معاشرہ، طاقت اور شخصی آزادی

Dr Shahid Siddiqui
ڈاکٹر شاہد صدیقی

معاشرہ، طاقت اور شخصی آزادی

از، ڈاکٹر شاہد صدیقی

فرد اور معاشرے کے مابین تعلق کی بحث نئی نہیں۔ اس تعلق کی نوعیت مختلف سیاسی نظاموں میں مختلف رہتی ہے۔ فرد اور معاشرے کے تعلق کی نوعیت شخصی آزادی (personal freedom) پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شخصی آزادی کی نوعیت اور سطح کے تعین میں کئی عوامل کارِ فرما ہوتے ہیں جن میں جنس، نسل، سماجی طبقات اور قومیت شامل ہیں۔ نتیجتاً آزادی کا تصور طاقت (power) کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔

دوسرے لفظوں میں زیادہ طاقت فرد کی آزادیٔ کار میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ طاقت اور آزادی کیسے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرچلتی ہیں، اس کے لیے ہمیں طاقت کے تصور کا جائزہ لینا ہوگا اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ معاشرے میں ایک فرد کی طاقت کے کون سے ذرائع ہیں۔
فرانسیسی ماہر عمرانیات بورڈیو (Pierre Felix Bourdieu) نے تصورِ سرمایہ (concept of capital) کے ذریعے طاقت کے تصور کی تفہیم کی ہے۔

بورڈیو کے مطابق معاشی (economic) معاشرتی (social) اور ثقافتی (cultural) سرمائے کسی بھی فرد کی معاشرے میں طاقت کا تعین کرتے ہیں۔ معاشی سرمائے (economic capital) سے مراد معاشی املاک ہیں جن میں نقد رقم اور جائیداد شامل ہیں معاشرتی (social capital) سے مراد فرد کے معاشرے میں اہم لوگوں سے تعلقات (social network) شامل ہیں۔ اگر کسی فرد کے تعلقات معاشرے میں نمایاں اور با اثر افراد کے ساتھ ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرتی طور پر زیادہ معقول اور طاقت ور ہے۔

ثقافتی سرمائے (cultural capital) سے مراد فرد کی معاشرے کے طے کردہ با وقار (prestigious) اداروں سے تعلق ہے۔ مثلاً اگر ایک فرد کسی ممتاز تعلیمی ادارے سے وابستہ رہا ہے یا اس نے کسی ممتاز ادارے میں کام کیا ہے تو معاشرے میں اس کا مقام افضل ہوتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایک سرمایہ دوسرے سرمائے میں تبدیل (convert) ہو سکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کے پاس معاشی سرمایہ ہے تو اسے ثقافتی سرمائے کے حصول میں آسانی ہوگی اسی طرح ثقافتی سرمائے کے حامل افراد کو معاشرتی سرمائے کے حصول میں دقت نہیں ہوتی۔

سرمایوں (capitals) کے حوالے سے طاقت (power) اور آزادی کے تعین کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی ادارے بھی آزادی کی تشکیل کرتے ہیں۔ ان معاشرتی اداروں میں خاندان، تعلیمی ادارے، مذہب اور میڈیا ہیں۔ صنعتی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے تناظر میں یہ سمجھا گیا ہے کہ آج کا انسان ماضی کی نسبت بہت زیادہ آزاد ہے۔ لیکن نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ عہد جدید میں سب کچھ اس کے برعکس ہے۔

کارپوریٹ سیکٹر جس کے پاس مارکیٹنگ کے لیے فنڈز کی وافر مقدار موجود ہے۔ یعنی یہ سیکٹر اپنے سرمائے کی مدد سے لوگوں کی خواہشات اور ضروریات کا تعین کر رہا ہے۔اگرچہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

انفرادی آزادی پر بھی طاقت ور اشتہارات بہت موثر اور طاقت ور انداز میں اثرانداز ہوتے ہیں۔ جرمن فلاسفر اور ماہر سماجیات ایڈورنو (Adorno) کا کہنا ہے کہ ”جدید دور میں شخصی آزادی کی جگہ کارپوریٹ منطق (corporate logic) نے لے لی ہے‘‘۔

تعلیم جوکہ ایک اہم معاشرتی ادارہ ہے اس کا ایک مقصد لوگوں کی آزادی کی طرف رہنمائی ہے۔ آزادی جو کہ تعلیم کا پہلا بنیادی مقصد ہے وہ عام سکولوں کے بچوں کو اس طرح میسر نہیں جس طرح یہ اشرافیہ کے سکولوں میں بچوں کو میسر ہے۔ یہ بنیادی طورپر اسی وجہ سے ہے کہ غریبوں کے عام سکولوں میں جانے والے بچوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ ان بنیادی سہولیات میں باقاعدہ عمارت، پینے کا پانی اور ٹائلٹ وغیرہ ہیں اسی طرح سکولوں میں ایسے اساتذہ اور متحرک قسم کے کمرہ جماعت ہی نہیں ہیں۔

ایسے حالات میں عام سکولوں کے بچے سوال تک پوچھنے اور اپنے نظریات کے اظہار کی آزادی تک نہیں رکھتے۔ آزادی کاوہ تصور جوبچوں کے اذہان میں نقش ہونا چاہیے۔ عام سکولوں کے بچوں میں تقریباً معدوم ہے۔ آئیں ایک اور معاشرتی ادارے کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں جس کا نام میڈیا ہے۔

میڈیا ایک اہم اور موثر ادارے کے طور پر ابھرا ہے، سامعین پر اثر کے حوالے سے میڈیا کا کردار دیگر تمام اداروں سے بہت زیادہ ہے۔ ہم سب اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ میڈیا قارئین اور سامعین کو مختلف موضوعات پر وسیع تر معلومات فراہم کرتا ہے۔

میڈیا جومعلومات اور علم فراہم کرتا ہے اس کی بدولت لوگوں کو زیادہ طاقت ور ہونا چاہیے اور اسی طرح میڈیا کو لوگوں کی شخصی آزادی کو نکھارنا چاہیے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ارد گرد کی دنیا میں ایسا ہورہا ہے؟ اس سوال کاجواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں نمائندگی کی سیاست (politics of representation) کو سمجھناچاہیے اور میڈیا اس تصورِ نمائندگی کابہت بڑا حامی ہے۔ جیسا کہ فوکو کی رائے ہے کہ طاقت اور علم کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے وہ لوگ جن کے پاس طاقت کا منبع اور سرچشمہ ہے وہ مخصوص قسم کے بیانیے کی آبیاری کرتے ہیں۔ اور یہی بیانیہ معاشرتی حقیقت کی تعمیر کرتا ہے۔

میڈیا یہ سارا کام دواہم تکنیکوں پرائمنگ (priming) اور فریمنگ (framing) کے ذریعے کرتا ہے۔ یہ تصورات گرامچی (Gramsci) کے تصور بالادستی کے قریب قریب ہیں۔ اس طرح میڈیا ایک ایسے ادارے کے طورپر ابھرا ہے جو اپنی مرضی کے تابع لوگوں کی سوچ تشکیل دیتا ہے۔ قارئین، سامعین اور ناظرین جوکہ آزادی کے زعم میں مبتلا ہیں دراصل انہی چیزوں کا چناؤ کر پاتے ہیں جو کہ میڈیا نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق اُن کے لیے چن لی ہوتی ہیں۔

گرامچی اس سارے عمل کو یعنی (spontaneous consent) کا نام دیتا ہے جہاں پرمخصوص طبقہ لوگوں کے تصورات کو اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق لبادہ پہناتا ہے۔چومسکی کی رضاکارانہ مرضی (spontaneous consent) دراصل تعمیر شدہ مرضی (manufactured consent) ہی ہے۔

مرضی کی تعمیر کایہ عمل ایجنڈا کی بنیاد پر قائم شدہ مختلف حقیقتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جو کہ زبان کی مدد سے مرض وجود میں آتا ہے۔ اس تصورکو فیئر کلوف نے اپنی بنیادی کتاب Language and Power میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔ جب آپ ایک ہی واقعے کی مختلف نیوز چینل کی کوریج دیکھیں گے تو آپ کو خاصی حیرانی ہوگی۔

مثال کے طور پر اگر ہم عراق کی جنگ کی کوریج کا جائزہ لیں تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ اس ایک ہی واقعہ کو (Fox News) ”فوکس نیوز‘‘،  CNN اور الجزیرہ نے بہت ہی مختلف انداز میں اپنی ترجیحات کے مطابق پیش کیا ہے۔ اور یہ سب ایک ہی واقع کے مختلف تناظر (perspectives) اور نقطہ ہائے نظر ہیں۔ یعنی ناظرین کسی چیز کے حوالے سے رائے قائم کرنے میں آزاد نہیں بلکہ اس کے برعکس معاشرتی ادارے خصوصاً میڈیا باقاعدہ بنیادوں پر اس رائے کی تعمیر کرتے رہتے ہیں۔

جوں جوں ترقی ہورہی ہے آزادی اسی قدر گریز پا ہوتی جارہی ہے۔ فوکو (Foucault) اپنی کتاب (Discipline and Punish) میں بتاتا ہے کہ کیسے جسمانی سزا کا عمل اب ذہنی اذیت میں بدل رہا ہے۔ باالفاظ دیگر ذہنی سزا جسمانی اذیت کی جگہ لے رہی ہے۔

فوکو کا مجموعی نگرانی (panoptic surveillance) کا تصور یہ واضح کرتا ہے کہ جدیدیت نے کیسے لوگوں کی خلوت اور انفرادی آزادی کو متاثر کیا ہے۔ آج کی جدید دنیا میں ہمارے فون کالز، فون پر پیغامات، انٹرنیٹ پر ہماری سرگرمیوں کی مکمل tracking نے ہماری شخصی آزادی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دفتروں، گھروں اور سیرگاہوں میں ہمہ وقت ہمیں اس کا احساس رہتاہے کہ کوئی ہماری سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یوں ہم عہدِ جدید میں شخصی طور پر آزاد نہیں بلکہ مستقل نگرانی کے سائے تلے جی رہے ہیں۔

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔