ریاست کے بنیادی اداروں میں تعاون ضروری ہے

لکھاری کا نام
صاحب تحریر، حر ثقلین

حُر ثقلین

عمرانی علوم کے مفکرین کے مطابق مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ ریاست کے تین بنیادی ستون ہیں۔کسی بھی جمہوری اور فلاحی ریاست کی بقا اور ترقی کا دارومدار ان تین اداروں کی کارکردگی سے مشروط ہے۔ریاست کا آئین ان تینوں اداروں کے فرائض اور حدود کا تعین کر تا ہے۔ہر ادارے کو اپنی حد کے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ تینوں ادارے جس قدر فرض شناس،دیانتدار اور پر خلوص ہوں گے ریاست اسی قدر مضبوط اور مستحکم ہو گی۔اگر ان تین اداروں میں سے کسی بھی ادارے میں کوئی سقم،جھول یا سُستی موجود ہو تو ریاست کے اندر بھی کمزوری اور انتشار موجود ہو گا۔ریاست کی ترقی اور فلاح کے لیے یہ امر بھی لازم ہے کہ ان تینوں اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ان اداروں کے درمیان کسی بھی قسم کا کھچاؤ ریاست اور اس کے عوام کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔اگر ان کے درمیان چپقلش شدید ہو جائے تو ریاست کی سلامتی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

پاکستانی ریاست اپنے قیام سے لے کر اب تک مختلف قسم کے تجربات سے گزرتی رہی ہے۔یہاں کبھی مارشل لاء اور کبھی جمہوری نظام ہائے حکومت کے تجربات کیے گئے۔اب گزشتہ چند سالوں سے مکمل جمہوری نظام رائج ہے اور ریاست میں  1973کا متفقہ آئین نافذ ہے۔ یہاں بھی یہ تینوں ادارے موجود ہیں اور فعال ہیں۔ مقننہ قانون سازی کرتی ہے۔عدلیہ اس قانون کی تشریح کرتی ہے اور انتظامیہ اس قانون پر عمل کرواتی ہے۔ مقننہ اور انتظامیہ کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ اسی لیے یہ دونوں ادارے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور عوام ہی ووٹ کے ذریعے ان کا احتساب بھی کرتے ہیں۔ انتظامیہ پارلیمنٹ کے سامنے بھی جوابدہ ہے اور عدلیہ کے فیصلوں کی پابند ہے۔ اعلیٰ عدلیہ آئینِ پاکستان کی محافظ ہے۔ شفاف گورننس اور بنیادی حقوق کی عملداری کے لیے آئینی اصولوں کی حفاظت عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔قانون کی حکمرانی ایک غیر مہذب معاشرے کو مہذب بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں عدلیہ کا کردار اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی قوم کی اس ادارے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسلہ کرپشن ہی ہے۔ملکی وسائل کا ایک بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ ملک کی ترقی اور سالمیت کرپشن کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔پانامہ پیپرز میں حکمران خاندان کا نام آنے سے ملک کی عوام حیران وپریشان ہے۔تحریک انصاف نے اس مسلے پر آواز بلند کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ معاملے کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔

حکومت ٹال مٹول کرتی رہی ۔پارلیمنٹ نے معاملے کو التوا میں رکھا۔جب مقننہ اور انتطامیہ احتساب کرنے سے ہچکچانے لگی تو قوم میں مایوسی کا عنصر نمایاں ہونے لگا ۔ ایسے وقت میں ریاست کے تیسرے ستون نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور اس معاملے کا از خود نوٹس لے کر سماعت شروع کی۔وزیر اعظم پر الزام ہے کہ ان کے خاندان نے ملک سے باہرغیر قانونی اثاثے بنائے۔ملک سے دولت کو غیر قانونی طور پر باہر منتقل کیا۔ حکومت کے درجن بھر وزراء اور مشیران روزانہ عدالت کے باہر اور پھر ٹیلی وژن پر ٹاک شوز میں وزیر اعظم کی بے گناہی ثابت کر رہے ہوتے ہیں۔اپوزیشن کے لوگ وزیر اعظم کو نااہل قرار دے رہے ہوتے ہیں۔کچھ وزراء نے تو عدالت کو مشورے اور ہدایات بھی دے ڈالی ہیں۔روزانہ نئی دستاویزات سامنے آرہی ہیں غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی وزیر اعظم کے بچوں کے کاروبار اور اثاثوں کے بارے میں کہانیاں شائع کر رہے ہیں۔ اس معاملے نے عالمی توجہ حاصل کر رکھی ہے۔

جن دوسرے مہذب اور جمہوری ملکوں کے حکمرانوں کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں وہ خود مستعفی ہو گئے اورا نہوں نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے۔مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوا ہے۔ریاست کے دو اداروں پارلیمنٹ اور حکومت نے اس معاملے میں صرفِ نگاہ برتا اور کمزوری دیکھائی وزیر اعظم سے اس بابت کوئی سوال نہیں کیا ۔ان دو اداروں کی اس کمزوری نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔کرپشن کو جائز سمجھا جانے لگا اور یہ ایک خطرناک سوچ ہے۔عدلیہ ریاست کا سب سے طاقتور ستون ہے۔ پوری قوم کو اس پر اعتماد ہے۔ اب قوم کی تمام تر نظریں عدالتی نظام پر مرکوزہیں۔نظریہ ضرورت کب کا دفن ہو چکا اب عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی قوم کو قبول ہو گا۔البتہ مقننہ اور انتظامیہ کو اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی اور عدلیہ کے ساتھ کھڑا ہونا گا کیونکہ ان تین اداروں کے باہمی تعاون سے ہی عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ، ریاست کی بقاء، سلامتی اور ترقی ممکن ہے۔