“کاں کاں” کے شور میں سوئی ہوئی قوم

میڈیا کی بحثیں
میڈیا

(ذوالفقار علی)

کوے بھی عجیب پرندے ہیں تھوڑی سی گڑبڑ بھی برداشت نہیں کرتے۔ خود تو کالے ہیں مگر کالا رنگ انہیں راس نہیں آتا۔ کالی شلوار، کالی کوٹھی اور کالے کرتوت والے لوگوں کو یہ بالکل پسند نہیں کرتے۔ جونہی ان کی نظر کالے رنگ پے پڑتی ہے کاں کاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ برادری ازم پر یقین رکھتے ہیں، اکٹھے رہتے ہیں، ہاں البتہ اپنے کالے کرتوتوں پہ پردہ ڈالنے میں غضب کا فن رکھتے ہیں۔ ان کی عادتوں اور اداوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ اصل اصیل حُکمرانوں کی “جاتی” کے لگتے ہیں۔

مثال کے طور پر کمزوروں کو نشانہ بنانے میں یہ دیر نہیں کرتے۔ روٹی تک چھین لیتے ہیں، سفید کپڑے سے بھی انہیں نفرت ہے “بیٹ” میزائل سے حملہ آور ہو کر تاک کے نشانہ لگاتے ہیں جو کبھی خطا نہیں ہوا، سُرخ رنگ کے صابن کو بھی نہیں چھوڑتے حالانکہ یہ اُن کے کسی کام کا نہیں ہوتا پھر بھی سُرخ رنگ کے صابن کو اپنے پنجوں میں دبوچنے سے باز نہیں آتے۔ میرا یقین نہ آئے تو اس ماہیے کو سُن لیں

” کاں تے صابن چا گیا، ودی ڈُسکے دُسکے روندی آں”

اپنا گھونسلہ کسی ایسے درخت پر بناتے ہیں جہاں تک دسترس حاصل کرنا جان سے جانا ٹھہر جاتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے گھونسلے والے درخت پر خود نہیں بیٹھتے بلکہ کیموفلاج کرنے کیلئے ساتھ والے درخت پر بیٹھ کر دھیان داری کرتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ کمزور اور بے ضرر پرندوں کے گھونسلوں میں پڑے انڈے اور بچے ان کی پکڑ سے بچ نہیں پاتے۔

شادی، غمی پر سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور خوب ہلا گُلا کرتے ہیں۔ میں نے سُنا ہے وہاں پر باقاعدہ محفلیں سجتی ہیں اور بہت سے کافرانہ فعل جانفشانی سے انجام دئیے جاتے ہیں۔ یہ انسانوں کے آس پاس رہتے ہیں اور اُن پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور موقع پاکر زک پہنچانے میں دیر نہیں لگاتے۔
آج کل ان کا بول بالا ہے جس طرف دیکھو ان کی کاں کاں سنائی دیتی ہے۔ سیاست کے اونچی تال میں ایسے ایسے راگ الاپتے ہیں کہ حیوان تو کیا انسان بھی ان کے راگوں کا دلدادہ ہو جاتا ہے۔

کُچھ مشہور انسان تو باقاعدہ ان کو فالو کرتے ہیں۔ اور ان کا ایجنڈہ لے کر باقی ماندہ لوگوں کو قائل کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بُلھے شاہ کو سبق سکھایا جا سکے۔ ایک کوے نے بُلھے شاہ کو بہت تنگ کیا تھا اُس فقیر مُنش انسان نے اسے “حرامی” تک کا لُقمہ دے دیا تھا۔ “کاں حرامی چھڑنڑ نہ ڈیندا، کیتا کم خراب کریندا”۔

کوے کے عادات و خصائل کو مزید باریک بینی سے جانچنے کے شوقین حضرات اپنے علم کی پیاس بُجھانے کیلئے ان گراں قدر ہستیوں سے مستفید ہو سکتے ہیں جیسے تاریخ کے اوراق پلٹتے “ریا میم جیم” ، مگر مچھ کے آنسو بہاتے “آمر لام” ، حکومت گرنے کے دن بتانے والے “ڈاکٹر شین میم” ، کھری کھری کہنے والے”میم لام” ، دانش بکھیرتے ” ڈاکٹر دال” ، لمبی لمبی چھوڑتے ” کاف خان” فکشن کہانیوں کے اُستاد جناب ” جیم چودھری”، قوم کے درد سے نڈھال جناب “الف عباسی”، شکار کے شوقین ” الف اقبال” ، جرگہ کے ذریعے ہاتھ صاف کرنے والے سائیں “سین سافی”، سکینڈل اُبھارنے والے جناب “رے کُلا، سرآ” ، مایوسی کی دلدل میں دھنسے جناب “ع بھٹی”، اندر کی خبروں کے بے تاج بادشاہ سب کچھ جاننے کے باوجود ابھی تک “صابر و شاکر” اور سٹیٹس کو سے متنفر اور زبان سے پھولوں کی بارش برساتے ” چ نثار”۔

ان ہستیوں کے ہوتے ہوئے ہماری قوم علم کی رعنائیوں سے خوب لُطف اندوز ہو رہی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ عظیم لوگ زمین اور آسمان کے قُلابے ملا کر ایسا ایسا رگڑا لگاتے ہیں کہ بیچ والوں کی پسلیاں سرک کر ایسے مُڑتی ہیں جیسے تیر کمان مُڑا ہو۔ آئیے ذرا ان ہستیوں کو مل کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اللہ اللہ کیا منظر ہے شام کے آٹھ بج چُکے ہیں ٹی وی کی سکرینوں پر ورد ہو رہا ہے ، قصیدے پڑھے جا رہے ہیں، انقلاب انقلاب کی صدائیں ہیں، مُستقبل کے خواب بُنے جا رہے ہیں، شریفوں کی نام نہاد شرافت کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے، زرداریوں کے کھیل کو بے نقاب کیا جا رہا ہے، غداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی تاویلیں باندھی جا رہی ہیں، پردہ نشینوں کے آنے کی تیاریوں میں جوتیاں چمکائی جا رہی ہیں، مُرغ آپس میں لڑ رہے ہیں واہ کیا منظر ہے، مُرغوں کو لڑانے والے اپنے اپنے مُرغوں کو شہ دے رہے ہیں اور مُرغ لڑ پڑے کوئی ٹانگ کھینچ رہا ہے کوئی آنکھ نکال رہا ہے قسم سے ایک مُرغ نے تو ایسا وار کیا کہ گردن دبوچ لی، کُچھ مرغیاں بھی کُٹاں کُٹاں کر رہی ہیں مگر اُن کی کُٹ کُٹ پے کوئی دھیان نہیں دے رہا کیونکہ اکھاڑا بہت گرم ہو چُکا ہے ، سانسیں تھم چُکیں ہیں دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی ہے اور کُکڑ باز زور زور سے چلا رہے ہیں تماشائیوں کے جذبات اُبھار رہے ہیں اور تماشائی دم بخود ہیں۔ لڑائی کو 3 گھنٹے بیت چُکے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ آہستہ آہستہ کُکڑ باز، کُکڑ اور تماشائی سب دھیمے ہوتے جا رہے ہیں۔

سب کی نظریں ریفری پر ہیں کہ وہ کیا فیصلہ دیتا ہے کس کُکڑ کی تیاری پر داد دیتا ہے اور کس کو ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر کمزور پاتا ہے۔ لو جی ایک اور آواز آ رہی ہے جو تھرڈ ایمپائر کی بات کر رہی ہے۔ نوجوان اُس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تھرڈ ایمپائر کی بتی کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ سبز اور پیلی بتی جلتی بُجھتی رہتی ہے تھرڈ ایمپائر ہر زاویے سے لڑائی کا جائزہ لیتا ہے مُختلف فریمز میں عقابی نظریں ڈالتا ہے اور فیصلہ دیتا ہے کہ یہ میچ کل پھر ہوگا۔

کُکڑ باز، کُکڑ اور ریفری نئے داؤ پیچ کے پھر حاضر ہونگے تب تک تماشائی سولیں۔ ہاں جاتے جاتے اتنی سی عرض ہے ذرا خراٹے کم کم کیونکہ باقی قوم نے بھی تو سونا ہے کہیں نیند میں خلل نہ آجائے۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔