کیا ہم نے دہشت سے جو بچنا تھا تو وحشت ہمارا مقدر تھی؟ اداریہ

گمشدگیاں

 

ملک عزیز میں جبری گمشدگیوں کے گہرے لمبے سایے آج کل پھر قومی ریڈار پر موجود ہیں۔ شاید امیدوں والے سورج کی کرنیں کچھ عرصہ سے پھوٹنا ختم ہوچکیں۔ ہم زیادہ تر ملک کے استحقاق کے حامل مراکز کے شہریوں کو ایسی خبروں سے دور رکھا جاتا ہے، یا ہم خود ہی دیگر شغلوں میں ہی اس مختصر سی زندگی کے معانی دریافت کر لینے پر یقین بٹھانا شروع کر چکے ہیں۔ بہرحال یہ گمشدگیاں دہشت کے ایک اور روپ میں ہمارے انہی نسبتا محفوظ مراکز تک آن پہنچی ہیں؛ اور ایسی چیزیں بھلا کب رک سکتی تھیں۔ انہیں آ ہی جانا ہی تھا۔ لاقانونیت اور طاقت کے بے مہار اور بغیر کسی بامعنی اور چوکنا نگرانی کے نظام کی عدم موجودگی میں طاقت کی اس طور کی حالتوں کا آگے سے آگے آ ہی جانا تھا۔

اس سے پہلے بھی اس مسئلہ کو سپریم کورٹ کی سماعتوں نے کافی عرصہ زندہ رکھا۔ اس وقت کچھ امید بندھی تھی ، لیکن وقت نے اس امید کو سراب ثابت کیا۔ حالیہ سلسلے کو قومی بحث کا موضوع بنانے میں مختلف ذرائع کے مطابق چند دنوں کے وقفے میں 9 بلاگرز کے اغواء/جبری گمشدگی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس گھنے سایوں میں لپٹی کارروائیوں کے بظاہر جڑے سلسلے نے ہر چند کہ نئے سوالوں کو جنم نہیں دیا، لیکن پرانے سوالوں کو پھر سے ہلا کر نئے جوابوں کے لئے جگہ پیدا کر دی ہے؛ معاشرے میں وحشت کے احساس کو بڑھایا ہے، اور قانون کی بالادستی کے تصور کو ایک اور اگلے درجے کی شدید گزند پہنچائی ہے۔ مزید یہ کہ اس بحث اور واقعات کے تسلسل نے ہر دو سطحوں، ریاستی اداروں اور انفرادی، پر خود احتسابی اور درون بینی کی جانب واضح اشارہ کیا ہے بشرطیکہ ہم خود کو ذی ہوشوں میں شمار کرنے کو مناسب جانتے ہوں۔

حالیہ گمشدگیوں پر کسی قسم کی حتمی پوزیشن لینا قرین انصاف نہیں؛ گوکہ کچھ احباب نے حسب عادت کچھ خاص تاریک رستوں کی طرف اشارے کرنے شروع کردیئے ہیں۔ یہ اشارے وہ کیوں کرتے ہیں اس کے پیچھے بھی ملک کا سیاسی و معاشرتی شعور اور زمینی حقائق سے دودھ کے جلے ہوئے ہونے کی بنیاد پر ان کی سوچنے کے انداز کی ارتقائی تشکیل ہے۔

بحث کے لئے اور معاملے کے مختلف پہلوؤں کے اداراک کی خاطر ہم کچھ مفروضہ صورت ہائے احوال قائم کرتے ہیں۔ اول یہ کہ ہم کسی عقلی کڑی کو کڑی سے نا ملانے پر قائم رہتے ہوئے فرض کرتے ہیں کہ ان مبینہ 9 افراد کو چند دنوں کے اندر اغواء کر لینے کی جو کارروائی ہوئی ہے اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کس طرح کا رد عمل دیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ نے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر پڑے شور کے جواب میں ان مبینہ 9 منظر سے غائب افراد، بالخصوص سلمان حیدر کی جلد از جلد بازیابی کے احکامات دیئے ہیں۔ لیکن کوئی واضح احکامات اور ان کے نتائج ابھی تک دیکھنا ایک سہانا خواب ہو سکتا ہے۔

ہم ہر گز مایوسی نہیں پھیلانا چاہتے۔ لیکن ایک سوال کی اجازت مانگتے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز کی معاشرت و سیاست کو ایک متوازن اور متنوع سوسائٹی بننے کی جانب سفر کو کیوں نہیں شروع ہونے دیا جا رہا؟ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والی بین الاقوامی ادبی کانفرنس میں جس دن جناب وزیراعظم ملک میں شدت کے خلاف بیانیے کو ادیبوں اور شاعروں کو سونپنے کی بات کرتے ہیں اسی دن شام کو ایک یونیورسٹی پروفیسر، شاعر، ادیب، اور ڈرامہ نگار سلمان حیدر منظر سے اچک لئے جاتے ہیں۔ اور سلمان کو دارالحکومت کی زندگی کو بھگتتی سڑکوں سے بچوں کے ہاتھ میں سے کوے کے روٹی کا ٹکڑا اچک لینے جیسے طریقے سے غائب کردیا جاتا ہے۔ فون سے ٹیکسٹ میسج کروانے کی ذمے داری بھی نبھائی جاتی ہے۔ گاڑی چھوڑ دی جاتی ہے، لیکن زیادہ قیمتی شخص ساتھ لے جایا جاتا ہے۔

یہی حال احمد وقاص گورایہ کے ساتھ لاہور میں اول الذکر واقعے سے دو روز قبل ہوتا ہے۔ وقاص احمد گورایہ بھی کوئی ایسے ہی کم قیمتی شخص نہیں ہیں۔ وہ تکنیکی لحاظ سے ایک ترقی یافتہ ملک سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے اپنے ملک واپس آنا چاہتے ہیں۔ ان کا اپنے ملک کو ایک ترقی یافتہ اور دنیا کے باقی باوقار ممالک کے طور طریقوں پر چلتے ہوئے دیکھنے کا خواب ہے۔ خواب سچا ہے، ملک سے محبت ہے، لیکن وہ محبت ضروری نہیں کہ مخصوص مفاداتی گروہوں کی عینکوں کے رنگوں سے یکساں ہو۔ پر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں اپنے ملک و معاشرت کی بہتری کی مثالی صورتحال کی منظر نگاری کرنے کا اختیار نہیں۔ بہرحال انہیں بھی کہیں ستاروں کی روشنی سے دور گم کردیا گیا ہے۔ یہ کھلی دہشت ہے۔ پہلے چھاتیوں پر بم باندھنے آنے والوں نے ہماری پاکستانی معاشرت کا جگر فگار کیا۔ اب بڑھتی گمشدگیوں سے اہل قلم کے ساتھ چیل و گد گردی کا بازار بغیر کسی خوف و خطرے کے اسلام آباد اور لاہور تک پہنچ گیا ہے؛ گو کہ ایسا کہنے سے وطن عزیز کے کسی بھی اور خطے میں اس غلطی کو جائز کہنا ہر گز مقصود نہیں۔

آخری لفظوں کے طور پر ہم مقتدر حلقوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان اغواء اور جبری گمشدگیوں کا سہارا لینے والے خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے والے گروہوں پر اپنے اثر و عملداری کا نفاذ یقینی بنائیں گے۔ آپ ہی ہماری امیدوں کا محور رہیں گے کہ آخر سب لوگ اپنے ہی تو ہیں، اور ان میں سے کسی نے بھی ہتھیار نہیں اٹھائے ہوئے۔ اگر کسی سے کوئی سنجیدہ مسئلہ ہے تو کیوں نا عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔ ملکوں اور معاشروں کا حسن ان کے اداروں کا اپنے اپنے کام کرنے میں ہے۔