صحافت کے طالب علموں کے خواب

 انعم حمید
یونیورسٹی سے ایم فل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن
حاصل کرنے کے بعد بس یہی خواہش تھی کہ میڈیا فیلڈ میں آنے والی نئی طالبات کو اس فیلڈ سے آشنا کرا سکوں۔ کیونکہ ڈگری کے ساتھ ساتھ میڈیا پروڈکشن میں چھ سالہ عملی تجربہ بھی رکھتی تھی. براڈ کاسٹ جرنلسٹ کے طور پر تین پرائیویٹ چینلز میں کام کیا اور فی الحال بھی ایک پرائیویٹ چینل کے ساتھ منسلک ہوں. مختلف چینلز میں مختلف مارننگ شوز اور حالات حاظرہ کے پروگراموں کے ساتھ وابستگی رہی. اس دوران بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا. ڈگری حاصل کرنے کے کچھ مہینوں بعد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ سے کال موصول ہوئی اور مجھے وزٹنگ لیکچرر کے طور پر میڈیا ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بننے کا کہا گیا. میں نے فوری طور پر حامی بھر لی. کیونکہ یہ ایک دیرپا خواہش تھی. اور اس خواہش کا مقصد صرف لیکچرر بننا ہی نہیں تھا بلکہ اپنے تجربات کو دوسروں تک پہنچانا تھا۔
کلاس کا پہلا دن تھا، کلاس میں داخل ہوتے ہی رسمی طریقے سے سلام کے بعد میں نے اپنا تعارف کروایا اور طالبات سے ان کا تعارف کروانے کا کہا. اور ساتھ ہی تمام طالبات سے یہ سوال بھی کیا کہ آپ مستقبل میں کیا بننا چاہتی ہیں؟ ایک بات جس نے مجھے حیران کیا اور جو سب کے تعارف میں مشترک تھی، وہ یہ کہ زیادہ تر طالبات میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یا تو اینکرپرسن بننا چاہتی تھیں یا رپورٹر. یعنی اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد فوری طور پر سکرین پر آنے کی خواہش. دعا تو یہی ہے کہ اللہ ان سب طالبات کی خواہشات پوری کرے. لیکن  میڈیا میں ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات سے گزارش ہے کہ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے پر عزم رہیں اور محنت و کوشش  جاری رکھیں لیکن راتوں رات ٹی وی اسکرین پر آنے کے خواب نہ دیکھیں. کیونکہ خواب جب چکنا چور ہوتے ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے میڈیا ڈیپارٹمنٹس کی بات کی جائے تو اس وقت صرف مرکز میں ہی دس سے زیادہ یونیورسٹیاں میڈیا میں اسپیشلائزیشن کروا رہی ہیں. جس کا مطلب ہر سال میڈیا میں ڈگری حاصل کرنے والے ہزاروں طلبہ اور طالبات یونیورسٹیوں سے فارغ ہوتے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ آیا ان سب طلبہ اور طالبات کے خوابوں کی تکمیل ہوتی ہے یا نہیں؟یعنی نوکری ملتی ہے یانہیں؟ یا کتنے لوگ پرنٹ میڈیا میں جانا چاہتے ہیں اور کتنے الیکٹرانک میڈیا میں؟ جیسا کہ پہلے بھی بتایا کہ زیادہ تعداد ان طلبہ اور طالبات کی ہوتی ہے جو الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی چینلز کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ جلد از جلد سکرین پر آکر راتوں رات مشہور ہو جائیں؛ یعنی سستی شہرت حاصل کرنے کے خواہشمند. لیکن ایک سیمسٹر سے اگر چالیس کے قریب لوگ یونیورسٹی سے میڈیا کی ڈگری حاصل کرتے ہیں تو ان میں سے بمشکل چار یا پانچ خوش قسمت افراد ٹی وی چینلز میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں. ان میں سے کچھ اپنی قابلیت پر جب کہ کچھ کسی جان پہچان کی بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بنتے ہیں. میڈیا کے طالب علموں میں زیادہ تعداد تو ان لوگوں کی بھی ہے جن کو ڈگری کی شرط پوری کرنے کے لئے کسی بڑے تو کیا چھوٹے چینل میں بھی انٹرن شپ یا ٹریننگ نہیں ملتی. یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اسی سے نوے فیصد طلبہ و طالبات کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ کسی اور فیلڈ کا انتخاب کرتے ہیں، ایسی فیلڈ کا انتخاب جس کا تعلق دور دور تک میڈیا سے نہیں ہوتا۔
میڈیا کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ میڈیا صرف الیکٹرانک میڈیا اور ٹیلی ویژن چینلز کا نام نہیں بلکہ اسکے زمرے میں پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، ایڈورٹائزنگ، پبلک ریلیشنز ، ریسرچ، ٹیچنگ اور بہت سے دوسرے بھی شعبے آتے ہیں، جن کو پیشے کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے. اس لئے میڈیا کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران اور بعد میں دلبرداشتہ ہونے کی بجائے ان میں سے کسی کام کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

1 Comment

  1. “میڈیا کے طالب علموں میں زیادہ تعداد تو ان لوگوں کی بھی ہے جن کو ڈگری کی شرط پوری کرنے کے لئے کسی بڑے تو کیا چھوٹے چینل میں بھی انٹرن شپ یا ٹریننگ نہیں ملتی.”
    باقی تو ٹھیک ہے لیکن اس جملے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!

Comments are closed.