صاحبہ ہونے میں بھی کیا بُرا ہے

علی ارقم
علی ارقم

‎صاحبہ ہونے میں بھی کیا بُرا ہے

از، علی ارقم

ہم نے اپنے والد صاحب (شالدا) کو ہمیشہ سے روایتی سخت گیر باپ کے تصور سے مختلف پایا ہے؛ نہ مزاج میں دُرشتی، نہ ہاتھ اُٹھانا، نہ ہی کسی معاملے میں ضد پر اتر آنا۔

شالدا کہتے ہیں، میرے اپنے والد (ہمارے دادا) تو اس وقت گزر گئے جب میں صرف آٹھ برس کا تھا، ہم نے آنکھ کھولی ہے تو ماں کو ہی دیکھا ہے، اور ماں ایسی کہ جن میں سختی و دُرشتی نام کی نہیں۔

والدہ کے ساتھ ہی بچپن گزرنے کا والد صاحب کے مزاج پر بہت اثر رہا ہے، جس کی بناء پر ان میں روایتی سخت گیر باپ کے خصائص نہیں اُبھر پائے۔ جس کا کبھی کبھی وہ ہماری خود سری یا کسی معاملے میں ان کی ہدایت نظر انداز کرنے کے موقعے پر افسوس بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے تم لوگوں کو دوستوں کی طرح رکھا ہے، بیٹوں کی طرح نہیں۔ پھر اپنے کاروباری پارٹنر کا حوالہ دیتے کہ وہ کہتا ہے کہ میں جیسے ہی گھر میں گُھستا ہوں تو بچوں پر ویسی ہی خاموشی طاری ہو جاتی ہے، جیسے باز یا عقاب کی اُڑان سے چھوٹے پرندے دُبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔

میں اس کے جواب میں کہتا، “آپ اگر ویسے ہوتے تو آپ اچھے باپ ہر گز نہ ہوتے۔”

‎مزاج کی نرمی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بہت رقیقُ القلب ہیں، اور بعض معاملوں میں جلد ہی آب دیدہ ہو جاتے ہیں۔ ہم نے ان کو مختلف موقعوں پر بلک بلک کر روتے دیکھا ہے۔ کبھی ساتھ روئے ہیں، تو خود ہی ایک دوسرے کو دلاسا دے دیا۔ مرد کو کبھی درد نہیں ہوتا جیسی حماقت سے کسی کو اتفاق نہیں۔

‎کچن ہمارے ہاں کبھی بھی نو گو ایریا نہیں رہا، بچپن سے ہم نے والدہ مرحومہ (ماں جی) کی طبیعت کی نا سازی کے موقعے پر بلا جھجک گھریلو کام، کچن اور صفائی وغیرہ کرتے دیکھا ہے۔ جون جولائی میں جب ہم سب گاؤں جاتے، تو اسکول کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد ہم شالدا کے ساتھ کراچی آ جاتے۔ ماں جی گاؤں ٹھہر جاتیں۔ شام کو گھر آنے کے بعد شالدا کھانا بنا دیتے جو ہم اس رات اور اگلے دن دو پہر کو کھا لیتے۔

‎والدِ محترم (شالدا) انیس سو ستّر میں سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں کراچی آئے۔ والد کے سایے سے بے وقت محرومی کے باعث ان کا بچپن شروع سے ہی مشقت اور کام میں گزرا۔ دادا مرحوم نے انھیں اسکول میں نہیں بٹھایا، کہتے تھے یہ زمین دارے میں میرا ہاتھ بٹائے گا، ہمارے تایا صاحب اسکول جاتے تھے، اور آٹھویں تک پڑھ بھی گئے تھے کہ پیلیا کی بیماری کے باعث دادا مرحوم انتقال کر گئے۔

ان کی بھی پڑھائی چھوٹ گئی، دادی مرحومہ نے بچوں کو سنبھالا، اور بڑا کیا، بچوں سے وابستگی اتنی کہ جب سارا سوات خلیجی ممالک اور مرچنٹ شپنگ کی طرف اُمڈ پڑا تھا، انھوں نے دعا کی کہ میرے بچوں کو دیارِ غیر کی ہوا نہ لگے، چھوٹے چچا کہتے ہیں اسی دعا کا اثر ہے کہ ہم تمام تر کوشش کے با وجود باہر نہ جا سکے، میں کہتا پر شالدا تو کراچی آ گئے، تو کہا جاتا،”خدا خوب جانتا ہے کہ دیارِ غیر کی سرحد کہاں پڑتی ہے۔”

‎کراچی آمد کے اولین سالوں میں ڈیرے میں رہائش کے دوران بھی وہ باورچی خانے سے جڑے امور انجام دینے اور پھر بعد میں تبلیغی جماعت سے تعلق اور پابندی کے ساتھ اس کے معمولات وغیرہ جیسے سہ روزہ، چِلّہ کے سلسلے میں اسفار کے دوران میں بھی آٹا گوندھنے، کھانا پکانے، برتن دھونے جیسے کام کرنے کے باعث وہ ان میں ماہر ہیں۔

‎بھابی اور بیگم، یا بھتیجیوں سےتو بعض اوقات وہ کہتے بھی ہیں کہ میں آٹا گوندھتا ہوں تا کہ تم لوگوں کو دکھاؤں کہ اسے کیسے گوندھا جاتا ہے، اس میں جو بَل رہ جاتے ہیں اس کو جب تک گوندھ گوندھ کر ختم نہ کردو یہ نرم نہیں ہوتا، اور سخت رہ جاتا ہے۔ نتیجتاً روٹیاں بھی ویسی نرم نہیں ہوتیں، برتن دھونے کے ان کے ضابطے اور معیارات بھی کافی سخت ہیں۔

‎جب سن دو ہزار میں سوات میں پانچ سال گزارنے کے بعد میں کراچی آیا تو انھی دنوں چھوٹی ہم شیرہ کی شادی کے سلسلے میں سب کو گاؤں جانا ہوا۔ شالدا، گاؤں سے آئے میرے کزن رحمان علی، اور میں یہاں رہ گئے۔ اسی دوران والد صاحب کے دیکھا دیکھی مجھے بھی شوق ہوا، تھوڑی بہت کوکنگ سیکھ بھی لی، اگر چِہ میں کبھی بھی اچھا کُک نہیں بن پایا۔

‎ایک بار تو میں دو پہر میں انڈے ابالنے کے لیے رکھ کر بھول گیا تھا، اچانک پٹاخوں کے سٹائل میں کچھ پھٹنے کی آواز آئی۔ میں چونک گیا، جا کر دیکھا تو برتن خالی تھا، پانی سوکھ چکا تھا، اور انڈوں کے چھلکے اور دیگر اجزاء بکھرے پڑے تھے۔ کچھ تو جا کر دیواروں سے چپک گئے تھے۔ اس کہانی کو لے کر آج تک بہنیں میرا مذاق اڑاتی ہیں۔

‎ ان کی جداگانہ طبیعت کا اثر ہم میں بھی در آیا ہے۔ کچن سے ایک طرح کا اُنس مجھے بھی ہے، اور مزاج کی نرمی بھی ویسی ہی، جیسے کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ کبھی سختی نہیں کر پاتا۔ میری بیگم جوکہ مجھ سے زیادہ ڈسپلِنڈ بھی ہیں، اور بچوں کے معاملے بھی سخت گیر بھی، اس لیے میرے بچے، یُسرٰی اور حنین تو برملا کہتے ہیں کہ آپ ہماری ماں ہیں، اور ممّا ہمارے باپ۔

‎بڑے بھائی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کام کے سلسلے میں ہفتہ باہر رہنے کے بعد گھر لوٹتے ہیں تو دونوں بیٹیاں حلقہ بنا کے بیٹھی ہوتی ہیں، اور وہ سارے ہفتے کے لطائف، فیس بک سے اٹھائے چُٹکلے اور اپنے تبصرے سنا سنا کر قہقہے بکھیرتے رہتے ہیں۔ بیٹی یا بیٹی کی کسی بات پر نا راض ہوں تو ہم جولیوں کی طرح بول چال بند کر دیتے ہیں۔ دُرُشتی اور مار پیٹ کا تصور ہمارے ہاں ہمیشہ سے مفقود رہا ہے۔

‎میرے نزدیک تو شخصیت کا یہ نسوانی پہلو آپ کو زیادہ بہتر اور مکمل انسان بناتا ہے، یہ عیب کیسے ہوا۔