہریں بس بہائیں گے
ارتقائے وطن مثالی ہو
بس دعاہے مری حضور رب
علم وعرفاں کے باب واہوں گے
لوگ اپنی مرادیں پائیں گے
نا مرادی شکست کھائے گی
سب کی منزل تلک رسائی ہو
اور ترقی مراد میں پائیں
ایسا آئین وضع ہو یارو !
جو مساوی حقوق دے سب کو
یعنی واضح برابری چھلکے