نیا برس۔۔ کچھ خیالچے، کچھ افسانچے

(شکور رافع)

۶۱۰۲ءتمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ گزر گیا۔
میں زندہ ہوں اور اجتماعی و انفرادی غلطیوں اور ان کے اثرات کو طاقت بنا کر اس دھندلکے میں نئے خواب دیکھتا ہوں کیونکہ خواب مرتے نہیں ہیں اور تب تو بالکل بھی نہیں مرتے جب شکوہ ظلمت شب کے بجائے اپنے حصے کی شمع جلالی جائے۔

ہم گزشتہ برس کا چاند پینٹ نہ بھی کر سکے ہوں ، ہمارے ایک ہاتھ میں چندرنگین پنسلیں ہیں اور دوجے پرٹمٹماتے جگنو جو مٹھیوں میں بھنچ کر بھی ابتدائی مرحلے میں یدبیضا کو پینٹ کر رہے ہیں ایسے ملگجے میں نظر اٹھتی ہے تو مایوس نہیں پلٹتی کہ کہ دور پاس روشنی کے کئی اور زاویے ہیں۔ صوفیوں کے چراغ، ہمسایہ منڈیروں کے دیے،درس گاہوں کی قندیلیں، شہیدوں کی شمعیں اور اقتصادی راہداریوں کی روشنیاں یہ سب حوالے اور سب اجالے ماضی بنتے جاتے سال گزشتہ کی نیم تاریک جھیلوں پر تیرتے ہیں تووحشی چاند رقص کرتا دکھائی دیتا ہے۔
پچھلے برس انہی ایام میں ایساہی کچھ لکھا تھا
’ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساہوکارو ں، سرمایہ داروں اور خفیہ مقدس اداروں کی تمام تر چیرہ دستیوں کے باوجود ہم نے اس برس بھی کرہ ارض پر اندھیروں کا مقابلہ کیا ہے۔ پیوٹن کی اوباما سے زیادہ مقبولیت ہو یا برکس [ BRICS ] نامی اقتصادی تنظیم سے چلتے ہوئے عالمی کوریڈور تک کا بدلتا منظرنامہ امریکہ روس تو رہنے دیجئے ،چالیس پچاس ایٹم بم تو اپنے پاس ہیں، ِ انڈیا کے پاس سو ڈیڑھ سو تو ہوں گے۔ اس کرہ میں اتنے ایٹم بم اوندھے لیٹے پڑے ہیں۔ کوئی ایک بھی نہیں جاگا، کوئی ایک بھی نہیں پھٹا۔ یہ جدید انسان کی کامیابی ہی تو ہے۔

اور۔۔ استاد کے کمرہ جماعت میں داخل ہونے پرتا ابروئے جنبش ثانی ،ہوشیار باش کھڑی رہنے والی گم صم نسل کے اب لاکھوں نہیں، کروڑوں بچے سوشل میڈیا پر کھوجتے ہیں، سوچتے ہیں، ٹوکتے ہیں اور ایسے پہلوؤں  پر بولتے ہیں کہ مقدس دیوتا ڈولتے ہیں۔ اس نئی نسل کے ساتھ نئے سال میں داخلہ پر جشن تو بنتا ہے!“
اس نئے سال پہ درجن بھر ٹوٹے پیش خدمت ہیں۔۔ اس دعا کے ساتھ
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آجائے کتاب تو اچھا ہو!
اے کاش ہماری آنکھوں کا یہ اکیسواں خواب تو اچھا ہو

چونگی چوک پر آتش بازی کا سامان دھر لیا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شرلی، پھلجڑی، چائنا ماچس ، دیسی پٹاخہ اور انار آتشیں کے کئی درجن پیکٹ سوزوکی میں بھرے تھے۔
’کچھ حیا کرو۔ نئے سال پرپھولوں گلدستوں کے بجائے لوگوں میں دہشت بانٹ رہے ہو۔‘ پولیس والا دھاڑ رہا تھا۔
اچانک پیچھے سے دوسرے سنتری نے زور سے وسل بجا کر آواز لگائی ’اوئے سوزوکی بیرئیر سے ہٹاو جلدی۔‘
پھلجڑیوں سے بھری سوزوکی ابھی بائیں طرف کی ہی جا رہی تھی کہ آرمی کے3 ٹرک گزرے جن کے پیچھے بیٹھے اہلکاروں نے جدید مشین گنیں تان رکھی تھیں۔ سوزوکی کو وہیں بند کر کے سامان ضبط اور مالک کو گرفتار کر لیا گیا

۲۔ اندر اتار دے یا باہر اتار دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم جنوری اتوار کا دن تھا۔ ادارتی و جذباتی افادہ کو ایک خوبرو شاعرہ مشہور ’دانشور ادیب‘ کو مبارکباد دینے پہنچ گئی۔
وہ اپنے لان میں دھوپ اور آنکھیں سینک رہے تھے۔
شاعرہ نے کہا : ’سر!نئے برس کے لیے ظفر اقبال کا یہ شعر آپ کی نذر کرتی ہوں
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدُورتیں
دیوار سے پرانا ___ کیلنڈر اتار دے‘
دانشور ادیب مسکراتے ہوئے بولے: مجھے تو اس غزل کا یہ شعر زیادہ پسند ہے۔ آپ کی نذر کرتا ہوں
میں اتنا بدمعاش نہیں، یعنی، کُھل کے بیٹھ
چُبھنے لگی ہے دھوپ؟۔۔ سویٹر اتار دے!

۳۔رحمتوں کی بارش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم جنوری کی صبح نماز فجر کے بعد مولوی صاحب نئے سال کی دعا کر رہے تھے۔
’اے اللہ! اپنی نعمتوں، اپنی عنایتوں اور رحمتوں کی بارش اس سال بھی اسی محبت سے اسی فراوانی سے برسائے رکھنا‘
گاو¿ں کا نائی بولا
’ مولوی صاحب برا نہ مانیے گا۔ ساری فصل برباد ہو گئی دو مہینے سے ایک بارش بھی نہیں ہوئی۔ اب اللہ سے یہ تو نہ کہیں کہ ویسی ہی بارش اس سال بھی برسانا۔ اگر اللہ سائیں  نے سن لیا تو ؟‘
دو نمازی سخت لفظوں میں اسے مغلظات سنانے لگے۔ مولوی صاحب ابھی اٹھنا ہی چاہ رہے تھے کہ نائی جوتیوں کی طرف بھاگ گیا ۔

۴۔ جشن اور ماتم ساتھ ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۲ دسمبر کو پھولوں پتیوں سے لدی دوسوزوکیاں راولپنڈی کے ایک کارخانے میں اتاری گئیں۔تین کارکن ان کی تراش، خراش اورزیبائش میں مصروف ہو گئے۔مالک نے پھڑپھڑاتے ٹی وی کا بٹن دبایا تو ایک کارکن مسکراتے ہوئے بولا :
’سرجی۔ ادھر بے نظیر کا سیاپا چل رہا ہے۔ آپ دو من پھول اٹھا لائے ہیپی نیو ائیر کو۔۔‘
’جھلیا۔برسی ایک دن ہوتی ہے۔27- 28کے بعد میڈیا اورساری قوم ہیپی نیو ائیر میں گم ہو جائے گی۔ ‘
’مگر زرداری کے دور میں آپ پانچ سوزوکیوں کا مال لاتے تھے؟اب صرف دو؟۔۔‘
’پی پی کی حکومت ہو تو 27دسمبر کوبی بی کی برسی پر پھول گلدستے بکتے ہیں۔۔ نون کی حکومت ہو تو 25دسمبر کو میاں کی برتھ ڈے کے کیک۔۔ اب ہم کوئی بیکری تو چلا نہیں رہے۔۔پھولوں میں ہی خدا برکت دے گا۔ ‘

۵۔پسند اپنی اپنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکی نے اکتیس دسمبر کو فیس بک پر سٹیٹس لگایا ’آپ کو اس سال کس شخصیت نے سب سے زیادہ متاثر کیا‘
اکثریت نے جنید جمشید ، ایدھی اور راحیل شریف وغیرہ کا نام لکھا تاہم inbox میں یوں وضاحت دی۔
’مجھے تو اس سال آپکی شخصیت، تصاویر اور سوچ بہت اچھی لگی مگر سب کے سامنے آپ کا نام لکھنے سے لوگ عجیب و غریب مطلب لے لیتے ہیں۔ آپ تو جانتی ہیں ہمارا معاشرہ کتنا منافق ہے۔‘
لڑکی نے جواب میں پیلے رنگ کی مسکراتی سمائیلی بھیج دی۔

۶۔لڑکے نے جب لڑکی کو کوئی جواب نہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی فلپائنی دوست نے اسے نئے سال کی مبارکباد بھیجی تو اس نے شکریہ کے ساتھ یہ وضاحت کر دی۔
’ہم عیسائی نہیں،مسلمان ہیں ۔ ہمارا نیا سال جنوری سے نہیں ، محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے‘
فلپائنی بولی: ’ I know مگر پچھلے سال میں نے عراقی بوائے فرینڈ کو اسلامی سال کی مبارک دی تو وہ غصے میں آکر بولا
’جس مہینے میں ہمارے امام حسین کو قتل کیا گیا تم اس کی مبارکباد دے رہی ہو۔‘
سمجھ نہیں آتی کہ کب مبارک دوں۔sorry anyways I’m ویسے آپکا سارا نظام اسلامی کیلنڈر پہ چلتا ہے؟

۷۔’تتلی بھنورا بن سکتی ہے؟‘۔۔۔’ نہیں نہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکے نے وی سی، ڈین،مینیجر سمیت تیرہ جاننے والے باعزت لوگوں کو نئے سال کا چمکیلامبارکبادی پیغام بھیجا۔
چار کا مختصرشکریہ موصول ہوا۔ لڑکی نے کسی کو پیغام نہیں کیا۔فیس بک پریہ جملہ لکھا۔’ ’ سب اپنوں کو نیا سال مبارک‘ ‘
پینتالیس باعزت افراد کی دعائیہ رائے (کمنٹ)سمیت ایک سو کے قریب پسندیدگی ( لائیکس میں)دکھائی دی۔
حیرت اس بات پر ہے کہ اسی لڑکی کی تین دن پہلے بینظیرکی شہادت والی پوسٹ پر صرف تین افراد نے رائے دی تھی۔پوسٹ یہ تھی
’۷۲ دسمبرکا پیغام۔۔۔عورت اورپھر مضبوط اعصاب کی نڈر عورت مردانہ معاشرہ کو قابل قبول نہیں!‘

۸۔دو عوامی شاعر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا شاعر: پورا دسمبر نہ بارش ہوئی نہ رومانوی مشاعرہ کہ جہاں بھیگے دسمبر پر لکھا اپنا تازہ کلام سنا سکتایار۔۔“
دوسرا شاعر: میں نے اسی لیے تازہ کلام لکھ کر تازہ والی محبوبہ کو دے دیا۔ “
پہلا شاعر: فائدہ؟
دوسرا شاعر: اسے داد مل گئی اور مجھے دسمبر کی ’بھیگی ‘یاد!

۹۔چمکیلے خالی ڈبے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیپی نیو ائیر پہ تین دوستوں نے چوتھی بوتل بھی خالی کی تو کالج یونیورسٹی کے ان چند ہم جماعتوں کو سرپرائز کال کرنے کا فیصلہ کیا جو بسلسلہ روزگار باہر مقیم تھے۔ان میںدو برطانیہ، ایک امریکہ اور ایک جاپان میں تھا مگرکسی سے بات نہ ہو سکی۔۲ دوست موبائل سائلنٹ کر کے اوور ٹائم لگا رہے تھے جبکہ دو ’ پی کھا‘ کے دھت پڑے تھے۔

۰۱۔ ۱۱ستمبر ۱۰۰۲ئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوغل انکل: یہ نئی نسل ہر دس بارہ مہینے بعد ہیپی نیو ائیر کی بتیاں جلا لیتی ہے۔ارے ہم نے تو عین جوانی میں ایک صدی کے دوجی صدی سے ملنے کا جشن منایا تھا
گوگل بھتیجا: اورانکل ابھی جشن ختم نہیں ہوا تھا کہ نائن الیون ہو گیانا

۱۱۔یکم جنوری۔بینک ہالیڈے

پہلا دوست۔”ہر بڑے دن کی طرح سال نو کی چھٹی کیوں نہیں ہوتی۔ بندہ پہلے دن، خوب، جی بھر کے دلی خواہشوں کا حساب کتاب دیکھے۔
دوسرا دوست۔ ”اس دن جی بھر نے والوں کو نہیں پیٹ بھرنے والوں اور دل کے بجائے جیب کا حساب کتاب رکھنے والوں کو چھٹی ہوتی ہے۔“

۲۱۔ کباب میں ہڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی ذرائع ابلاغ پرہر ملک میں جاری نئے سال کی جھلملاتی روشنیوں، قہقہاتی تقریبوں اور رنگ و نور سے آراستہ محفلوں کی رپورٹنگ جاری تھی۔ اچانک پاکسٹان کا نام آیا مگرخوشگوار حیرت خبر سن کے اذیت بن گئی۔
”پاکستان کی وادی سندھ کے علاقہ تھر میں بھوک اور بیماری سے مرنے والے بچوں کی تعداد آج 12 ہو گئی۔ 2016میں تھر میں خوراک اور ادویات دستیاب نہ ہونے سے 600سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔“