بروہی، سرائیکی اور پوٹھوہاریوں پر جبری انتقال قومیت کا تسلط

 

(جام سعید احمد)

اس مضمون کو لکھنے کا محرک وہ بلوچ اور پنجابی ہیں جو کہتے ہیں سرائیکی قوم نہیں ہے بلکہ زبان ہے۔ پنجابی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سرائیکی زبان ہی نہیں ہے۔ چلیں جناب قصہ ختم باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ میں عرصہ دراز سے ریاض سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہوں۔ مجھے عربی زبان اور اس کے رسم و رواج کے بارے میں بخوبی علم ہے۔ عرب مہذب خطہ ہے اس کی اپنی روایت اور رسم و رواج ہیں۔ میں اس مضمون کو چھیڑنے سے پہلے عربی لسان کے بارے میں بتاتا چلوں۔ عربی سامی السان گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔ سامی السان میں دراوڑی، ملتانی آوازیں شامل نہیں ہیں۔ عرب اور فارس والے ملتانی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں۔ مشرق کی زبانیں مختلف لسانی گروپس میں منقسم دیکھائی دیتی ہیں۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے عربی سامی السان گروپ سے تعلق رکھتی ہے اب ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ عرب اور فارس کس طرح نسلی ثقافتی تہذیبی گروہ ہیں؟ عرب اور فارس نسلاً بھی ہیں اسکے ساتھ قومیتی، تہذیبی ، ثقافتی گروہ سےتعلق بھی رکھتے ہیں کیونکہ ہر لسانی ، ثقافتی ، تہذیبی گروہ نسلی گروہ ہوتا ہے۔ عرب خود کو سامی السان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں سامی السان کا مطلب غیر یہودی کے ہیں عربی زبان کے مطالعہ سے یہ بات ثابت شدہ ہے عرب خطہ کے لوگ ” ٻ، ، ٹ ، چ ،ڄ ، ڈ ، ݙ ، ڑ ، ژ ، گ، ڳ ‏‏‏‏،ݨ ” کی صوتی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں ان حروفوں میں ملتانی آوازیں بھی شامل ہیں اس کا تو صاف مطلب ہے عرب قبائل میں ان حروف سے شروع ہونے والی ذاتیں یا قومیتی گروہ نہیں ھونگے جو ایسے حروف سے شروع ہوتے ہوں یا قومتوں میں ایسے حروف آتے ہوں ، عرب لسان کے علاقے میں ایسی قومیں یا قبائل آباد نہیں ہیں جو” گ ” سے شروع ہوں۔ “گ ” کی آواز ملتانی آواز ہے عرب خطہ سے تعلق رکھنے والے گروہ سرائیکی، سندھی، بروہی یا مجموعی طور پر دراوڑی صوتی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ ان میں دراوڑی اور ملتانی صوتی آوازیں نکالنے کی صلاحیت سرے سے نہیں ہے۔

لسان، ثقافت اور جغرافیے کو سمجھنے کیلئے ہم اس پورے خطے کو تین حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں تاکہ سمجھنے اور سمجھانے کیلئے اسانی رہے۔ ہم عربوں کو ان کی پسند کے مطابق سامی السان کہہ دیتے ہیں عبرانی لسان کا تعلق بھی سامی السان میں ہوتا ہے جو کہ ایک یہودی النسلی گروہ ہے . دوسرے حصے میں ایران یا فارس کو رکھتے ہیں. تیسرے حصے میں ملتان کی آوازوں یعنی موجودہ یا ماضی کے ملتان کو رکھتے ہیں اپ ملتان کو سپت سندھو کہہ لیں یا ملتان کہہ دیں بات ایک ہی ہے۔ جیسا میں نے اوپر عرض کیا ہے عربی ، ملتانی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں ہمارا فوکس ملتان کی آوازیں ہیں۔ اس بحث کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ہمیں سب سے پہلے عرب خطے اور عربی لسان کو سمجھنا ہو گا۔

جیسا کہ میں اوپر واضع کر چکا ہوں کہ لسان کے لحاظ سے عربی ایک مفصل زبان ہے .عربی کے اندر ” ٻ، ، ٹ ، چ ،ڄ ، ڈ ، ݙ ، ڑ ، ژ ، گ، ڳ ‏‏‏‏،ݨ “کی مخصوص صوتی آوازیں نہیں ہیں یہاں پر جو نقشہ بنتا ہے اگر عرب خطہ سے کوئی گروہ یا فرقہ ہمارے خطہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ ہمارے رسم و رواج ، لسان سے کلی طور پر مختلف ہو گا اب دیکھیں بلوچ محقق کیا دعویٰ کرتے ہیں؟

بلوچ محقق اور تاریخ دان دعویٰ کرتے ہیں بلکہ واشگاف الفاظ میں دلیل دیتے نہیں تھکتے کہ بلوچوں کے نسلی ، ثقافتی ، تہذیبی رشتے حلب سے ہیں اور وہ حلب سے آئے ہیں حلب تو عربی اللسان کا علاقہ ہے پھر بلوچی کے اندر “گ” سے شروع ہونے والے گروہوں کے نسلی رشتے کس طرح عرب قوم کے ساتھ ہو سکتے ہیں ؟ انکا نسلی ، ثقافتی رشتہ حلب سے تو ثابت نہیں ہوتا ۔ ان بلوچ لکھاریوں کی تحریروں میں جا بجا ابہام پھیلا ہوا ہے اور مغالطے پیدا کئے گئے ہیں بلوچ بذات خود دعویٰ کرتے ہیں وہ نسلی گروہ ہیں لیکن عرب اور فارس نسلی سے زیادہ قومیتی ، ثقافتی ، تہذیبی اور جغرافیائی گروہ ہیں جیسا کہ سرائیکی ، اور سندھی لسانی ، قومتی ، تہذیبی ، ثقافتی اور ڄغرافیائی گروہ ہیں۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ جب آپ بلوچوں کی ثقافتی ، تہذیبی ، لسانی ، جغرافیائی ہیت یا نسلی گروہ بندی پر غور کرتے ہیں تو بلوچ آپ کو سرائیکی ، سندھی ،عربی اور فارسی کلچر کا حصہ دیکھائی دیتے ہیں۔

بلوچ لکھاریوں نے اتنے زیادہ مغالطے کیوں پیدا کر رکھے ہیں؟ اب دیکھیں سیریا یا شام کا ایک عربی السامی علاقہ ہے جہاں پرعربی آس پاس بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ جیسا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کچھ گروہ حلب سے درانداز یا ہجرت کی غرض سے نکلتے ہیں اور ایران ، عمان کے راستے ملتان کی سرحدی حدود میں داخل ہوتے ہیں کیا ان گروہوں کی بول چال اور رسم ورواج میں ملتان کی آوازیں یا ایسے الفاظ بولنے کی صلاحیت ہو گی؟ بلکل نہیں قعطاً نہیں کیونکہ یہ گروہ عرب خطہ سے داخل ہوا ہے جو ملتانی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں۔ جب یہ گروہ ملتان کی حدود میں داخل ہوئےہونگے تو یہاں کے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ ہونے کی وجہ سے اس گروہ میں ملتانی آوازیں اور ملتانی گروہ شامل ہوئے ہونگے۔ بلوچ لکھاری کہتے ہیں سرائیکی زبان ہے قوم نہیں ہے تو کیا بلوچ ، سرائیکی زبان حلب سے لیکر آئے تھے؟ یا بلوچوں نے ملتان کی سرحدی حدود میں آ کر بروہی ، سندھی اور سرائیکی سیکھی؟ جن گروہوں ، قومتوں سے انھوں نے سرائیکی یا بروہی سیکھی ہے وہ کون تھے یا کون ہیں ؟ یا پھر ہم فرض کر لیں کہ سرائیکی سکھانے والے فرشتے یا چرند پرند تھے؟ جو سرائیکی سیکھا کر غائب ہو گئے؟ اُن کی قومیت گمشدہ بن گئی ؟ کیا یہ گروہ بلوچوں کو سرائیکی ، بروہی سیکھا کراس سرزمین سے ہجرت کر گئے؟

سرائیکی سائکی کے بارے میں تو مشہور ہے بلکہ یہ سرائیکی تاریخ کا حصہ ہے کہ سرائیکی ہجرت نہیں کرتے بلکہ اپنے وطن میں رہنا پسند کرتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ قومیں ، قبیلے کہاں ہیں جنھوں نے بلوچوں کو سرائیکی ، سندھی ، بروہی سیکھائی ؟ دراصل بات یہ ہے جن گروہوں پر بلوچ ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے دراصل یہی وہ گروہ ہیں جنھوں نے بلوچوں کو سرائیکی ، سندھی اور بروہی سکھائی ہے اور یہی گروہ جبری انتقال قومیت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں یہی قبائل آج بھی تہذیبی ، لسانی ، ثقافتی طور پر سرائیکی ، سندھی قوم کا حصہ ہیں یہی قبائل بلوچوں کی وجہ سے جبری انتقال قومیت کا نشانہ بنے ہیں اور اپنی قومیتی شناخت سرائیکی ، سندھی اور بروہی کو نظر انداز کر کے اپناجدید نسلی تعرف بلوچی کے طور پر کرواتے ہیں۔ حالانکہ یہ ثقافتی ، تہذیبی ، نسلی ، لسانی اور تہذیبی طور بلوچ نہیں ہیں۔

بلوچوں کا یہ دعویٰ سرائیکی ، سندھی اور بروہی زبانیں ہیں قومیں نہیں ہے سرائیکی ، سندھی ، بروہی کی سرزمین کے خلاف بڑی گہری سازش ہے جس طرح بلوچوں نے بروہی کی نفی کر کے بروہی کی علاقائی شناخت کو ہڑپ کر لیا ہے وہی طریقہ بلوچ سرائیکیوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ سرائیکی جغرافیہ کو ہڑپ کر سکیں۔ اگر سرائیکی قبائل جبری انتقال قومیت کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنا جدید تعارف بلوچی کے طور پر کرواتے ہیں جیسا کہ ہو رہا ہے تو سرائیکی سرزمین پر بلوچوں کا تسلط از خود قائم ہو جائے گا جیسے بلوچوں کا تسلط قلات پر ہوا ہے اور بروہیوں نے جدید نسلی بلوچی شناخت کو اختیار کر لیا ہے اور اپنی قومیتی بروہی شناخت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ دستبردار ہو گئے ہیں ۔ بالکل اسی طرح پوٹھواری علاقے پر پنجابیوں کا تسلط قائم ہونے سے پوٹھواری شناخت ختم ہو کر پنجابی شناخت میں بدل چکی ہے۔ بروہی کی علاقائی شناخت پر کیونکہ بلوچ مسلط ہیں اس وجہ سے قلات کی علاقائی شناخت بروہی کے بجائے بلوچ شناخت کے ساتھ منسلک ہو چکی ہے کیونکہ علاقے کی شناخت قومیت کی شناخت کے ساتھ منسلک ہوتی ہے علاقائی شناخت سے ہی اپ اپنے قومتی وجود کو تسلیم کرواتے ہیں اگرآپکی جغرافیائی شناخت پرکوئی اور گروہ کا قبضہ ہو جائے تو اپ مجبور ہو کر مسلط کردہ گروہ کی شناخت کو اختیار کر بیٹھتے ہیں جیسا کہ بروہی اور پوٹھواریوں کے ساتھ ہوا ہے۔

سرائیکی بھی متاثرہ فریق ہیں ملتان جسکی سرحدیں کیچ مکران تک تھی اور ہیں سرائیکی پے در پے حملوں کے نتیجے میں کیچ سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے اور کیچ مکران کے مقامی جبری انتقال قومیت کا شکار بنے۔ سرائیکی کے بہت سارے دوسرے قبائل جو جبری انتقال قومیت کا نشانہ بنے اور اپنی شناخت کو کھو بیٹھے اب یہ سرائیک علاقے جغرافیائی تبدیلی کے انتقال کی وجہ سے بلوچ علاقےمیں بدل چکے ہیں اب ان سرائیکی قبائل کا تعارف بلوچی کے طور پر کیا جاتا ہے حالانکہ تہذیبی ، تمدنی ، لسانی ، نسلی ، ثقافتی ، جغرافیائی طور پر ان قبائل کا تعلق حلب سے نہیں ہے بلکہ جغرافیائی تہذیبی ، تمدنی ، نسلی ، ثقافتی اور لسانی بنیاد پر یہ قبائل سرائیک ہیں آج بھی سرائیکی بولتے ہیں کیونکہ جبری انتقال قومیت کا نشانہ بنے ہیں اس وجہ سے بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اپنا جدید تعارف یعنی بلوچ کے طور پر کرواتے ہیں ہمیں بروہی اور پوٹھواری قوم کی جغرافیائی جبری گمشدگی سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے یہ جبری گمشدگی فرد واحد یا گروہ کی نہیں ہے بلکہ پوری قوم اور اس قوم سے منسلک جغرافیہ کی ہے جس کو جبراً اغوا کر لیا جاتا ہے اور جبراً انتقال قومیت مسلط کر دی جاتی ہے یہ جغرافیے کی جبری گمشدگی ہی تو ہے جو پچھلے چند سو سالوں میں ہمیں دیکھائی دی ہے۔

جس جغرافیے سے آپ کی شناخت وابستہ ہے اس سے متعلق بلوچوں کی متضاد تحریریں ملتی ہیں۔ بلوچ لکھاری سرائیکی، سندھی ، بروہی کو زبان اور بلوچ کو قوم بنا پیش کرتے ہے تاکہ سرائیکی، سندھی، اور بروہی قبائل قومیت کی بنیاد پر بلوچوں میں دلچسبی یا راغب ہو سکیں اور آپ میں بلوچی قومیت اختیار کرنے میں دلچسبی پیدا ہو سکے آپ بلوچ قومیت اختیار کرنے میں فخر محسوس کریں۔ سرائیکی، سندھی اور بروہی سے متعلق ابہام کیوں پیدا کئے گئے ہیں؟ تاکہ سرائیکی ، سندھی اور بروہی قبائل کو جبری طور پر بلوچی کے کھاتے میں ڈال کر سرائیکی، سندھی اور بروہی جغرافیے پر بلوچ اپنا تسلط قائم رکھ سکیں.جب مقامی قبائل میں بلوچی قومتی نظریہ سرایت کر جائے گا تو ان قبائل کی بنیاد پر سرائیکی، سندھی اور بروہی جغرافیے کو بلوچ جغرافیے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بلوچوں کے اندر نان بلوچی قبائل خود کو سرائیکی، سندھی اور بروہی کے بجائے بلوچ کہہ رہے ہیں انکی جدید بلوچی شناخت کی بنیاد پر بلوچ اپنا تسلط قائم رکھ سکتے ہیں جیسا کہ بروہی کے ساتھ سانحہ ہوا ہے ۔بروہی کے خلاف بلوچوں نے تواتر کے ساتھ پروپیگنڈا کیا کہ بروہی زبان ہے اور بلوچ قوم ہے تاکہ بروہی ، بلوچ قومیت کی طرف راغب ہوں بروہی جغرافیہ پر بلوچوں کا اثر رسوخ بڑھے ۔اب پوزیشن یہ ہے بروہی اپنی جغرافیائی شناخت مسخ کر چکے ہیں اور اپنا جدید تعارف بلوچ کے طور پر کرواتے ہیں اس وقت بروہی جغرافیہ بلوچوں کے زیر اثر ہے اسکی وجہ بروہیوں کا جدید بلوچی لقب کو گلے لگانا ہے اسی بلوچی تعارف کی وجہ سے بروہی جغرافیہ کا تعرف بلوچوں کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے ناصرف بروہیوں نے اپنا جداگانہ تشخص خود ختم کیا ہے بلکہ بلوچی گروہ میں زعم ہوئے ہیں اور بروہی نے قومیت کیلئے خاطر خواہ مزاحمت نہیں کی ، یہی وجہ ہے بروہی جغرافیے کی شناخت بروہی کے بجائے بلوچی کے ساتھ منسلک ہو چکی ہے ۔ اسی فارمولے کے ذریعے سرائیکی قوم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ سرائیکی جغرافیے کا تعارف سرائیکی کے بجائے بلوچی کے ساتھ نتھی ہو سکے بلوچوں کے زیر اثر لایا جا سکے۔ یہ جبری انتقال قومیت کی بڑی خطرناک اسٹیج ہے سرائیکی قوم اس جبری انتقال قومیت کو سمجھے اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمتی کردار ادا کرے تاکہ سرائیکی جغرافیہ کی جبری تبدیلی کو روکا جا سکے۔