پاکستانی زبانوں کے لوک گیت

پاکستانی زبانوں کے لوک گیت

پاکستانی زبانوں کے لوک گیت

از، احسان اللہ طاہر

پاکستانی زبانیں اپنے الگ لسانی خاندانوں اور تاریخ کے باوجود اپنے لوک گیتوں میں فنی اشتراک رکھتی ہیں، گو کہ ان زبانوں کا اپنا اپنا مزاج، لہجہ اور انداز ہے، ان کے ادب میں فکری ندرتیں، زندگی کے شب و روز کی حقیقتیں اورماضی کی جھلکیاں ہیں، مگر یہی نہیں کہ ان زبانوں کے لوک گیتوں میں فکری اشتراک ہے اور اسی وحدت افکار کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ایک قوم کی پہچان ہے بلکہ ان زبانوں کے لوک گیتوں میں صنفی و ہیئتی اشتراک بھی موجود ہے۔ پاکستانی زبانوں کا لوک ادب بتدریج وقوع پذیر ہوا۔ اس لیے ان کی اصناف کی تشکیل میں علاقائی، مخصوص جذباتی و سماجی پس منظر کا عمل دخل بھی رہا ہے۔ اس ارتقاء کے مراحل میں اس خطے کے تہذیبی ماحول، قوم کے اجتماعی مزاج، قبائلی و خاندانی کردار اور روایات اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے ثقافتی ورثے نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یہاں تک کہ ان علاقوں کے جغرافیائی اور موسمی خدوخال بھی اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ ان ساری باتوں کے ساتھ وہاں کے لوگوں کے رسم و رواج اور ذرائع معاش نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کسی بھی ادب میں صنف سخن کا بننا اور اس کا لوگوں میں مقبول ہونا، اپنا ایک مخصوص پس منظر اور لسانی و ثقافتی حوالہ رکھتا ہے اُس کی تشکیل معاشرے سے باہر رہ کر کبھی بھی عمل میں نہیں آتی کیونکہ جب تک اس گیت کی صنف لوگوں کے مزاج، زبان، ماحول اور زندگی کی عکاس نہیں ہو گی وہ اپنے وجود کو صنفی و ہیئتی اور فکری حوالے سے زندہ و برقرار نہیں رکھ سکے گی۔
”اصناف ادب کی تخلیق کسی معجزے کے نتیجے میں نہیں ہوتی۔ مخصوص جغرافیائی حالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مخصوص تہذیبی، تمدنی اور معاشرتی ماحول ان کی تخلیق میں ممدو و معاون ہوتا ہے”۔
پاکستانی زبانوں کے لوک گیتوں کی اصناف کسی دوسرے علاقائی ادب کی اصناف سے مستعار نہیں ہیں بلکہ ہر زبان کے لوک ادب میں اپنی اپنی تہذیب و ثقافت کے رنگ ہیں، اپنے اپنے علاقے کے مرور ایام کی جھلکیاں ہیں، رنج و الم اور دکھ درد کی کہانیاں، پرچھائیاں ہیں، تلخ و شیریں زمانے کی یادیںہیں، دست بردزمانہ تلخیاں ہیں۔ عشق و محبت کی داستانیں اور وصل و ہجر کے قصے ہیں۔ ان اصناف میں اپنے اپنے علاقوں کے رنگ اور خدوخال ہیں کسی میں دریائوں کی سی روانی ہے تو کوئی صحرائوں کی سی وسعت لیے ہوئے ہیں۔ کسی کی خارجی صورت پہاڑوں کی سی ہے تو کوئی نہروں کی لمبائی کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ الغرض ہر صنف اپنے پس منظر میں مخصوص کردار اور اثرات رکھتی ہے۔ یہ اصناف اپنی مخصوص خارجی صورت اور ظاہری پیکر کی وجہ سے اپنے اپنے علاقے کے لوگوں میں جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ ان کی قدر و منزلت میں کمی بیشی تو ہوتی رہتی ہے۔ مگر ان کے مخصوص انداز میں یعنی ان کے ظاہری پیکر میں جدید تخلیق کاروں نے بھی کوئی تبدیلی نہیں کی اگر کچھ ”جدت پسند” لوگوں نے ان اصناف میں کوئی ہیئت کی تبدیلی کر کے ان کو ادب میں لانے کی کوشش بھی کی ہے تو وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ مجتبیٰ حسین اصناف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
”اپنی ہیئت صنفی، مطالبات زبان اور بیان کے اصول و قواعد کے لحاظ سے ان اصناف کی حدیں (معین) ہیں۔ اسی وجہ سے ان میں امتیاز باقی رہتا ہے اور یہی چیز انھیں سکہ رائج الوقت بناتی ہے”۔
اصناف ادب کے علاوہ جب ہم ان کے ناموں کو طے کر لیتے ہیں تو ان کا ایک مخصوص اور محدود انداز بیان بن جاتا ہے۔ وہ جس رنگ یا انداز میں اپنے ظاہری پیکر کے طو رپر نظر آتے ہیں، وہ ان کی ہیئت ہوا کرتی ہے۔ یعنی کسی صنف کا اپنے مخصوص وزن، ردیف، قافیہ یا الفاظ کے دروبست سے منظر عام پر آنا یا اپنا وجود رکھنا اس کی ہیئت کہلاتا ہے۔ ہر فن پارہ اور ادب ، ہر صنف ادب کسی نہ کسی ہیئت ہی کا محتاج ہوتا ہے اور تخلیق کار اسی ہیئت میں اس مخصوص صنف کو لکھتے ہیں جس میں وہ ماہر ہوتے ہیں۔ فنی حوالے سے ہم ہیئت کو اظہار کی خارجی صورت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اس خارجی پیکر اور انداز سے اس کی انفرادیت اور اپنی الگ پہچان قائم ہوتی ہے۔ ماہیے، ٹپے،جگنی، اللہ ہو، اور دوسری اصناف لوک ادب اپنے خارجی پیکر ہی کی وجہ سے ایک دوسرے سے ممیز ہیں۔ اسی انفرادیت کو ہیئت یا فارم کانام دیا گیا ہے۔ ریاض احمد نے اس حوالے سے ایک اور بات بھی کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ:
”شعر کی ہیئت ایک تو وہ معین اور واضح ہیئت ہے جس کا تعلق سرا سر اس کی ظاہری صورت سے ہے اور اس سلسلے میں کوئی الجھن نہیں لیکن دوسری طرف اس معینہ ہیئت کے اندر ہر فن پارہ اپنی ایک علیحدہ ہیئت بھی رکھتا ہے۔ یہ ہیئت ان تمام تاثرات کے مجموعے کا نام ہے جو لفظ اپنی مختلف سطحوں یعنی صوتی، معنوی اور تلازماتی سطح پر پیدا کرتا ہے”۔
پاکستانی زبانوں کے لوک گیتوں میں کچھ لوک گیت ایسے ہیں جو کہ اپنے اندر صنفی اور ہیئتی اشتراک رکھتے ہیں۔ ان لوک گیتوں کی بحروں اور سروں میں بھی بعض اوقات کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے اوزان کی تقطیع کرنے سے ان میں فنی وعروضی اشتراک بھی نظر آتا ہے۔ مگر لوک گیتوں کا تعلق عروض سے نہیں بلکہ ان کی اپنی مقامی زبانوں کی سروں اور دُھنوں سے ہوتا ہے مگر جب اپنے اپنے خطوں کے لوگ ان کو پڑھتے ہیں تو ان کی لَے اور سُر میں ان کی دھن اور موسیقیت میں ہمیں ایک ایسا مشترک پہلو دکھائی دیتا ہے جو کہ پاکستانی قوم کو ایک وحدت میں رکھنے کے لیے بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
لوک گیتوں کا تعلق چونکہ عوامی سطح پر ہوتا ہے اور ان میں بیان ہونے والے انسانی جذبات بنیادی و اساسی اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے ان کو ایک مخصوص لَے اورسُر میں بیان کیا جاتا ہے۔ ان کے بعد جب ان کا تحریری روپ ہمارے سامنے آتا ہے تو وہ اپنی ایک الگ ہیئت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ جیسے ” پنجابی بولی” پڑھنے میں صرف ایک مصرع ہی لگتا ہے مگر جب اس کو لکھا جاتا ہے تو وہ دو مصرعوں میں لکھی جاتی ہے۔ گیت کا تعلق آواز ، ساز اور سنگیت سے ہے۔ اس لیے اس کے کچھ اپنے لوازمات ہیں۔ جو اگر پورے نہ کیے جائیں تو گیت اپنی صنف اور ہیئت میں اپنی انفرادیت قائم نہیں رکھ سکتے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید گیتوں کی ہیئت اور ان کے فن کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ :
”ہیئت کے اعتبار سے گیت کسی خاص فارم کے پابند نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلق ماتروں، راگوں، دھنوں اور سروں سے ہوتاہے چنانچہ کہیں یہ مخمس، مسدس یا تین لائنوں اور پانچ لائنوں کی صورت میں بھی ملتے ہیں اور کہیں آزاد نظم کا روپ دھار لیتے ہیں اور پھر ان میں استعمال ہونے والے الفاظ بھی بالعموم کسی خاص وزن کے پابند نہیں ہوتے بلکہ تیز یا آہستہ دھنوں کے مطابق کہیں ان کو لمبا کر کے گا لیا جاتا ہے تو کہیں تیزی سے ادا کر دیا جاتا ہے البتہ الفاظ کے استعمال میں ضرور احتیاط ہوتی ہے”۔
ماہیا/ٹپہ میں ہیئتی و صنفی اشتراک
پشتو اور پنجابی زبان میں ماہیا اور ٹپہ ایک ایسی صنف لوک ادب ہے جو کہ اپنے اندر فکر وفن اور صنف و ہیئت کے سارے اشتراک رکھتی ہے۔ ماہیا پنجابی لوک ادب کی پہچان ہے اور ٹپہ پشتو لوک ادب کی جان، لوک گیتوں میں جتنی جاندار اور خوبصورت شاعری ماہیے اور ٹپے میں ہوئی ہے وہ لوک ادب کی دوسری اصناف میں نہیں ہو سکی۔ پنجابی ماہیے نے تو اردو شاعری میں بھی اپنی جگہ بنا لی ہے اور اب یہ ایک صنف سخن بن چکی ہے۔ جدید ماہیا لکھنے والوں نے تو اس کو تین لائنوں میں بھی لکھا ہے، جب کہ اس کو پڑھتے ہوئے اور لکھتے ہوئے جو ایک قدیم کلاسیکی انداز تھا وہ دو مصرعوں کا تھا جو کہ آج بھی قائم ہے اور جدید انداز کو عوام نے قبولیت کی سند نہیں بخشی۔
ماہیا جس کو پشتو میں ٹپہ کہا جاتا ہے اور اس کا دوسرا نام ”لنڈی” یا ”مصرعہ” بھی ہے۔ دونوں کے گانے اور وزن میں بہت زیادہ اشتراک ہے۔ پنجابی اور پشتو ادب میں اس عوامی لوک صنف کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے، شاید ہی کوئی پنجابی اور پشتو ن ایسا ہو کہ جس کوکوئی ماہیا اور ٹپہ نہ آتا ہو۔ دونوں کے فنی و فکری اور صنفی و ہیئتی اشتراک کے حوالے سے ان دونوں زبانوں کے ناقدین کی آراء کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ نقد و نظر میں ان کی کیا اہمیت ہے۔
پنجابی ادب کی اس لوک صنف کو بیلوں میں مویشی چرانے والے، کھیت کھلیانوں میں بکریاں چرانے والے، راتوں کو فصلوں کی رکھوالی کرنے والے اور ان کو پانی لگانے والے احساس تنہائی کو دور کرنے کے لیے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اسے گاتے ہیں اور کبھی کبھی ان میں تبدیلی بھی کر لیتے ہیں۔ ماہیا چونکہ عوامی صنف ہے اس لیے اگر کبھی اس میں وزن کاخیال نہ بھی رکھا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اگر قافیہ ردیف بھی شاعری کے مروجہ اصولوں پر پورا نہ اترے تو اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔
ماہیے فنی حوالے سے باقاعدہ ایک وزن اور ردیف قافیے کے پابند ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی قافیہ صرف صوتی ہوتا ہے۔ ”لفظی” نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہیا سیدھے سادے لوگوں کا گیت ہے جو کہ زیادہ باریکیوں میں نہیں جاتے
٭ یہ پنجاب کا ایک مشہور و معروف لوک گیت ہے جو کہ ٹپے کی طرح ڈیڑھ مصرع کا ہوتا ہے۔ پہلا مصرعہ چھوٹا اور دوسرا بڑا ہوتا ہے۔
٭ ہیئت کے حوالے سے ماہیا، پشتو کے ٹپے کی طرح کل ڈیڑھ مصرع پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کو برابر کے تین مصرعوں میں تقسیم کر لیا جاتا ہے۔
٭ ماہیا ”بحر ہزج” کے وزن میں ہوتا ہے۔ اس کے ہر ٹکڑے میں تین مصرعے ہوتے ہیں اور ہر مصرع ”مفعول مفاعیلن” کے وزن پر ہوتا ہے۔
٭ ماہیے کے ہر شعر کا پہلا مصرعہ چھوٹا اور دوسرا بڑا ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے کا کوئی خاص فکری مقصد نہیں ہوتا، یہ بس قافیے کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماہیا ایک ایسی صنف سخن ہے جو کہ لوک ادب کے روپ میں اپنا کوئی خاص ایک وزن نہیں رکھتی جب کہ جدید اور نئے لکھنے والے اس کو ایک وزن میں لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر لوک ادب میں ماہیا ایک ایسی ڈیڑھ مصرع کی، رومانوی نظم ہے جو کہ اپنے اندر معنی و اظہار کی ساری خوبصورتیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کو عروضی حوالے سے ”مفعول مفاعیلن” تین بار میں بھی لکھا جاتا ہے اور اس کو ”فعلن”پانچ بار میں بھی لکھ سکتے ہیں اور اگر اسے ماتروں میںلیا جائے تو اس کے کل ۱۲ ماترے بنتے ہیں۔ پہلے حصے میں ۵ ماترے اور دوسرے میں ۷ ماترے ہوں گے۔
ہم ماہیے کو مکمل طور پر اس وزن میں نہیں ڈھال سکتے کیونکہ پنجابی لوک گیتوں کو فارسی عربی کے عروض کے مطابق جانچا پرکھا نہیں جا سکتا کیونکہ اس عروض میں کئی الفاظ ایسے ہیں جو کہ عربی فارسی ہی کے ہیں۔ مگر جب وہ پنجابی زبان میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کا مزاج پنجابی بن جاتاہے جو کہ تقطیع میں پورے نہیں آتے۔
دو پتر اناراں دے
ساڈا دکھ سن کے چنا روندے پتھر پہاڑاں دے
تارے وے لہہ گئے نیں
رونے ایہہ عمراں دے لے کے ای بہہ گئے نیں
ترجمہ: انار (درخت) کے دو پتے۔ ہمارا دکھ درد سن کر پہاڑوں کے پتھر بھی روتے ہیں۔ تارے غروب ہونے والے ہیں۔ عمر بھر کے یہ دکھ درد تو ہمیں بھی اپنے ساتھ ہی لے ڈوبے ہیں۔
سنیاریا گھڑ چاندی
بخش گناہ مولیٰ، بُھل بندیاں تو ہو جاندی
کِتے چاندی صفا کیتی
قبر تے لکھ ویساں نئیں ڈھولے وفا کیتی
ترجمہ: اے سنار چاندی کا زیور تیار کرو۔ اے میرے مولا تو ہمارے گناہ معاف کرنا کہ انسان ہونے کے ناطے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ کسی نے چاندی کو صاف کیا۔ میں تو اپنی قبر پر لکھ دوں گی کہ میرے محبوب نے مجھ سے وفا نہیں کی ہے۔
ا ن ماہیوں میں ”صوتی” قافیہ بھی ہے اور ”لفظی بھی” فعلن والا وزن بھی ہے اور ”مفعول مفاعیلن” والا بھی ان کی ہیئت کے الگ الگ انداز اور اوزان کی پابندی عوام پر لگانا ایسے ہی ہے کہ ان کو یہ کہنا کہ وہ ماہیے تخلیق ہی نہ کریں۔
لوک گیتوں کی یہ صنف چونکہ ایک خود رو پودوں کا سا عمل ہے۔ اس لیے اس کو روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی کسی مخصوص ہیئت اور وزن کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔ جس طرح پنجابی زبان و ادب کے لوک ادب میں ماہیا ایک ہر من پیاری صنف ہے اسی طرح پشتونوں کے لوک گیتوں کی پہچان ان کا ٹپہ ہے جو کہ ماہیے ہی کی طرز کا ہے بلکہ پنجاب کے کچھ علاقوں میں تو ماہیے کو ٹپہ ہی کہتے ہیں اور ان کو گایا بھی اسی طرح جاتا ہے۔ اس کے افکار بھی رومانوی اور حریت کے رنگ و آہنگ لیے ہوئے پشتونوں کے خون کو گرما رہے ہوتے ہیں۔ ٹپہ کے بارے میں ناقدین ادب نے اپنی اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ہے:
”ٹپہ پشتو زبان میں ”مہر” کو کہتے ہیں اور چونکہ پٹھان بات بات میں اس کو ضرب المثل کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے اسے ”ٹپہ” کہاجاتا ہے اور یا یہ کہ ٹپہ”تالی مارنے” کو بھی کہتے ہیں چونکہ ٹپے کی دھن کے ساتھ ساتھ اس کی لے پر تالیاں پیٹی جاتی ہیں۔ اس لیے اس صنف کا نام ہی ٹپہ قرار پایا، یا یہ کہ ٹپہ ”تھپکی” کو بھی کہتے ہیں اور یہ محزوں دلوں کے لیے بمنزلہ ایک ”تھپکی” کے ہوتا ہے۔ اس لیے اسے ٹپہ کہتے ہیں۔ ”لنڈی” کے معنی تو ظاہر ہیں کہ چونکہ اس کا پہلا مصرعہ مختصر اور دوسرا طویل ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو ”لنڈی” یعنی کوتاہ کہتے ہیں”۔
”لنڈی” پشتو میں چھوٹے کو کہتے ہیں، اس کا پہلا مصرعہ چھوٹا ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے اس کا نام لنڈی پڑ گیا۔ اس کا دوسرا نام ٹپہ ہے، جس کے معنی تالی کے ہیں، چونکہ اس کوتالی بجا کر گایا جاتا ہے۔ غالباً اسی لیے یہ ٹپہ بھی کہلانے لگا۔
”ٹپہ” میں قافیہ وردیف کی پابندی نہیں، لیکن بحر کا ضرور خیال رکھا جاتا ہے۔ وزن کے لحاظ سے ٹپہ کا پہلا مصرع نو سیلابوں اور دوسرا مصرع تیرہ سیلابوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ”مہ” یا ”نہ” پر ختم ہوتا ہے۔
اس (ٹپے) کا پہلا مصرعہ چھوٹا اور دوسرا بڑا ہوتا ہے۔ ان دو مصرعوں میں قافیہ ردیف کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی، البتہ وزن ہوتا ہے۔
ماہیااور ٹپہ دونوں لوک ادب کی مشہور ترین اصناف ہیں، جو کہ مردوں اور عورتوں دونوں میں یکساں پسند کی جاتی ہیں۔ یہ لوک گیت صدیوں سے اپنے اپنے علاقوں میں گایا جا رہا ہے۔ اس کو عموماً خوشی کے مواقع پر گایا جاتا ہے۔ تکنیکی اعتبار سے ماہیا اور ٹپہ دونوں عروضی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ البتہ جس طرح ٹپہ کا دوسرا مصرعہ ”ہ” پر ختم ہوتا ہے اور تمام ٹپہ ایک ہی وزن میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہیا بھی آزاد نظم کی طر ح ہوتا ہے جو کہ اپنے آہنگ بدلتا رہتا ہے مگر ہر ماہیا ایک مکمل وزن اور بحر میں ہوتا ہے خواہ اس کی بحر مفعول مفاعیلن ہو یا فعلن کی۔ ماہیے کے پہلے مصرعے کی طرح جو کہ صرف ردیف قافیہ لانے کے لیے اور دوسرا مصرعہ بیان کرنے کے لیے بولا اور لکھا جاتا ہے اس کا دوسرے مصرعے سے کوئی فکری تعلق نہیں ہوتا۔ پشتو ٹپہ بھی اپنے دونوں مصرعوں میں کوئی فکری اور کبھی کبھی فنی تعلق بھی نہیں دکھاتا۔
”قافیے کے اعتبار سے پہلے مصرعے کا دوسرے مصرعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ ہر آخری یا دوسرا مصرع کسی حد تک ڈھیلے ڈھالے قافیے کا پابند ہوتا ہے، یعنی ہر آخری مصرع کے آخر میں ”مہ” یا ”نہ” آتا ہے۔ ان سے پہلے کے حروف عموماً”ی” اور ”و” ہوتے ہیں، کبھی کبھی کوئی اور حرف یا حرکت بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے زبر وغیرہ۔
ماہیا لکھنے والے پنجابی لکھاریوں نے ماہیے کو ہندی پنگل کے علاوہ عربی فارسی عروض کے مطابق ڈھال لیا ہے اور اب یہ اس کی تقطیع اسی طرح کرتے ہیں مگر پشتون مصنفین نے اپنے ٹپے کے اوزان کو سیلابوں پر ہی رکھا ہے جو کہ ان کا اپنا عروضی طریقہ ہے اس حوالے سے رضا ہمدانی رقمطراز ہیں کہ:
”پشتو کے اکثر کلاسیک شعراء نے عربی فارسی عروض کی پابندی نہیں کی …” انھوں نے اپنے ملی وزن کے سانچوں میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، ملی وزن کو سیلاب کہتے ہیں، جس کو انگریزی میں “Syllables” کہتے ہیں۔ سیلاب کو ہی کلاسیکی اور لوک شعراء نے اپنا اپنا پیمانہ بنایا ہے۔
خالق دِخپل وطن تہ بوزہ
پہ دی وطن دسٹر وقدرنہ کوینہ
خاوندہ سل زلہِ ژوندراکڑے
چہ دَ وطن پہ مینہ سل زلہ مڑہ شمہ
وطن دیار ستر گوخوگ دی
چہ یارے نہ دی سہ وطن سہ بے وطنہ
ترجمہ: ”اللہ تجھے تیرے اپنے وطن لے جائے، پردیس میں تو انسان کی کوئی قدر ہی نہیں کرتا”۔”اے اللہ مجھے سو بار زندگی دے تاکہ میں سو بار وطن کی محبت پر اس کو نثار کر دوں”۔ ”وطن تو محبوب کی آنکھوں کی وجہ سے پیارا لگتا ہے جب محبوب ہی نہیں تو کیا دیس اور کیا پردیس”۔
ماہیا اور ٹپہ، پنجابی اور پشتو لوک ادب کی ایسی اصناف ہیں جو کہ صنفی و ہیئتی حوالے سے بھی اور فکری حوالے سے بھی اپنے اندر وحدت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں اصناف کو گاتے ہوئے بھی ایک جیسا ماحول اور طرز درکار ہوتی ہے اگر ماہیے کو گانے والا لمبی تان کے ساتھ گاتا ہے تو ٹپہ گانے والا بھی اپنے پورے زور کے ساتھ اس کو مخصوص آوازوں سے شروع کرتا ہے۔ ان دونوں اصناف میں گانے والے اپنے حالات اورماحول کے پیش نظر ان کے اوزان، بحر اور ردیف و قافیہ میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ دونوں اصناف اپنی اپنی جگہ پر اپنے اپنے علاقے کے لوگوں اور ان کے سماج کی نمائندگی کرتی ہیں۔
لوری
لوری، ایک ایسا لوک گیت ہے جو کہ پاکستانی زبانوں کے ہر لوک ادب میں موجود ہے اور یہ وہ پہلا لوک گیت ہے جو کہ بہت زیادہ زبانوں میں صنفی اشتراک رکھتا ہے۔ بعض زبانوں میں تو اس کا نام تک بھی نہیں بدلتا اور بعض زبانیں ایسی ہیں جو کہ کہیں کہیں ہیئت میں بھی مماثلت اختیار کر لیتی ہیں۔ یوں لوری ایک ایسا اجتماعی لوک گیت بن جاتا ہے جو کہ پاکستانی معاشرے کی اپنی تخلیق اور یہاں کے لوگوں، خاص طو رپر مائوں کا وہ گیت ہے، جو کہ وہ اپنے بچوں کو سلانے، بہلانے اور کھیلانے کے لیے گاتی ہیں۔ یہ گیت کوئی خاص وزن، بحر، تکنیک یا ہیئت نہیں رکھتا، مگر اس کی زبان و بیان پڑھنے والے کو فوراً یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ لوک گیتوں کی صنف لوری پڑھ اور سن رہا ہے۔ کیونکہ اس گیت میں ماں کی مامتا کے ایسے جذبات کی خوشبو ہوتی ہے جو کہ پڑھنے سننے والوں کو مسحور کر دیتی ہے۔
پاکستانی زبانوں کے لوک ادب میں لوری کی صنف اپنی پوری تابندگی اورخوبصورتی کے ساتھ اپنا جوبن دکھا رہی ہے کیونکہ ہر ماں اپنے بچے کو لوری دیتی ہے، پیار کرتی ہے، اسے میٹھی نیند سلانے کے جتن کرتی ہے، ان سارے کاموں میں لوری ایک ایسا کام ہے جو کہ ماں اور بچے کو سکون دیتا ہے۔ ماں، لوری کے گیتوں میں اپنے بچے کو دعائیں دے رہی ہوتی ہے۔ اسے شجاعت و بہادری اور عزم و ہمت کا درس دے رہی ہوتی ہے۔ لوری کے بولوں کے ذریعے ماں اپنے بچے کے رگ و پے میں جذبۂ حب الوطنی کا نشہ اتار رہی ہوتی ہے۔
لوری ایک ایسا لوک گیت ہے، جس کے ذریعے ماں اپنے بچے کو جہاں اپنے ماضی سے روشناس کرواتی ہے ۔ وہاں اسے اچھے مستقبل کی دعائیں بھی دیتی ہے۔ اس گیت میں مائوں کی بے بسی کی تصویریں بھی دکھائی دیتی ہیں اور ہمارے مذہبی عقائد بھی نظر آتے ہیں۔ پاکستانی زبانوں کی ہر لوری میں جو چیز وحدت پیدا کرتی ہے وہ ان لوریوں کی ”میٹھی سر” ہے ان کا دھیما لہجہ اور خدائے وحدہ لا شریک کا با برکت نام ہے جس کے ذریعے ماں اپنے بچے کو بلائوں سے محفوظ رکھتی نظر آتی ہے۔ ہیئت کے حوالے سے ان لوریوں میں ایک عنصر یہ بھی ہے کہ یہ چھوٹے جھوٹے اشعار اور بندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں ردیف و قافیہ کا اور اوزان کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ ان کو اس طریقے سے گایا جاتا ہے کہ سر اور تال کے یکجا ہونے سے ایک مٹھاس سی ذہن و دل میں اُتر جائے جس کو سن کر روتے ہوئے بچے سونے لگ جائیں۔
بعض اوقات ہمیں ان زبانوں میں ایسی لوریاں بھی ملتی ہیں جو کہ ایک دو مصرعوں ہی کی ہوتی ہیں مگر جب مائیں ان کو بار بار پڑھتی ہیں تو وہ بھی ایک سماں باندھ دیتی ہیں۔ لوریوں کے بول بے مقصد اور فضول نہیں ہوتے۔ ان کے الفاظ بڑے سادہ اور عام فہم ہوتے ہیں۔
پنجابی زبان میں اسے ”لوری” اور پشتو میں ”اللہ ہو” کہا جاتا ہے۔ پشتو میں اسے ”اللہ ہو” اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس گیت کے آخر میں وہ ”اللہ ہُوشہ” کے الفاظ لاتے ہیں جس کے معنی سوجا کے ہی ہیں، اسی طرح پنجابی زبان میں ماں اپنی لوریوں میں اللہ کا لفظ بار بار لاتی ہے۔ سندھی، بلوچی اور براہوئی زبانوں میں بھی اسی طرح کے انداز سے لوری دی جاتی ہے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان میں بھی لوری کا یہی انداز رائج ہے۔
پاکستانی زبانوں کی لوریوں میں لمبی لمبی کہانیاں بیان نہیں کی جاتیں بلکہ ان میں بڑے مختصر انداز سے ماں اپنے بچے کو اپنے خالق و مالک کے سپرد کرتی ہے۔ پشتو زبانوں میں لوری کے ساتھ ”اللہ ہو” کے الفاظ لگا کر بچے کو سلایا جاتا ہے۔
”ہیئت کے لحاظ سے اللہ ہو، اے للے للو، للے للو، للے للو، کی تکرار کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مقفّٰی جملے یا مصرعے ان کلمات کے ساتھ لگا دیے جاتے ہیں ”
”بلوچی کی ابتدائی شاعری ”لولی” (لوری) اور ہالو ہے جہاں تک لوری کا تعلق ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو چاند سے چہرے والے لڑکے اور دراز زلفوں والی لڑکیاں مائوں کی پیار بھری گود میں آدھی راتوں کو شیر خواری سے لے کر سات سالہ عمر تک سنتے ہیں۔ ان لوریوں میں نہ صرف ماں کی ممتا ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے دودھ پیتے بچوں کو ان کے ذریعے بلوچی کے ماضی، حال اور مستقبل کادرس بھی دیتی ہے”۔
ہر علاقائی زبان کی لوری اپنی اپنی تہذیب و ثقافت کے منظر رکھتی ہے۔ ہر لوری میں مائوںکے جذبات ایک مخصوص طرز اور انداز سے بیان ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
کشمیری زبان و ادب میں لوری کو ”منیزل باتھ” کہتے ہیں اس گیت میں مائیں اپنے بچوں کو دعائیں دیتی ہیں جو کہ لوری ہی کی ہیئت کے انداز میں ہوتے ہیں۔ لوریوں کے اشعار چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں بانٹے ہوئے آسانی سے ادا ہونے والے بول ہوتے ہیں۔ ایک کشمیری لوری کے بول دیکھیں۔
اللہ گور، اللہ گور، اللہ گور، اللہ گور
خدائے کرہ یو بلائے دور، اللہ گور اللہ گور
خدائے رژہیو عمر پور، اللہ گور، اللہ گور
تھس نورذیکس نور، اللہ گور، اللہ گور
ترجمہ: ”میں تمہارا جھولا اللہ کا نام لے کر جھلا رہی ہوں۔ جھلا رہی ہوں۔ اللہ تجھ سے ہر آفت کو ٹالے۔ اللہ کا نام لے کر جھولا جھلا رہی ہوں۔ اللہ تمہیں لمبی عمر عطا کرے۔ تیرے چہرے پر بھی نور ہو اور تیرے ماتھے پر بھی نور ہو”۔
براہوئی زبان و ادب کے لوک گیتوں میں لوری کا ایک ایسا انداز ملتا ہے جس میں مائیں اپنے بچوں کی زندگی اور ماں باپ کے احترام و ادب کی دعائیں مانگتی ہیں۔
لولی لولڑی
بچے بچے اللہ نے جوان کے
بچہ ننابلن مس
تونا باوہ کے ملاس مس
تینا لمہ کن
خیسن مس
لولی لولڑی
بچے کنا
ترجمہ: لوری، لوری، اے بچے اللہ تعالیٰ تجھے جوان کرے، ہمارا بچہ جوان ہوا، اپنے باپ کے لیے پیاسا ہوا۔اپنی ماں کے لیے کندن بنا، لوری لوری، میرے بچے کو۔
بلوچ ماں کی لوری حریت و شجاعت کی داستان سناتی ہے۔ یہ لوری مذکورہ زبانوں کی لوریوں سے ذرا لمبی ہوتی ہے۔ مگر ہیئت کے حوالے سے اس میں بھی لمبے لمبے اشعار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں معنویت اور بناوٹی انداز ہوتا ہے بلکہ یہ بھی چھوٹے چھوٹے الفاظ میں بڑی بڑی باتیں کرتی ہوئی اپنی تہذیب اور ثقافت کے رنگوں کو بکھیرتی ہوئی ہمارے دلوں پر نقش ہو جاتی ہیں۔ ایک بلوچی لوری کا انداز دیکھیں۔
بچوں لاڑکیں ورنابیت
بندیت ہر ششیس ہتیاراں
ڈھال وتو پک وکاٹائِ
زیری جابوئَ مورتیناں
شینیت مرکباں ترندنیاں
جوریں دژمناں پرامیت
بدواہاں شکوں ولم کنت
سردار قاصدے شائیت
بیارت زحم جنیں ورنایاں
مئے جنگیں دژمناں جورتیاں
ڈیہہئِ ظالمین بدواہاں
اے مئی گوششن ایدؤرمائی
ترجمہ: میرا لاڈلا بیٹا جوان ہو گا۔ چھ ہتھیاروں سے سجا ہو گا۔ ڈھال بندوق، کٹار اور ترکش ، نامور شہسوار بن کر مردِ میدان ہو گا۔ بد ترین دشمنوں اور بدخواہوں کو سرنگوں کرے گا۔ امیر کا قاصد آئے گا کہ کہو شمشیر آزما جوانوں سے ہماری جنگ ہے زہر ناک۔ دشمنوں سے ، وطن کے ظالم بدخواہوں سے یہ ماں کی مامتا کی آرزو ہے۔
لوری کوئی ایسا لوک گیت نہیں ہے جس کو ہم کسی مخصوص زبان کا لوک گیت کہہ سکیں اور پھر یہ بھی متعین کر سکیں کہ یہ لوک گیت اسی ہیئت میں لکھا جاتا ہے اس کا یہ مخصوص وزن یا عروض و فنی تکنیک ہوتی ہے، ہاں البتہ ہم اس کی لفظی، فکری اور مخصوص الفاظ کے دروبست سے اس کی میٹھی لے اور الفاظ کی سادگی سے ایک ہیئت مقرر کر سکتے ہیں جو کہ لفظی یا زبان و بیان کی ہیئت بھی کہلا سکتی ہے۔
”ان میں ٹھنڈ، خلوص اور مٹھاس ہوتی ہے۔ کہیں بھی ان میں تلخی، ترشی ، غصہ، ناراضگی اور نفرت نہیں ہوتی، بس پیار ہی پیار ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مامتا ہی مامتا ہوتی ہے”۔
یوں ہم لوری کو کسی ایک خطے علاقے یا زبان کا گیت نہیں کہہ سکتے بلکہ جہاں کہیں بھی ماں ہو گی وہاں اس گیت کی بازگشت سنائی دے گی اور دوسری اہم بات یہ کہ ہر ماں اپنے بچے کو لوری اپنی زبان میں دیتی ہے یوں ”ماں بولی” کا پیار کسی کے دل میں ہونا ایک فطری امر ہے۔
”یہ کسی خاص علاقے خطے یا ملک کا گیت نہیں بلکہ یہ وہ آفاقی گیت ہے جو کہ دنیا کے ہر ملک ہر علاقے ہر خطے اور ہر زبان میں گایا جاتا ہے”۔
لوری کا سا انداز کسی بھی دوسرے لوک گیت میں دکھائی نہیں دیتا اس کی سادگی ہی اس کا حسن ہے۔ اس میں جو روانی اور ترنم ہوتا ہے وہ کسی دوسرے لوک گیت میں کم ہی ملتا ہے۔
اللہ ہوشہ اللہ ہو۔
زما جانہ اللہ ہو۔
زما خوئے دا سے اودۂ دے۔
لکہ پنڈ دپتا سو۔
اللہ ہوشہ، اللہ ہو۔
ترجمہ: سوجائو، سو جائو، میری جان، سو جائو۔ میرا بیٹا ایسے سو رہا ہے جیسے بتا شوں کا ڈھیر۔ سو جائو، سو جائو۔
پنجابی لوریوں کی ہیئت بھی اسی اجتماعی ہیئت کی مانند ہے۔ جس میں مائیں چھوٹے چھوٹے بولوں میں اپنے بچوں کے لیے دعائیں مانگتی ہیں۔ پنجابی لوریاں ایک دو مصرعوں کی بھی ہوتی ہیں جو کہ مائیں بار بار بولتی جاتی ہیں اور بچہ نیند کی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے۔
اللہ توں والی توں
دتا ای تے پالیں توں
(اے اللہ تو ہی اس کا والی ہے اور تو نے ہی یہ (اولاد) دی ہے تو ہی اس کا پالنے والا ہے) پنجابی کی مشہور معروف لوری ہے۔
اسی طرح دوسری لوری جو کہ مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ جامع اور خوبصورت دعا بھی ہے۔ جس کو پنجابی مائیں ہر وقت اپنے بچوں کو سناتی رہتی ہیں۔ حق اللہ و دود اللہ، سختی کر دے دور اللہ کے یہ بول مائیں بار بار بولتی جاتی ہیں اور یہی ان کی لوری، دعا، جذبات اور بچے کے ساتھ محبت کی نشانی ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی سی پنجابی لوری کے بول دیکھیں۔
اللہ اللہ لوری
دودھے وچ ملائی
کاکے نو نینی آئی
ترجمہ: میں اپنے بیٹے کو اللہ اللہ کر کے سلاتی ہوں۔ کیونکہ وہ ہمیں رزق دیتا ہے دودھ کی کٹوری بھری ہوئی ہے۔ جو کہ ملائی سے بھر پور ہے اور میرے بیٹے کو نیند آ رہی ہے۔
گوجری زبان و ادب میں جو لوریاں ہمیں ملتی ہیں اُن میں مائیں اپنے بجوں کی بلائیں لیتی نظر آتی ہیں۔ یہ لوریاں بھی ایک مخصوص سر اور ردھم میںگائی جاتی ہیں۔ ان لوریوں میں گوجری مائیں جہاں اپنے بچوں کو دعائیں دیتی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے زندگی، رزق اور اچھے مقدر کی دعائیں بھی مانگتی ہیں۔ گوجری زبان کی ایک لوری دیکھیں۔
سو جارے امڑی کالال
تیرے دھارہویں شیر پیالوں
سوجا میرا دل کا بیرا
جان اُتے ایمان صد قڑے
سوجا اے اکھیاں کیا نورا
سوجا سوجا سو جا رے
سوجا سو جا سوجا رے
چن تیں بدھ کے تیری جھال
سوجا میری جان صدقڑے
سوجا سوجا سو جارے
دل میرا ماں تیری تھائی
ماں کا دھد کی لاج رکھے گو
سوجا سوجا سو جارے
سوجا سوجا سوجا رے
راج بھاگ کرے رب تیرا
سوجا امڑی گھول گھمائی
میرا مان ہویا اے پورا
لائو میروتوں لائو بنے گو
ترجمہ: سوجا رے اے ماں کے لال۔ سوجا سوجا سوجارے۔ سوجا سوجا سوجارے۔ تم تو کو بڑے پیار سے دودھ پلائوں۔ چاند بھی تیرے حسن کی جھال نہیں برداشت کر سکتا۔ سوجا سوجا سوجارے۔ اے میرے دل کے ٹکڑے سوجا۔ تم پر میری جان قربان سوجا۔ اللہ تعالیٰ تیرے نصیب بلند کرے۔ سوجا سوجا سوجارے۔ تم پر میری جان اور ایمان صدقے۔ سوجا سوجا سوجا رے۔ سوجا کہ تجھ پر تیری ماں قربان جائے۔ اے میری آنکھوں کے نور سوجا۔ تم تو میرے دل ہو۔ میرا مان پورا ہو گیا ہے۔ سوجا سوجا سوجارے۔ تم اپنی ماں کے دودھ کی لاج رکھو گے۔ تم بڑے بلند مرتبے والے بنو گے۔
سندھی لوری بھی اسی طرح پیار محبت اور دعائیں دینے والی لوری ہے جو کہ ایک مخصوص ردھم رکھتی ہے۔ جسے گاتے ہوئے اور سنتے ہوئے کانوں میں رس گھلنے لگتا ہے۔
لولی بچڑ الولڑی
لولی بچڑا لولڑی
شال مرک ٹڑندء
ڈسی ماٹیری ٹھرندء
ڈسی ٹھرندء بابل
لولی بچڑ ا لولڑی
ترجمہ: لولی میرے بچے لولڑی۔ لولی میرے بچے لولڑی۔ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہو۔ اور تجھے دیکھ کرماں بھی خوش ہو۔ تجھے دیکھ کے باپ بھی خوش ہو۔ لولی میرے بچڑے لولڑی۔
شمالی علاقہ جات کی زبانوں میں بروشسکی ایک قدیم زبان ہے۔ اس کو وادیٔ ہنزہ، نگر اور گلگت کے گرد و نواح کے لوگ بولتے ہیں۔ اس زبان پر ہندی، فارسی، ترکی اور سنسکرت کے اثرات ملتے ہیں۔ اس زبان میں بھی بچوں کو سلانے کے لیے مائیں مقامی طرز کے بولوں اور سروں میں لوری دیتی ہیں:
اوس ایں اوس ایں اوس ایں اوس ایں
جااباباناجاگری بانا
جی پے دن بانا شکرے جھل بانا
اوش ایں اوش ایں اوش ایں اوش ایں
جالعلِ گسی باناجا اُلچنے گری بانا
جااسحنکشہ اے شت بانا جا اضہ نحوبانا
ترجمہ: تو میرا باوا، تو میری روشنی۔ تو میرا سنگ جان تو میرا آب قند۔ تیرا مول لعل و جواہر تو میرا نور نظر۔ تو میری پشت کی طاقت ہے تو میرے بڑھاپے کی لاٹھی ہے۔
سرائیکی لوک ادب میں بھی اس صنفِ سخن میں کچھ نمونے ملتے ہیں مگر ان کے کم ہونے کی ایک وجہ جوڈاکٹر مہر عبدالحق نے لکھی ہے وہ شاید جدید محققین کو قبول نہ ہو وہ لکھتے ہیں:
”ملتانی علاقے کی وسعت کے باوجود ہمیں صرف دو لوریاں دستیاب ہو سکی ہیں۔ اس کی وجہ غالباً وہ اقتصادی زبوں حالی ہے جو مائوں کو بھی کسبِ معاش میں مصروف رکھتی ہے اور انھیں اتنی فرصت نہیں دیتی کہ وہ اپنے لاڈلوں کے پنگھوڑے جھلا سکیں”۔
لوری ایک ایسا لوک گیت ہے جو کہ مائیں رات کو اور بچے کو دودھ پلاتے اور اس کے علاوہ فرصت کے اوقات میں گاتی ہیں اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ملتان کی مائیں سرائیکی مائیں اپنے بچوں کو لوری نہ دیتی ہوں اور سرائیکی لوک ادب میں اس کے نمونے نہ ہوں۔
لولی ڈیندی میں ونجاں گھولی
لولی ڈیندی ہاں میں رتی دے داوے
نیندر خوشی دی تیڈی اکھیاں کوں آوے
لولی ڈیندی میں ونجاں گھولی
لولی ڈیندی میں ڈے نہ واری
اکھیں تے رکھ دی تیڈی جند پیاری
لولی ڈیندی میں ونجاں گھولی
لولی ڈیندی میں مکھناں دے پیڑے
رنگ منجھیس تیڈے مامے دے ویڑھے
لولی ڈیندی میں ونجان گھولی ……
ترجمہ: پیارے میں تم کو لوری دیتے ہوئے تم پر قربان جائوں۔ لوری دیتی رہوں، دیتی رہوں کبھی نہ تھکوں۔ میں تمہیں لوری دے رہی ہوں تاکہ تمہاری آنکھوں میں خوشی کی نیند آ جائے۔ لوری دیتے ہوئے میں تم پر قربان ہو جائوں۔ تمہاری پیاری جان کو اپنی آنکھوں پہ رکھوں۔ لوری میں اپنے مکھن کے پیڑے کو دوں گی۔ بھینسوں کی آواز تیرے ماموں کے ڈیرے سے آ رہی ہے۔ لوری دیتے ہوئے میں تم پر قربان ہو جائوں۔
پوٹھوہاری، پہاڑی، ہندکو اور دھنی کے علاقوں کی زبان میں بھی لوری کا ایک خاص انداز ہے۔ اس گیت کو ان زبانوں میں بھی لوری ہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لوری کے بول بعض اوقات بے معنی اور بے مقصد بھی ہوتے ہیں۔ بس ان کا ایک ہی بڑا مقصد ہوتا ہے کہ بچے کو سلایا یا چپ کرایا جائے۔
چھوٹے مدرے، مچھیاں نے کھارے
مچھی گئی پانی، اگوں ملی نانی
نانی پکائیاں روٹیاں
کھا ککڑے نیاں بوٹیاں
ٹاٹئی بلو کتھے چلی گئی
ترجمہ: چھوٹے چھوٹے مچھلیوں کے رہنے کے کھارے ہیں۔ ایک مچھلی پانی لینے کو گئی۔اسے اس کی نانی ملی۔ نانی نے روٹی پکائی اور مرغے کی بوٹیاں بھی۔ تم اِس کو کھائوٹا … ٹئی۔

ان لوریوں کے علاوہ ان علاقوں میں کچھ لوریاں ایسی بھی ہیں جو کہ مائیں یا بہنیں نہیں دیتی بلکہ ان کو گانے والے اور لوریاں دینے والے ”بھرائی” ڈوم، میراثی یا خسرے ہوتے ہیں۔ جن کو جب اس بات کی خبر ہوتی ہے کہ کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے تو وہ لوری دینے پہنچ جاتے ہیں کیونکہ مذکورہ لوگوں کی لوریاں صرف بیٹے تک محدود ہوتی ہیں۔ جب کہ مائیں بہنیں اور دادیاں نانیاں تو اپنی بیٹیوں اور پوتیوں نواسیوں کو بھی لوری دے لیتی ہیں۔

پاکستانی زبانوں کے لوک گیتوں میں لوری ایک ایسی صنف ہے کہ جس کی کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں ہے۔ اس کے لیے کوئی وزن، بحر، سیلاب یا پنگل کی پابندی نہیں ہے بلکہ اسے صرف ماں کی سر کے ساتھ تعلق ہے۔ جبکہ ہر زبان کی لوری میں ایک خیال اور جذبہ مشترک ہے کہ ہر لوری میں ماں اپنے بھائیوں ، وطن، گھر، خاندان اور بچے کی خیر مانگتی ہے۔ بچے کو اپنے رشتہ داروں کے ناموں سے روشناس کرواتی ہے۔ اسے اپنے مذہب اور بنیادی عقائد سے آشنائی دیتی ہے اور یہی بول جو کہ اس کی روح میں اُتر گئے ہوتے ہیں۔ بالغ ہونے کے بعد اس کی شخصیت کے ارتقائ، کردار کی مضبوطی اور ذہنی نشوونما میں اس کی مدد کرتے ہیں۔