ہمارے سماج کا سب سے بڑا مسئلہ

ہمارے سماج کا سب سے بڑا مسئلہ
از، احسان لاشاری
دنیا میں 4300 مذہب ہیں ۔یعنی کہ دنیا میں 4300قسم کے سماج ہیں ۔ہر فرد کی اپنی ایک فکر ہے ،اپنے مذہب کے مطابق اس کی یہ فکر سماج بناتی ہے ۔چونکہ سماج انسانوں کے رہن سہن سے بنتا ہے۔ تو اس میں مختلف قسم کے مسئلے پیدا ہوتے ہیں اس طرح ہم سب ایک سماج میں رہتے ہیں ایک ہی سماج کا حصہ ہیں۔ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔دنیا کے سب سے supreme)) مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہیں۔یوں تو مذہب کے اعتبار سے ہمارے سماج میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے ۔مگر ہم اپنی فکر اس (supreme) مذہب سے نہیں لیتے تو اس کی وجہ سے مختلف قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ہم ان تمام مسئلوں کو بیان نہیں کرسکتے لیکن جو اس سماج کا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا اس کو بیان کرتے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کو بیان کرنے سے پہلے ایک ویتنام کے شہری ماوان نھٹ کا قصہ بیان کروں گا جس کا تعلق ہمارے سماج سے ملتا جلتا ہے۔
ماوان نھٹ کا تعلق ویتنام کے صوبے باک کان سے تھا یہ 1998میں بیمار ہوا ڈاکٹروں کو چھوٹی آنت میں سوراخ نظر آیا سرجر ی ضروری تھا ۔ سرجری ہوئی اور ماوان نھٹ تندرست ہوگیا اور وہ زندگی میں دوبار ہ مگن ہوگیا وہ چھ ماہ نارمل رہتا تھا مگر ایک ہفتہ اس کے پیٹ میں شدید درد پڑتا تھااور وہ اس درد کو مٹانے کیلئے پین کلر استعمال کرتا تھا اسے ان درد کش ادویات سے کبھی آرام آجاتاتھا اور کبھی یہ ادویات کام نہیں کرتی تھیں یہ سلسلہ 19سال تک جاری رہا ان 19سالوں مین پین کلر اس کی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں وہ جہاں جاتاپین کلر ساتھ لے جاتا۔پین کلر کے خوفناک (side effect)ہوتے ہیں یہ (side effect) بھی اس کی زندگی کا حصہ بن گئے تھے ۔ماوان نھٹ کی عمر جنوری 2017میں 54برس کی ہوگئی یہ ایک صبح روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگیا ۔پولیس اسے اٹھا کر ہسپتال لے گئی ۔ہسپتال میں طبیعی معائنے کے دوران معلوم ہوا۔ ماوان نھٹ کے پیٹ میں بڑی قینچی ہے۔
یہ قینچی 1998 کے آپریشن کے دوران اس کے پیٹ میں رہ گئی تھی ۔یہ 19برسوں میں آہستہ آہستہ اس کے چار مختلف اعضاء میں پیوست ہوگئی تھی یہ قینچی ماوان نھٹ کو 19 سال تک تکلیف دیتی رہی مگر یہ تکلیف پین کلر کے ذریعے ٹالتا رہا یہاں تک کہ اسکا ایکسیڈنٹ ہوا یہ ہسپتال پہنچا ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور قینچی الٹرا سائو نڈ میں نظر آئی یہ خبر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز تک پہنچی حکومت کے نوٹس میں آئی اور وزارت صحت نے ہنوئی سے ڈاکٹروں کی ٹیم باک کان بھجوادی ۔ماوان نھٹ کا دوبارہ آپریشن ہوا یہ آ پریشن تین گھنٹے تک جاری رہا ڈاکٹروں نے قینچی نکال دی ماوان کا پیٹ ٹھیک ہوگیا اور یہ اب مکمل طور پر تندرست ہوچکا تھا اور یہ درد کش اور سائیڈانفیکشن والی ادویات سے بھی اسے چھٹکا را مل چکا تھا یہ ماوان نھٹ ویتنام کے ایک مظلوم شہری کی کہانی ہے۔اب اس کہانی کا رخ پاکستانی سماج کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
ہمارے سماج جوعام طور پر سب سے بڑے مسئلے کا شکار ہے وہ ہے ذہنی غلامی یعنی کہ ہمارا سماج ذہنی طور پر مفلوج ہوگیا ہے۔ ہمارے سماج نے ذہنی طور پر قبول کرلیا ہے۔ہمارے معاشرے کے لوگ شخصیت پرستی کو زیادہ فروغ دیتے ہیں۔مثلاً ایک طرف اگر ایک سیاسی پارٹی آتی ہے اور حکومت کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے اور سماج کے لوگ  اس پارٹی کا ساتھ دینے لگتے ہیں ۔اور اگر وہی حکومت جس کے خلاف لوگوں کو کھڑا کیا گیا تھا اگر کوئی ایک عوام کے حق میں کام کردیتی ہے اور  وہی سماج کے لوگ اس حکومت کا ساتھ دیتے ہیں ۔دوسری طرف دیکھا جائے تو ہمارے سماج میں سب سے زیادہ ذہنی غلامی کا کردار ہمارے حکمران ادا کر رہے ہیں ۔ ذہنی غلامی کا سب سے بڑا ثبوت وہی ہیں ۔انہوں نے بڑے (super power)ممالک کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔ہم سب تو CPECکے منصوبے سے آگاہ ہیں جوکہ چائنہ کی مدد سے بنایا جارہا ہے۔ اورہمارے ملک (پاکستان ) میں (chines)زبان سیکھائی جارہی ہے ۔جبکہ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ چائنہ والے اردو زبان چائنہ میں سکھاتے کیونکہ آنا تو انہوں نے ہے پاکستان میں مگر ہماری گورنمنٹ اتنی ذہنی طور پر غلام بن چکی ہے کہ اپنے ملک میں غیروں کی زبان سیکھائی جارہی ہے۔
جس طرح ماوان نھٹ کے پیٹ میں قینچی پیوست ہے اور وہ غلامی کی قینچی اور اسی طرح ہمارے حکمرانون کے ذہنوں میںایک نہیں بلکہ ہزارون قینچیاں پیوست ہیں جوان کو ہر روز تکلیف دیتی ہیں ۔مگر ان کے ذہن پین کلر استعمال کرتے ہیں ۔جو ان کو ہر روز سائیڈ ایفکٹس (side effects) کا شکار کرتے ہیں اور ان کے ذہن اور مفلوج ہوجاتے ہیں اور اسی طرح ہمارے سماج کی اگر سرجری کرائی جائے تو ان کے ذہنوں سے قینچیاں نکلیں گی اور وہ صرف اور صرف ذہنی غلامی کی قینچیاں ہون گی صرف اور صرف شخصیت پرستی کی قینچیاں ہوں گی ۔ہمارے سماج کے لوگ دن کو کماتے اور رات کو سوجاتے ہیں اور اپنے کردار سے محروم ہوگئے ہیں اوراصل میں اپنے کردار سے محرومی بھی ایک قسم کی ذہنی غلامی ہے۔پہلے اپنے سماج کے بگڑتے حالات سن کر دیکھ کر دکھ ہوتا تھا مگر ہم اس دکھ سے محروم ہوچکے ہیں ۔کیونکہ ہمارے ذہن میں غلامی کی قینچی پیوست ہوچکی ہے۔اب ہمارے سماج کو ایک بار تکلیف کرکے اپنے اپنے ذہنوں سے یہ قینچیاں نکلتی ہوں گی اور ماضی کی غلامی سے جان چھڑا کر اور اپنی اگلی نسل کو اس سے بچا لیں ورنہ ہماری اگلی نسلیں بھی اس غلامی کا شکار رہیں گی۔

1 Comment

Comments are closed.